اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 10
منزلوں پر منزلیں طے کرتا ہمارا قافلہ بصرے پہنچ گیا۔ آج سے پانچ ہزار برس پہلے کا بصرہ کیسا تھا؟ آپ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ لیکن اس زمانے میں اس کا نام بصرہ نہیں بلکہ ایکال تھا۔ یہ عبرانی نام تھا۔ یہاں سے بادبانی جہاز تجارت کا مال اور مسافروں کو لے کر ملک سندھ کی طرف جاتے تھے۔ بصرہ یعنی ایکال میں کچھ روز بسر کرنے کے بعد میں ایک بادبانی جہاز میں سوار ہو کر سمندری سفر پر سندھ کی طرف روانہ ہوگیا۔ یہ سفر بڑا سخت جان اور مصائب سے پر تھا۔ ہم ہواؤں کے رحم و کرم پر تھے۔ کھلے سمندر میں ایک مقام پر ہمارا جہاز رک گیا۔ تین روز تک ہم ہوا کے دوبار چلنے کا انتظار کر تے رہے۔ چوتھے روز ہوا چلی تو بادبان کھول دیئے گئے اور ہمارا سمندری سفر ایک بار پھر شروع ہوگیا۔
راستے میں طوفان بھی آئے ہمارا لکڑی کا ایک جھوٹا سا بادبانی جہاز طوفانی لہروں پر کھلونے کی طرح اچھلتا رہا۔ خدا خدا کر کے ایک طویل تھکا دینے والے سمندری سفر کے بعد ایک بار پھر شروع گیا۔ راستے میں طوفان بھی آئے ہمارا لکڑی کا ایک چھوٹا سا بادبانی جہاز طوفانی لہروں پر کھلونے کی طرح اچھلتا رہا۔ خدا خدا کر کے ایک طویل تھکا دینے والے سمندری سفر کے بعد جہاز ملک سندھ کے ایک ساحل کے ساتھ جا لگا۔ کالاچی(کراچی شہر) میں آنے کے بعد میں نے ہفتہ لگا کر پاکستان کے اس ساحل کی شروع سے آخر تک بادہ پیمائی کی مگر کوشش کے باوجود میں اس جگہ کی نشاندہی نہ کر سکا جہاں سے پانچ سوا پانچ ہزار برس پہلے میرا بادیانی جہاز سر لگا تھا۔ اور اس میں سے تھکے ہارے مسافر نکل کر افتاں و خیزاں اپنی اپنی منزل کی طرف روانہ ہو گئے تھے۔
یہ اسلام سے بہت پہلے کا سندھ تھا۔ اور یہاں شمال میں آریاؤں نے دور دور آباد میں اپنی اپنی راج دھانیاں بنا کر حکومتیں قائم کر رکھی تھیں۔ اس وقت سارے ہندوستان کو سندھ کے نام سے جانا اور پکارا جاتا تھا۔ اندرون سندھ موہن جودوڑو کی تہذیب زوال پر تھی اور آریا راجہ اس شہر اور اس کے ہم تہذیب شہر ہڑپہ پر بار بار حملے کرتے رہتے تھے۔
سندھ کی جس چھوٹی سے بارونق بندرگاہ پر میں آج سے پانچ ہزار برس پہلے آکر اترا تھا اس کا نام اب میری ذہن سے اتر گیا ہے۔ میرا گمان ہے کہ یہ کہیں گوادر کے آس پاس ہو گی۔ مگر اب تو اس کا نشان تک کہیں نظر نہیں آتا۔ میں پہلی بار سندھ کے لوگوں کو دیکھ رہ اتھا۔ ان کے رنگ سانولے تھے۔ وہ قد کاٹھ میں اونچے لمبے اور مصریوں کے مقابلے میں زیادہ تنومند اور خوش حال لگتے تھے۔ ان کے لباس صاف ستھرے تھے۔ سینہ اور کندھے چوڑے چکلے تھے۔ بندرگاہ کے قریب ہی ایک کارواں سرائے تھی۔ مین اس میں اتر گیا اتنے لمبے تکلیف دہ سمندری سفر کے باوجود مجھ پر تکان کے کوئی اثرات نہیں تھے۔ میرا ارادہ موہن جودوڑو میں جا کر طبابت کرنے کا تھا۔ میں نے بعض قافلے والوں سے اس شہر کے عروج و ترقی کی بہت سی داستانیں سن رکھی تھیں لیکن بادبانی جہاز میں مجھے سندھی مسافروں نے بتایا کہ اب اس شہر کا زوال شروع ہوچکا ہے اور آریہ راجاؤں کے حملوں کی وجہ سے اس عظیم الشان شہر کا سکون برباد ہوچکا ہے۔
آج اندرون سندھ ، اس عظیم الشان تہذیب کے صرف کھنڈر ہی باقی رہ گئے ہیں۔ آج کے ماہرین آثار قدیمہ اس کھنڈر کی ہموار گلیوں اور کنوؤں کو دیکھ کر انگشت بدنداں ہیں لیکن اس وقت سوائے میرے اور کوئی نہیں جانتا کہ اس شہر موہن جودوڑو کے وسط میں ایک پختہ اینٹوں کا بنایا ہوا اونچا مینار تھا جو فلکیات کی لیبارٹری تھی اور جہاں سے موہنجودوڑو کے قدیم سندھی سائنس دان اور ماہرین فلکیات ستاروں کی چال کا مشاہدہ کرتے تھے۔ اس لیبارٹری میں سورج اور چاند گرہن کا اور بروج و سیارگان کی تقویم کا پورا ریکارڈ موجود تھا۔
کراچی شہر میں پہنچنے کے بعد میں سب سے پہلے موہن جودوڑو کے کھنڈزات دیکھنے گیا تھا۔ یہاں کے ایک مندر کی دیوداسی رقاصہ روکاش کے ساتھ میری زندگی کا ناقابل فراموش ڈرامہ کھیلا گیا تھا لیکن مجھے اس دیو پیکر معبد کے کہیں کھنڈر بھی دکھائی نہ دیئے۔ کچھ گلیوں کو میں نے پہچان لیا۔ حیرت کی بات ہے کہ ان گلیوں کی اینٹیں پانچ ہزار سال کے انقلابات زمانہ کو برداشت کر گئین اور ان کی بناوٹ ویسی کی ویسی ہی رہی۔ میں نے اپنی آنکھوں سے موہن جودڑو کے مزدوروں کو ان گلیوں ، مکانوں اور نئے معبدوں کی دیواروں میں اینٹیں لگاتے دیکھا ہے۔ میں نے خوش لباس دمکتے سانولے چہروں والی دو شیزاؤں کی معبدوں میں عبادت کرتے اور دریا پر نہاتے قہقہے لگاتے دیکھا ہے۔ آج ان کے روشن خوبصورت چہرے وقت کی میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گم ہوگئے ہیں اور ان کے زندگی سے بھر پور قہقہے تاریخ کے نہاں کانوں کی تاریکیوں میں اتر گئے ہیں ۔ تاریخ کے اوراق وقت کی سب سے بڑی عبرت گاہ ہیں اور میں ان اوراق کو ایک ایک کر کے آپ کے سامنے کھول رہا ہوں۔ اس اس لئے کہ میں ہزاروں برس کی تاریخ کا عینی گواہ ہوں اور انسانی تاریخ کے عظیم قافلے کے ساتھ ساتھ سفر کرتا رہا ہوں۔
وہ کون سے فطرت کے قوانین تھے جن کی خلاف ورزی موہن جودڑو کے لوگوں نے کی اور ان پر قدرت خداوندی کا عذاب نازل ہوا اور یہ جیتی جاگتی زندہ تہذیب دیکھتے دیکھتے صفحہ ہستی سے مٹ گئی۔ یہ بھی میں آپ کو ضرور بتاؤں گا کیونکہ یہ سب کچھ میری آنکھوں کے سامنے ہوا۔ میں انسانی تاریخ کی سچی داستان بیان کر رہا ہوں۔ انسانی تہذیبوں کے عروج و زوال کی کہانی نہیں بلکہ سفر نامہ قلمبند کر رہا ہوں۔ تاریخ کی یہ کہانی حرف بہ حرف سچی ہوگی۔ غلطی ، مبالغے اور مروجہ تاریخ کے واقعاتی اغلاط سے پاک ہوگی کیونکہ مین مورخ نہیں ہوں بلکہ خود تاریخ ہوں۔ ایک طویل و عظیم اور حیرت و استعجاب سے لبریز انسانی تاریخ ۔۔۔ ایک فتح سے دوسری فتح کی طرف دوڑتے ہوئے بادشاہوں کی فوجوں کے رتھ اور فاتح بادشاہوں کے سینوں میں اترتے ہوئے سازشی خنجر اور چاندنی راتوں میں قلعے کی دیواروں سے اتر کر فرار ہوتی شہزادیاں او بابلی مندروں کے چبوتروں پر بیٹھی جسم فروش حسینائین جن کے گھروں کے چراغ ان کی حرام کی کمائی سے روشن ہوتے تھے اور شاہی رقاصاؤں کے ایک اشارے پر نیک انسانوں کی کٹتی ہوئی گردنین اور فاتح فوجوں کی زد میں آئے ہوئے شہروں کے بلند ہوتے شعلے اور آسمانوں سے نازل قہر خداوندی۔ یہ میری عظیم سفر نامے کی چند روشن و تاریک جھلکیاں ہیں ۔ کراچی کے ساحل پر اپنے دور افتادہ تنہا کاٹج میں بیٹھا تاریخ کا انوکھا سفرنامہ لکھ رہا ہوں۔ ابھی تو صرف اس مقام پر پہنچا ہوں کہ جب میں آج سے پانچ ہزار سال پہلے کے سندھ کے شہر موہنجودرو کی ایک کارواں سرائے میں اترا اور اسی شہر کے ایک عظیم مندر کی رقاصہ دیوداسی روکاش حسن وعشق کی خون آشامیوں کے ساتھ میرا انتظار کر رہی تھی۔
****
اس وقت بھی جب میں کراچی کے ساحل سمندر والے اپنے تنہا کاٹج میں بیٹھا اپنی طویل ترین زندگی کا حیرت انگیز سفرنامہ قلمبند کر رہا ہوں تو دیوداسی اور شاہی رقاصہ روکاش کی مورتی کا ایک ماڈل میری میز پر رکھا ہے۔ کانسی کا یہ بت ٹھنڈا اور بے جان ہے۔ لیکن کبھی اس مورتی کی حقیقی حرارت سے برف زاروں میں شعلے بھڑک اٹھتے تھے اور اس کی حشر سامانیاں قیامت ڈھاتی تھیں۔ میں اپنی زندگی کی قدیم ترین کہانی لکھنے بیٹھا ہوں تو میں سارے سچے واقعات ترتیب و تواتر کے ساتھ بیان کروں گا۔ میں آپ کو وہ باتیں بھی بتاؤں گا جن سے تاریخ کے اوراق ناآشنا ہیں لیکن میں انہیں جانتا ہوں۔ میں آپ کو بتاؤں گا کہ موہنجودڑو کا جیتا جاگتا تہذیب و تمدن کی ہماہمی سے لبریز شہر کس طرح اچانک تباہ ہوگیا۔ کیونکہ میں اس کا گواہ ہوں۔ میں نے اس شہر کو تباہ ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ بات سوائے میری دوسرا کوئی بیان کرنے کے لئے زندہ نہیں ہے۔
جس روز میں موہنجودڑو کے شہر کی ایک کارواں سرائے مین اترا تو میرا لباس اس زمانے کے مطابق اپنے آپ تبدیل ہوچکا تھا اور اس شہر کے معاشرے میں میری حیثیت کاتعین ہو چکا تھا۔ وہاں کے لوگ مجھے ایک خاص نام اور ایک خاص عہدے کی وجہ سے پہلے سے جانتے تھے۔ یہ میرے لئے ایک نئی بات تھی اور اس کا مجھے پہلی بار تجربہ ہو رہا تھا۔ اس کے بعد تو میں اس کا عادی ہوگیا تھا۔ چنانچہ جب میں کارواں سرائے کی چھپ پر پہلی رات بسر کرنے کے بعد جاگا تو اپنے لباس کو دیکھ کر مجھے تعجب ہوا۔ میر الباس قدیم مصریوں جیسا نہیں تھا بلکہ موہنجودرو کے لوگوں جیسا تھا اور میں نے محسوس کیا کہ یہ لباس ریشمی ہے اور قیمتی ہے۔ پہلے تو میں یہی سمجھا کہ کسی نے سونے میں میرا لباس اتار کر دوسرا لباس پہنا دیا۔ لیکن ایسا بے وقوف چور کون ہوسکتا تھا جو میرے معمولی کپڑے اتار کر اپنے ریشمی کپڑے پہنا گیا ہو۔ میں ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ سرائے کا مالک کسی کام سے چھت پر آیا تو مجھے دیکھ کر حیرت زدہ رہ گیا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ وہ مجھے دیکھ کر حیران کیوں ہوا ہے؟ اور مجھے اچانک محسوس ہو اکہ مین ان کی زبان میں بڑی روانی سے بات کر سکتا ہوں۔ گویا ان لوگوں کی زبان بھی خود بخود مجھے آگئی تھی۔ یہ کایاپلٹ میرے لئے بھی حیرت انگیز تھی۔ سرائے کے مالک کے منہ سے بات نہیں نکل رہی تھی۔ وہ گھبرا کر نیچے چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو اس کے ساتھ اس کے غلام بھی تھے۔ وہ سارے کے سارے ایک دم میرے سامنے سجدہ ریز ہوگئے۔ یا خدا یہ کیا معمہ ہے؟ (جاری ہے)