حکومت کا مستقبل

     حکومت کا مستقبل
     حکومت کا مستقبل

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 موجودہ وفاقی حکومت اور صوبائی حکومتوں نے بڑے غیریقینی حالات میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالی ہے حکومت تو بن گئی لیکن اِسے کئی محاذوں پر چیلنج درپیش ہیں۔ انتخابات میں دھاندلی کا معاملہ بڑا سنجیدہ ہے اس کے لئے سارے فریقوں کے درمیان بات چیت ضروری ہے،حکومتی حلقوں نے تو بات چیت کی دعوت دی ہے لیکن پی ٹی آئی میں اِس معاملے میں بہت اختلافات ہیں اُن کے ہر لیڈر کا بیان مختلف ہے کبھی کہتے ہیں ہمارا مینڈیٹ ہمیں واپس کر دو اور بانی پی ٹی آئی کو آزاد کرو، تمام مقدمات ختم کرو، اگر یہ ہو جائے تو پھر بات چیت کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے؟ پھر بیان آتا ہے کہ ہم نے برسراقتدار تین پارٹیوں سے مذاکرات نہیں کرنے ہم نے آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی سے بات کرنی ہے گویا بات چیت کی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی۔ مسلم لیگ (ن)  اور پیپلز پارٹی میں بھی سب اچھا نہیں لگتا کہ وہاں بھی گروپنگ ہے۔ مسلم لیگ میں توڑ پھوڑ شروع ہو چکی ہے۔ شاہد خاقان عباسی جیسے لوگ پارٹی سے نکل گئے ہیں بہت سے لوگ مطمئن نہیں اور اختلافی لائن لے رہے ہیں پھر ایسے فیصلے ہو رہے ہیں جن کا بظاہر کوئی جواز نہیں لگتا۔ وزیر خزانہ ہم عموماً باہر سے لاتے ہیں اُسی روایت پر عمل ہو رہا ہے اگرچہ اُن کا تعلق اسی سرزمین سے ہے وہ ہمارے آبائی علاقے سے سابق ایم این اے اور وفاقی وزیر چوہدری اسد الرحمن کے بھتیجے ہیں۔ پھر اسحاق ڈار کو وزیر خارجہ بنا دیا گیا ہے وہ کسی طور اِس وزارت کے لئے موزوں نہیں لگتے، اب انہیں ڈپٹی پرائم منسٹر بنا دیا گیا ہے اِس کے جواز کی بھی کسی کو سمجھ نہیں آ رہی۔ ویسے میں نے ایک کالم میں یہ تجویز کیا تھا کہ ڈپٹی پرائم منسٹر کی پوسٹ کی آئین میں گنجائش نکالی جائے او ر یہ عہدہ سینٹ کیلئے مخصوص کیا جائے تاکہ وزیراعظم اگر کسی وجہ سے اپنے فرائض ادا نہ کر سکے تو ڈپٹی پرائم منسٹر وہ فرائض سنبھال لے۔ وزیر داخلہ کا عہدہ بھی اہم ہے۔ موجودہ وزیر داخلہ کا تعلق کسی پارٹی سے نہیں ہے یہ بھی بڑی عجیب سی بات ہے۔ اب رانا ثناء اللہ کو مشیر سیاسی امور بنا دیا گیا ہے۔

اِن ساری بوالعجبیوں کے باوجود بہت سارے عوامل حکومت کے لئے مثبت اشارے دے رہے ہیں، حکومت کو اسٹیبلشمنٹ کی مکمل حمایت حاصل ہے اور ظاہر ہے اس کی بڑی اہمیت ہے۔ آئی ایم ایف سے معاملات آسانی سے طے ہو رہے ہیں۔ ویسے بھی تمام عالمی اداروں نے معیشت کے بارے میں مثبت اشارے دیئے ہیں۔ دنیا سے بھی کافی حوصلہ افزا ردعمل ملا ہے۔ امریکہ، چین، ترکی، سعودی عرب جیسے ملکوں نے مثبت پیغام بھیجے ہیں۔ بات پیغاموں تک نہیں رہی بلکہ عملی اقدامات بھی شروع ہو چکے ہیں۔ سعودی عرب کا ایک وفد پاکستان کا تفصیلی دورہ کر چکا ہے اور ابتدائی طور پر پانچ ارب ڈالر سرمایہ کاری کا وعدہ کیا گیا ہے پھر وزیراعظم شہبازشریف نے سعودی عرب کا دورہ کیا اور انہوں نے سعودی حکمران کو پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت دی ہے اور اب ایک سعودی وفد پاکستان آ کر واپس گیا ہے۔ ایران کے صدر نے پاکستان کا تفصیلی دورہ کیا اور دوستانہ مذاکرات ہوئے اور باہمی دلچسپی کے منصوبوں پر کام کا ارادہ ظاہر کیا گیا۔ اب امریکہ  کا وفد چند دِنوں میں آنے والا ہے،اہم دوست ملکوں کی طرف سے یہ اقدامات بڑے غیرمعمولی ہیں۔

پھر اندرون ملک بہت سارے منصوبوں پر کام شروع ہو چکا ہے دراصل پاکستان کو درپیش معاشی مسائل کے حل کے لئے گراؤنڈ ورک کافی عرصہ سے ہو چکا تھا لیکن حکومتیں اِس پر عملدرآمد سے گبھرا رہی تھیں۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے زمانے میں مجھے وزیر خزانہ حفیظ شیخ کی ایک تقریر یاد ہے وہ کہہ رہے تھے کہ اسلام آباد میں کئی ایسے لوگ رہائش پذیر ہیں جن کے ایک سے زیادہ گھر ہیں۔ سال میں وہ کئی دفعہ غیرملکی دوروں پر جاتے ہیں اور اُن کے بچے بہت مہنگے سکولوں میں پڑھتے ہیں، لیکن وہ ٹیکس نہیں دیتے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ایسے لوگوں کا ڈیٹا اکٹھا کر لیا ہے لیکن افسوس نتیجہ کچھ نہ نکلا۔ٹیکس بیس کو وسیع کرنا تھا،غیر منافع بخش اداروں کو پرائیویٹائز کرنا تھا۔ نگران حکومت نے ان مسائل پر عملی کام شروع کر دیا تھا اور موجودہ حکومت انہیں آگے بڑھا رہی ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری پر سالوں سے بات چیت چل رہی ہے لیکن کچھ پارٹیوں کے مفادات اس میں رکاوٹ تھے لیکن اب بھی پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم سے اِن معاملات پر بات چیت ہوئی ہے، اب اس پر تیزی سے کام جاری ہے، سٹیل مل اور دوسرے کئی منصوبوں کی نجکاری پر بھی عملی قدم اُٹھایا جائے گا۔ ٹیکس کی بنیاد وسیع کرنے پر بھی عملی کام شروع ہو چکا ہے اگر اِن منصوبوں پر اسی جذبے اور رفتار سے کام جاری رہتا ہے تو توقع کی جا سکتی ہے کہ ہم معاشی مسائل پر قابو پا لیں گے۔ پھر حکومت کے خلاف احتجاج بھی کامیاب ہوتا نظر نہیں آ رہا۔اس صورتحال کے پیش ِ نظر بظاہر ایسا لگتا ہے کہ تمام منفی عوامل کے باوجود حکومت دو تین سال قائم رہے گی۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے روایتی طور پر سیاسی حکومت کو اتنا ہی وقت ملتا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -