اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 8
فرعون کفروتی کا دیو پیکر اہرام ، دور سے ایک تکونی پہاڑی کی مانند دکھائی دے رہا تھا۔ صحرا کی ٹھنڈی ٹھنڈی شبنمی ریت پر میرا گھوڑا ہوا سے باتیں کرتا، اہرام کی طرف بڑھتا رہا تھا۔
مجھے بار بار ایتھنز کے بازار میں اس دکاندار کا خیال آرہا تھا جس نے مجھے گھور کر دیکھا تھا ۔۔۔ انہی خیالوں میں گم ، اہرام کے قریب پہنچ کر ، میں نے گھوڑے کو ایک طرف کھڑا کیا اور خود ، اہرام کے اندر چلا گیا۔ اہرام کے اندر جانے والے راستے میں اندھیرا تھا۔ میرے والد کی قبر پہلے ہی چبوترے پر تھی۔ وہاں سرہانے کی جانب ایک طاق میں سرکاری طور پر ، روغن زیتون کا چراغ روشن تھا۔ میرے والد کے چہرے کا بت ممی کے سنگی تابوت پر خاموش اور موت کی دبیز سکوت میں غرق تھا۔ میں نے رسم کے مطابق اپنے باپ کے چہرے پر ہاتھ رکھ کر ، اسے اپنے دل سے لگایا، اور وہاں کی رسم کے خلاف ، رب شمس کا نام لے کر دعا مانگنے کی بجائے، اپنے دل میں خدائے واحد کے حضور، اپنے والد کی بخشش کے لئے دعا مانگی اور اہرام سے باہر آگیا۔
اہرام مصر سے فرار۔۔۔۔۔ہزاروں سال سے زندہ انسان کی حیران کن سرگزشت۔۔۔ قسط نمبر 7پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
اہرام کے تاریک سرنگ نما راستے سے نکلتے ہوئے میں نے ایک سائے کو دیکھا جو تیزی سے ایک طرف ہو کر اندھیرے میں غائب ہو گیا تھا۔ میں اسے اپنا وہم سمجھتے ہوئے باہر آیا اور گھوڑے پر سوار ہر کر ، غلاموں کے قبرستان میں اپنی والدہ کی قبر پر آگیا۔
میں نے یہاں بھی اپنی والدہ کی قبر کے پتھر کو چھو کر ، ہاتھ اپنے دل میں لگایا اور خدائے واحد کے حضور دعا مانگنے لگا۔ میری آنکھیں بند تھیں اور میں گویا ایک طرح سے مراقبے میں تھا کہ مجھے ایک بار پھر اپنی والدہ کی شبیہہ دکھائی دی۔ وہی سفید لباس، نورانی چہرہ اور ہاتھ میں سفید کنول پھول کی چھڑی۔ میرن آنکھیں بند تھیں لیکن مجھے یوں لگ رہا تھا جیسے میں کھلی آنکھوں سے اپنی والدہ کی روح کو دیکھ رہا ہوں۔ میں نے بولنا چاہاتو جیسے میرے قوت گویائی سلب ہوگئی۔ میری والدہ کی شبیہہ نے کنول کی چھڑی والا ہاتھ تھوڑا اوپر اٹھایا اور پھر مجھے ان کی آواز سنائی دی۔
’’ میری لخت جگر ! ہمیشہ ایک خدا کی عبادت کرنا ، اسی کی بندگی کرنا۔ اس نے نامعلوم مدت کے لئے تیری موت کو ٹال دیا ہے۔ یہ مدت کتنی ہے، کوئی نہیں جانتا۔ اب واپس چلے جاؤ۔ اپنے باپ کی روح کے لئے بھی دعا کرتے رہنا۔ خدا تمہارا نگہبان ہو۔‘‘
پھر میری والدہ کی شبیہہ ، میری آنکھوں کے سامنے سے غائب ہوگئی۔ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ قبر کے پتھروں پرستاروں کی مدھم روشنی پڑ رہی تھی اور پچھلے پہر کی ٹھنڈی ہوا میں ان پتھروں کے درمیان اگے ہوئے خشک گھاس کے نازک خوشے غیر محسوس انداز میں لہرا رہے تھے۔
