اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 9
مجھے دو ایک بار ان کے حلقہ درس میں باریاب ہونے کی سعادت نصیب ہو چکی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مجھ پر (جیسا کہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں ) اسلام کی عظمت اور قرآن کی حقانیت کا انکشاف ہو اور میں نے بے اختیار ہو کر اسلام قبول کرتے ہوئے خدائے ذوالجلال کے آگے سرجھکا دیا۔ میرا یہی ذوق و شوق مجھے شیخ عبدالعزیز یحییٰ الکنانی کی مجلس بابرکت میں لے گیا تھا۔ شیخ بڑے عظیم عالم حق اور محدث تھے۔ وہ در مکہ معظمہ میں قیام پذیر تھے اور وہیں درس دیا کرتے تھے۔ ان کے چہرے پر اللہ کا نور تھا۔ دنیوی نمائش و ظاہر داریوں سے بے نیاز تھے۔ درس قرآن دیتے وقت ان پر ایک جلال کی کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ پہلے روز میں ان کی مجلس میں گیا تو جوتیوں میں جا کر بیٹھ گیا۔ شیخ نے نگاہ پُر جمال مجھ پر ڈالی اور کہا۔ ’’ واللہ تم تاریخ کے گواہ ہو اور گواہ رہنا کہ اللہ ایک ہے۔ حضور نبی ﷺ اللہ کے رسول ہیں اور قرآن اللہ کا کلام ہے۔‘‘ جب انہیں فتنہ معتزلہ کی خبر لی تو اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر بغداد کی طرف چل پڑے۔
بغداد میں جمعتہ المبارک کا دن تھا۔ مسجد اصافہ نمازیوں سے کھچا کھچ بھری ہوئی تھی۔ ایک ستون کے پاس میں بھی ادب سے بیٹھا تھا۔ میں نے دیکھاکہ شیخ عبدالعزیز بن یحییٰ الکنانی نمازیوں کی پہلی صف میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ سامنے والے ستون کے پاس ان کا بیٹا دوزانو قبلہ رو ہو کے بیٹھا تھا۔ آپ نے اپنے بیٹے کی طرف دیکھا اور پکار کر پوچھا۔
’’ میرے بیٹے! قرآن کے بارے میں تم کیا جانتے ہو۔۔۔؟‘‘
بیٹے نے جواب دیا ۔ ’’ اللہ جل شانہ کا کلام ہے۔اللہ جل شانہ کا نازل کردہ ہے اور غیر مخلوق ۔‘‘
مسجد میں لوگ دم بخود ہو کر ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔ کچھ لوگ وہاں سے اُٹھ کر چلے جاتے ہیں۔ لیکن شیخ اپنی جگہ پر کھڑے تھے۔ گورنر کے سپاہیوں نے ان باپ بیٹے کو گرفتار کر کے بغداد کے کوتوال عمرہ بن سعدہ کے سامنے پیش کیا۔
کوتوال نے پوچھا۔۔۔ ’’ تمہارا نام کیا ہے؟‘‘
’’ عبدالعزیز بن الکنانی۔‘‘
’’ کس شہر سے آئے ہو؟‘‘
’’ مکہ معظمہ سے ۔‘‘
’’ مسجد میں تم نے اور تمہارے بیٹے نے جو کچھ کہا، اس سے کے بعد کہو کیا خواہش ہے تمہاری‘‘ شیخ بن عبدالعزیز یحییٰ الکنانی نے بے خوف ہر کر کہا۔
’’ اللہ جل شانہ کی خوشنودی اور اس کے قرب کی خواہش۔‘‘
شیخ عبدالعزیز بن یحییٰ کو مامون الرشید کے دربار میں پیش کیا گیا۔ بڑے بڑے علماء وہاں موجود تھے۔ میں بھی اس وقت خلیفہ وقت کے دربار میں تھا۔ مامون الرشید تخت پر جلوہ افروز تھا۔ شیخ عبدالعزیز بن یحییٰ الکنانی پہلے دو رکعت نماز ادا کرتے ہیں۔ پھر چہرے پر جلال لئے دربار میں داخل ہوتے ہیں۔ شاہی خدام انہیں پکڑ کر آگے کرنا چاہتے ہیں کہ مامون الرشید خدام کو پرے ہٹ جانے کا اشارہ کرتا ہے۔ مامون الرشید نے شیخ عبدالعزیز بن یحییٰ سے کہا۔
’’ تم نے ایک دینی حکم سے انحراف کیا اور خدا کی صفات میں شرک کیا ہے۔‘‘
میری نگاہیں دربار میں کھڑے شیخ کے پر جلال چہرے پر تھیں۔ انہوں نے گرج دار آواز میں کہا۔
’’ امیر المومنین ! میں ایک غریب الدیار طالب علم ہوں۔ مجھے خانہ خدا کے جوار میں رہنے کا شرف حاصل ہے۔ میں نے سنا کہ حق دب گیا ہے اور سنت رسولؐ کی شمع کو بجھانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ بدعت ہوا پکڑ رہی ہے اور ایک شخص ہر مسلمان کے لیے ایک ایسی شرط کو جزو ایمان قرار دے رہا ہے جس کا اقرار نہ خدا نے امت مسلمہ سے کرایانہ خدا کے رسولﷺ نے اس کی گواہی دی جس کا اعلان نہ خلفائے راشدین نے کیا، نہ کسی صحابی رسولﷺ نے کیا۔ اور اس شرط کا اعلان وہ شخص کر رہا ہے جو ہارون الرشید کے گھر پید اہوا ۔ اس نے اصحاب رسول ﷺ کو دیکھا نہ تابعین کو اور نہ عہد نبوت کی برکتوں سے فیض یاب ہوا ۔ اس کے باوجود وہ اس مخفی راز کو جاننے کا داعی ہے جس کا علم نہ تابعین کو تھانہ صحابہ کرام کو حالانکہ وہ دنیا سے ایک مومن کی حیثیت سے رخصت ہوئے اور نہ ہی رسول اللہ ﷺ نے اس کے بارے میں کچھ فرمایا حالانکہ حضور ﷺ صاحب ولی رسالت تھے۔۔۔ امیر المومنین ! تم ہوا کا وہ جھونکا ہو جس سے شریعت کی شمع تو روشن نہ ہوسکی مگر جس نے سنت کے چراغ کو بجھانے کی جسارت کی ہے۔ اے ہارون کے بیٹے ! اللہ سے ڈرو۔ اس کے عذاب کی پکڑ سے لرز کہ جس کی ڈھیل ضرور ہے مگر جس سے چھٹکارا ہر گز نہیں۔‘‘
میں نے دربار پر ایک نظر ڈالی۔ ہر طرف ایک سناٹا طاری ہوگیا تھا۔ مامون الرشید خاموشی سے سنتا رہا۔ اس نے معتزلہ کے سرخیل بشیر مریسی کی طرف اشارہ کیا۔ اس نے شیخ سے سوال کیا۔ ’’ قرآن نے کئی مقامات پر اللہ کو خالق کل شئی کہا ہے۔ یعنی اللہ ہر شے کا خالق ہے۔‘‘
شیخ نے جواب دیا۔ ’’ ہاں اللہ ہی ہر شے کا خالق ہے۔‘‘
’’ قرآن بھی شے ہے کہ نہیں ۔‘‘ بشیر مریسی نے پوچھا۔
شیخ نے کہا۔ ’’ اچھا میں تسلیم کرتا ہوں۔ قرآن بھی اشیاء میں داخل ہے۔ ‘‘
مامون الرشید اور بشیر بے اختیار پکارے۔ ’’ توپھر قرآن مخلوق ہوا۔‘‘
شیخ عبدالعزیز بن یحییٰ الکنانی کی بے باک آواز دربار میں گونجی۔
’’ اس سے یہ ہر گز لازم نہیں آتا کہ قرآن بھی شے ہے۔ قرآن میں آیا ہے۔ا للہ تم کو اپنے ’’ نفس‘‘ سے ڈراتا ہے۔ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ کا بھی نفس ہے۔ پھر قرآن کہتا ہے۔کل نفس ذائقہ الموت( ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے) پس اگر اشیا میں داخل ہو کر موت کا مزا چکھے گا؟‘‘
ساری مجلس پر ایک مہیب خاموشی چھا گئی۔ معتزلہ کے علماء بغلیں جھانکنے لگے۔ شیخ عبدالعزیز اپنے بیٹے کو ساتھ لے کر دربار سے تشریف لے گئے۔ سارا بغداد ان کے خیر مقدم کے لئے امڈ پڑا تھا۔ میں خود ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور اسلام کو فتنہ معتزلہ سے بچانے کے لئے ان کے جہاد برحق پر انہیں مبارکباد پیش کی۔ شیخ نے خندہ فرمایا اور کہا۔
تو گواہ رہنا کہ اللہ کے اس بندے نے سنت رسول ﷺ کا اتباع کیا ہے۔‘‘
تاریخ کا یہ زندہ جاوید جہاد مجھے آپ کو آگے چل کر بیان کرنا تھا۔ جب میں تاریخ کا عہد بہ عہد سفر کرتے ہوئے عہد بنو عباس میں داخل ہوا تھا لیکن جذبات کی روانی میں اسے شروع میں ہی قلم بند کر گیا۔ لیکن ابھی اسلام اور قبل اسلام کی پوری تاریخ میرے سامنے کھلی پڑی ہے اور مجھے ابھی ان گنت ایسے زندہ و جاوید واقعات آپ کو سنانے ہیں کہ جن میں بعد کے مورخوں نے بعض مصلحتوں کی بنا پر تحریف کردی لیکن میں آپ کو یہ ساری واقعات من و عن اور پورے صحت کے ساتھ سناؤں گا کیونکہ میں تاریخ کا عینی شاہد ہوں۔ اس کا گواہ ہوں۔ میں نے تاریخ کے عظیم انقلابوں کو اپنی چشم حیرت کے سامنے برپا ہوتے دیکھا ہے۔ ابھی تو میرے سفر کا آغاز ہے۔ ابھی تو مجھے پر میری قوتوں کے انکشاف کا پہلا زور ہی ہے اور میں ایک قافلہ کے ساتھ قدیم مصر سے نکل کر ملک سندھ کی طرف سفر کر رہا ہوں۔