اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 11
میں سوچنے لگا۔ میں نے انہیں اٹھنے کے لئے کہا۔ وہ ادب سے سروقد کھڑے ہوگئے۔ انہوں نے اپنے ہاتھ سینے پر باندھ رکھے تھے۔ اس سے پہلے کہ میں ان سے کوئی سوال کرتا سرائے کے مالک نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔
’’ عظیم دیوتا ! بعل کے مقدس معبد کے کاہن اعظم عاطون آپ کو اپنی سرائے کی چھت پر دیکھ کر ہماری زبانیں گنگ ہوگئی ہیں لیکن ہم اپنی قسمت کی سربلندی پر جس قدر ناز کریں کم ہے کہ آپ نے اپنے قدموں سے ہمارے غریب خانے کو زینت بخشی۔‘‘
اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 10 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میرا ذہن تیزی سے کام رہا تھا۔ یہ حقیقت مجھ پر پہلے سے عیاں ہوچکی تھی کہ مجھے ایک خاص مدت کے لئے موت کے پنجہ ستم آفریں سے آزاد کردیا گیا ہے۔ لیکن اس پر اسرار تجربے سے پہلی بار متعارف ہوا کہ تہذیب کے جس قدیم دور میں میرا ورود ہوا ہے وہاں میں دیوتا بعل کے کاہن اعظم کے روپ میں نمودار ہوا ہوں۔ جو ان دیکھی طاقت مجھے زندہ رکھے ہوئے تھی اس نے میرے دفاع کی تہوں میں اس عہد کی ساری باتیں ، ساری یادداشتیں ، ساری جزئیات اور تفصیلات اور لوگوں کی شکلیں ، ان کے نام ابھارنے شروع کر دیئے۔ ہر چیز کھل کر میرے سامنے آگئی اور میرے شعور نے کام کرنا شروع کردیا۔ میرا نام نہیں بدلا تھا۔ شکل نہیں بدلی تھی باقی سب کچھ بدل گیا تھا۔ میں موہنجودڑو کے سب سے بڑے اور سب سے مقدس معبد کا کاہن اعظم عاطون تھا اور لوگ حیران ہو رہے تھے کہ جو معبد میں سونے کی چوکی پر بیٹھ کر دیوتا بعل کے لئے نذر انے وصول کرتا ہے اور جس کے آگے موہنجودڑو کا حکمران بادشاہ سومر بھی تعظیم سے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوتا ہے۔ وہ ایک پرانی سرائے کی چھت پر کیسے آگیا؟ میرے ساتھ تقدیر نے پہلا مذاق یہ کیا تھا کہ مجھے موت سے بے نیاز کر دیا تھااور اب دوسری ستم ظریفی یہ کی تھی کہ موہنجودڑو میں بادشاہ کے بعد مجھے ملک کی سب سے باعزت و باوقار شخصیت یعنی عظیم الشان معبد کاہن اعظم بنا دیا تھا۔ میں نے سرائے کے مالک سے کہا۔
’’ تعجب کرنے کی کوئی بات نہیں ۔ مجھے مقدس دیوتا بعل نے تم لوگوں سے حالات سے آگاہ کرنے کے لئے یہاں بھیجا تھا۔ اب میں واپس اپنے معبد جا رہا ہوں۔‘‘
اتنا سنتے ہی وہ سب لوگ ایک بار پھر سجدے میں گر پڑے۔ میں ان کے اوپر پاؤں رکھتا ہوا سیڑھیاں اتر کر نیچے آگیا۔ بازار میں بھی لوگ ہکا بکا ہو کر مجھے دیکھنے لگے اور پھر ہر کوئی تعظیم سے جھک گیا۔ میرے اندر کی غیبی طاقت کا کر رہی تھی۔ اس نے مجھے مقدس معبد کا راستہ بتایا اور میں بازار کی ایک طرف چل پڑا۔ دوکانوں پر بیٹھے ، مکانوں کی ڈیوڑھیوں میں کھڑے اور بازار میں آتے جاتے لوگ مجھے دیکھتے ہی سر سجود ہوجاتے۔ بڑھئی نے اپنا تیشہ روک لیا۔ لوہار کے ہاتھ دھونکی پر ہی رہ گئے۔ میں تیز تیز چلتا ، بازاروں سے گزرتا، بعل کے عظیم و جاجبروت معبد کی سیڑھیوں کے سامنے آکر رک گیا۔ معبد کے جاہ و جلال اور سنگ مر مر کی کشادہ سیڑھیوں کی دونوں جانب ادب و تعظیم سے ہاتھ باندھ کر سربہ گریباں کھڑے ہوگئے میں بھی بڑے وقار او بڑی شان کے ساتھ سیڑھیاں چڑھتے ہوئے معبد کے بلند محراب والے دروازے میں داخل ہوگیا۔
مندر میں عود و لوبان سلگ رہے تھے۔ فضا قسم قسم کی خوشبوؤں سے بوجھل ہو رہی تھی۔ شوخ جسم حسین دیوداسیاں نیلے اور زرد لباس پہنے دیوتا بعل اور دیوی اشتر کے بتوں کے آگے بھجن گا رہی تھیں۔ میری آمد پر دیوداسیاں اور پجاری تعظیم بجا لائے اور مندر کے بلند ستونوں کے پاس قطار باندھ کر کھڑے ہوگئے۔ میں نے گوشہ چشم سے دیکھا کہ بعل دیوتا کا بت ایک بہت بڑے سرخ پتھر کے بیل کی شکل میں تھا اور دیوی اشتر کا بت ایک عورت کے روپ میں تھا جس کی گردن میں کنول کا ایک پھول سانپ کی طرح لٹکا تھا۔ یہ دریائے سندھ کی دیوی تھی۔ اس مندر کی دیومالا کے تمام اسرار خودبخود میرے شعور پر منکشف ہوتے چلے جا رہے تھے۔
بعل کے بت کے پاس سنگ مر مر کے چبوترے پر سونے کی چوکی پڑی تھی۔ یہ میرے بیٹھنے کی جگہ تھی یعنی یہاں بعل کے عظیم الشان مندر کا باجبروت کاہن اعظم بیٹھ کر بعل دیوتا کی پوجا کرتا تھا اور شاہی خاندان کے افراد سے قیمتی نذرانے وصول کرتا تھا۔
میں چبوترے کی سیڑھیاں چڑھتا اپنی مسند پر آکر بیٹھا تو مندر کی فضا سنکھ اور نفیریو ں کی صداؤں سے گونج اٹھی۔ دیوداسیاں نیم دائرے کی شکل میں میرے چبوترے کے آگے آکر دست بستہ کھڑی ہوگئیں اور ایک گہرا سناٹا چھا گیا۔ وہ شاید میری زبان سے ادا کئے جانے والے افتتاحی اشلوکوں کا انتظار کر رہی تھیں۔ غیبی طاقت نے میرے شعور کو ہوا دی اور سب کچھ یاد آنے لگا۔ میں نے اپنے سونے کے کرمنڈر میں سے دریا کا مقدس پانی لے کر بت کے پاؤں پر چھڑکا اور پہلا اشلوک پڑھا۔ اس کے ساتھ ہی دیوداسیوں اور پجاری لڑکوں نے بلند آواز میں اشلوک پڑھنے شروع کر دیئے۔ اشلوک جاری تھے کہ ایک جانب سے گھنگرؤں کے چھناکے سنائی دیئے اور پھر ایک شعلہ رو ،شوخ چشم رقاصہ پاؤں میں گھنگھرو باندھے ، بازوؤں پر ہیرے موتیوں کے جڑاؤ بازو بند سجائے ، بالوں میں کنول کے پھولوں کا گجرا باندھے شعلہ جوالہ کی طرح رقص کرتی ہوئی نیم روشن ستونوں کے پیچھے سے نکلی اور میرے چبوترے کے سامنے آکر کھڑتابوں اور ڈھول تاشوں کی لے پر رقص کرنے لگی۔
یہ بے حد حسین اور مہ جبین رقاصہ تھی۔ مجھے یوں لگا جیسے میرا دل پہلے ہی سے اس کی الفت میں سرشار ہے۔ اسے دیکھ کر میری نبض کی رفتار تیز ہوگئی۔ وہ بھی دیوتا بعل کے حضور رقص کرتی ہوئی کبھی کبھی گوشہ چشم سے مجھے دیکھ لیتی تھی۔ مگر اس کے نازو ادا میں ایک وقار ، دبدبہ اورجلال کے ساتھ ساتھ پاس ادب کا جذبہ بے پناہ بھی تھا۔ وہ ایک لمحہ کے لئے بھی اس بات کو فراموش کئے ہوئے نہیں تھی کہ وہ دیوتا بعل اور دیوی اشتر کے حضور میں رقص کر رہی ہے اور اس کی ذراسی لغزش اور بے ادبی اسے فنا کر سکتی ہے۔ اس کے باوصف ووالہانہ رقص کے دوران کسی کسی وقت مجھ پر ایک نگاہ التفات ڈال لیتی تھی۔
رقص کے اختتام پر اس نے ہاتھ جوڑ کر دونوں دیوی دیوتا کی تعظیم کی ، ساز رک گئے دیوداسیاں سجدے میں گر پڑیں۔ پجاری لڑکے دھیمی آواز میں پھر وہی اشلوک دہرانے لگے اور یہ رقاصہ جس کا نام روکاش تھا سر جھکائے ادب سے چلتی میرے چبوترے کے سامنے آئی اور اس نے دونوں ہتھیلیاں آگے پھیلا دیں۔ میں نے دیکھا کہ اس کی ہتھیلیوں پر زعفران کی مہندی لگی تھی۔ مجھے کاہن اعظم کے منصب پر رہتے ہوئے جو کچھ کرنا تھا سب یاد آچکا تھا۔ میں نے سونے کے کرمنڈل میں سے مقدس پانی اس کی ہتھیلی پر چھڑکا اور چنگیر میں سے گلاب کے دو سرخ پھول اٹھا کر اس کی ہتھیلی پر رکھ دیئے۔
رقاصہ روکاش نے آہستہ آہستہ اپنا چہرہ اٹھا کر اپنی بڑی بڑی پر اسرار سرمگیں آنکھوں سے مجھے دیکھا اور ذرا سا مسکرا کر سرگوشی میں بولی۔
’’ آدھی رات ۔ تہہ خانہ۔‘‘‘ میں اندر سے چونکا اور پھر دلفریب انداز میں اسکی حوصلہ افزائی کی ۔
(جاری ہے... اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں )