دو یاگار تحریریں:قائداعظم۔ آئی ایس آئی

دو یاگار تحریریں:قائداعظم۔ آئی ایس آئی
دو یاگار تحریریں:قائداعظم۔ آئی ایس آئی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 ”جنرل حمید گل مجید نظامی صاحب سے بات کرنا چاہتے ہیں۔ وہ گھر جا چکے ہیں۔ گھر والا اٹینڈ نہیں کررہا۔ آپ بات کر لیں۔“ایکسچینج آپریٹر نے میرے فون اٹھانے پرکہا۔ ارشاد عارف صاحب نماز کے لیے اُٹھے تھے۔ سعید آسی صاحب کی چھٹی تھی۔ لہٰذا مجھے جنرل صاحب کا فون سننا پڑا۔ انہوں نے نظامی صاحب کے نام میسج دیا کہ ارشاد حقانی صاحب قائداعظم کی کردار کشی پر مبنی کالم لکھ رہے ہیں۔ اس کا جواب فتح محمد ملک سے لکھوائیں۔ یہ2009ء کی ایک سہہ پہر تھی۔
اگلے روز صبح میٹنگ میں میسج دے دیا تو انہوں نے مجھے ہی حقانی صاحب کے کالموں کا جواب دینے کی ہدایت کر دی۔ میں نظامی صاحب کے ساتھ میٹنگوں میں چھ سال شرکت کرتا رہا، اس دوران ان سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا۔ ارشاد عارف اور سعید آسی صاحب بھی میرے بہترین استاد رہے، وہ آرٹیکل لکھنے میں ہفتہ بھر لگ گیا، یہ طویل طویل تحریر تھی۔ جو حقائق کے ساتھ پاکستان اور قائداعظم سے محبت کرنے والے ایک طالب علم کے جذبات کاعکاس تھی۔ حقانی صاحب بھی بلا شبہ محب وطن تھے مگر قائد کے بارے ان کے نظریات کچھ منفی تھے۔اپنے کالموں میں پاکستان  بنانے کا کریڈٹ قائداعظم کے بجائے  انگریز اور نہرو، گاندھی کو دیتے  تھے۔ اُن دنوں عطا ربانی صاحب کی”سن شیل رائز“کتاب قائداعظم  شائع ہوئی جس قائد اعظم کی عطا ربانی صاحب نے تین  غلطیوں کی نشاندہی کی تھی۔پہلی غلام محمد ملک کو وزیر خزانہ بنانا دوسری جنرل ڈگلس کریسی کو حکم عدولی پرنہ صرف  سزا نہ دینابلکہ ترقی دیدینااور تیسری غلطی  اردو کو قومی زبان قرار دینا جسے کچھ  بنگالی تسلیم کرنے سے انکار کررہے تھے۔ تین غلطیوں  پرحقانی صاحب نے بڑے اہتمام  سے  تبصرہ کیا۔ رضا ربانی کے والد عطا ربانی قائد کے اے ڈی سی رہے تھے۔14 جنوری 2009ء کوآرٹیکل کی اشاعت پر حمید صاحب کا فون آیاانہوں نے ہنستے ہوئے کہا۔”اچھا لکھا۔“


دوسرا آرٹیکل آئی ایس آئی کے حوالے سے تھا۔ یہ بھی میرے لئے یادگار ہے۔ ایک دن مجید نظامی صاحب  نے بلایا۔ میری طرف نیوز ویک بڑھاتے ہوئے کہا: اس میں آئی ایس آئی کے خلاف آرٹیکل ہے اس کا جواب دینا ہے۔اس آرٹیکل میں دو بھارتیوں راجیش ایم بسرور اورسومیت گنگولی  نے پاک فوج کیخلاف بہت کچھ کہا تھا۔افغانستان میں پاک فوج کی مداخلت کا الزام لگایاگیا،زور دیا گیا کہ اب ایٹمی سٹرکچر سیویلن  حکام کیساتھ بھی شیئر کیا جائے۔ایک دو روز میں اس کا جواب شائع ہو گیا۔چار  مئی 2009ء کو دوسری قسط کی اشاعت والے روز بیل ہونے پر فون اٹھایا تو دوسری طرف سے تعارف کرانے والے کرنل صاحب تھے۔ انہوں نے کہا آپ نے آئی ایس آئی کے حوالے سے کالم لکھا ہے۔ ان کی بات مکمل ہونے سے قبل میں نے کہا جناب کچھ غلط ہو گیا کیا؟۔ نہیں ڈی جی صاحب نے پسند اور اپریشیئٹ کیا ہے۔ کرنل صاحب کا نام مجھے یاد نہیں رہا۔ دوسرے روز ایئر کموڈر خالد نے اپنا تعارف کراتے ہوئے وہی بات دہرائی جو کرنل صاحب کر چکے تھے، اس سے اگلے روز آئی ایس آئی ہیڈ کوارٹر سے پھر کال آئی، اب کے ایڈمرل شفیق لائن پر تھے۔ انہوں نے بھی کالم ہی کی بات کی۔ چوتھے روز پھر وہیں سے کال آتی ہے۔ اب جنرل شجاع پاشا بول رہے تھے۔ انہوں نے شاباش دیتے ہوئے کہا ”آئی ایس آئی کے لیے  پڑاپیگنڈہ ہو رہا ہے، آپ کے آرٹیکل سے آئی ایس آئی کا امیج بہتر ہونے میں مدد ملی ہے، ان کا یہ کہنا میرے اور ادارے کے لیے بڑا عزاز ہے۔
 عموماً اپوزیشن پارٹیاں پاک فوج پر تنقید کرتی رہی ہیں، کبھی تو معاملہ تنقید سے تضحیک،توہین اور دشنام تک بھی چلا جاتارہا ہے کسی کو ہوسکتا ہے کہ پاک فوج یا اس کے ذیلی اداروں کی پالیسی اور اقدامات پسند نہ آتے ہوں۔ جن  مسلح گروہوں کے خلاف آپریشن ہوئے ہیں وہ کب آپریشن کرنے والوں کو پسند کریں گے؟۔ کچھ عناصر ان کی آواز بن کر فوج کے خلاف محاذ بنا لیتے ہیں جس سے کچھ عام لوگ متاثر ہو کر گمراہ ہو جاتے ہیں۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کسی کو اداروں کی پالیسی بوجوہ پسند نہ آتی ہو جو ان کے لیے کسی نقصان کا باعث بن جائے تو ایسے میں کیا کیا جائے۔ اس حوالے سے رفیق غوری صاحب پر گزری پر نظر ڈالتے ہیں۔


 جنرل پرویز مشرف کے دور میں ان کی نیوز ایجنسی کا بڑا کام اور بڑا نام تھا۔ غوری صاحب کی ان دنوں شہرت آمریت مخالف کی تھی۔ ایک روز ان کو اٹھالیا گیا۔ ان کا کاروبار تباہ اور خود صحت کے مسائل کے سے دوچار ہو گئے۔
چلنا پھرنا تک دو بھر ہو گیا تھا۔ مگر ان کی زبان پر فوج کے لیے کبھی شکوہ نہیں آیا۔ ان سے جب بھی پوچھا کہ آپ کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا گیا آپ پھر بھی فوج کی حمایت کرتے ہیں۔ ان کا جواب بڑا خوبصورت  ہوتا۔ وہ کہتے،ہو سکتا ہے کی کسی اور ادارے نے فوج کا کندھا استعمال کیا ہوا اگر فوج نے بھی ایسا کیا ہے تو یہ دشمن کی فوج نہیں، میرے وطن کی سرحدوں کی حفاظت کی ضامن فوج ہے۔میں اس کیخلاف نہیں جاسکتا،اس کی کردار کُشی اور اسے بدنام نہیں کرسکتا۔
ناقابل تسخیر دفاع کیلئے پاک فوج کا مضبوط ہونا ناگزیر ہے جو قوم کے شانہ بشانہ ہونے سے ہی ممکن ہے۔پاک فوج کے خلاف آج یا ماضی میں زہر اگلنے والے ملک اور قوم کے خیر خواہ نہیں ہوسکتے۔کچھ کورس کے انداز میں یہ راگ الاپتے ہیں کہ فوج نے کوئی جنگ نہیں جیتی۔یہ جو دہشتگردی ہے……کے نعرے لگانے والے نامراد بھی یہیں رہتے ہیں۔کوئی روگ آرمی کے اشتہارات چھپوا دیتا ہے۔کوئی اپنے آقاؤں کو جرنیلوں سے تحفظ دلانے کے واسطے ڈالتا ہے۔کسی کو فوج دہشتگردوں کی پشت پناہی کرتی اور ممبئی حملوں میں ملوث نظر آتی ہے۔کوئی شہیدوں کی تضحیک اور دفاعی املاک کو جلانے کے درپے ہوچکا۔ایسے  بھی ہیں جو جھوٹ پر پوری عمارت ایستادہ کردیتے ہیں۔افواج کا بجٹ 18فیصد چلا آرہا ہے۔عمران خان کے دور میں دفاعی بجٹ بڑھانے کے بجائے کم کیا گیا۔پراپیگنڈا مشینری 18کو 81فیصد ظاہر کرکے فوج سارا بجٹ کھا گئی کا جھوٹا طوفان اُٹھادیتے ہیں۔ان جعلی اعدادو شمار کی بنیاد رکھنے اور اس پر لے اُٹھا نے والے عوام کے اندر نفرت کی چنگاریاں بھرنے کی مذموم  سازش اور غداری  کے مرتکب ہورہے ہیں۔ان کا کیا علاج ہو۔علاج بیماری کا ہوتا ہے ناسور کا نہیں۔

مزید :

رائے -کالم -