میری موت کو خدائے واحد نے غیر معینہ مدت کے لئے ٹال دیا تھا۔ اپنی والدہ کی روح کا یہ جملہ میرے زہن میں ابھی تک گونج رہا تھا۔ اس کا مطلب کیا تھا؟ ایسا کیوں ہوا تھا اور کیا یہ سزا تھی یا جزا؟ میں اسی ادھیڑ بن میں والدہ کی قبر سے اٹھا اور غلاموں اور کنیزوں کی قبروں کے درمیان سے گزرتا ہوا قبرستان سے باہر نکلا ہی تھا کہ اندھیرے میں سے چھ سات سپاہی نکل کر مجھ پر جھپٹ پڑے۔ میں سنبھل بھی نہ پایا تھا کہ انہوں نے مجھے زنجیروں سے جکڑ کر ، گھوڑے پر ڈال دیا اور روانہ ہوگئے۔ میں نے بہت احتجاج کیا مگر میری کسی نے نہ سنی۔ میرے لئے ان سپاہیوں کو پہچاننا کوئی مشکل بات نہیں تھی۔ لیکن انہوں نے زرہ بکتر پہن رکھی تھی اور وہ فرعون کی شاہی فون کے خاص دستے کے سپاہی تھے، فرعون کے حکم پر گرفتار کیا گیا تھا۔
اب مجھے اس دکاندار کا خیال آیا جس نے مجھے بازار سے گزرتے دیکھ کر گھورا تھا۔ یقیناًاس نے میری مخبری کی تھی۔ ابھی مجھے اپنی طاقت کا احساس نہیں ہوا تھا۔ مجھے یہ میری خفیہ طاقت ظاہر نہیں ہوئی تھی۔ یہ مجھ پر بعد میں انکشاف ہوا کہ اگر میں چاہتا تو بڑی آسانی سے ان زنجیروں کو توڑ کر آزاد ہو سکتا تھا اور فرعونی سپاہیوں کی تلواریں اور نیزے میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے۔ اس وقت تک تو مجھے صرف اتنا علم تھا کہ خدائے واحد کے حکم سے میری موت کو ٹال دیا گیاہے۔
سپاہیوں نے مجھے فرعون مصر کے شاہی قلعے کے زنداں میں ڈال دیا۔ میں سارا دن اور پھر ساری رات وہاں پڑا رہا۔ اگرچہ مجھے بھوک اور پیاس کا ذرا سا بھی احساس نہ ہوا لیکن وہاں کسی نے مجھے پوچھا بھی نہیں۔ دوسری رات کا پچھلا پہر تھ اکہ چھ سپاہیوں کا ایک دستہ ، زنداں میں داخل ہوا اور مجھے نکال کر ، قلعے سے دور ، صحرا سے دور ، ایک خشک و بنجر ٹیلے کے پاس لے گیا۔ میری دونوں ہاتھ پہلے ہی زنجیر میں جکڑے ہوئے تھے۔ وہاں مجھے ایک پتھر کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ میں سمجھ گیا کہ مجھے ہلاک کرنے کے لئے یہاں لایا گیا ہے۔اب میں شعوری طور پر اپنی موت کو خود سے گریزاں دیکھنے والا تھا لیکن دل میں موت کا خوف بھی تھا۔
سپاہیوں نے چلے جڑھا کر نشانے باندھے اور پھر اپنے سردار کے اشارے پر تیر چھوڑ دیئے۔ چھ کے چھ تیر تنی ہوئی کمانوں سے نکل کر سیدھے میرے سینے میں آکر کھب گئے۔ ان تیروں کے دھچکوں اور موت کے خوف سے شاید میں بے ہوش ہوگیا تھاجب دوبارہ میں نے آنکھیں کھولیں تو صحرا کی تیز دھوپ ، چاروں طرف پھیلی ہوئی تھی۔ میں اس طرح پتھر کے ساتھ بندھا ہوا تھا۔ میری گردن ڈھلکی ہوئی تھی اور چھ تیر، آدھے سے زیادہ ، میرے سینے میں پیوست تھے لیکن کہیں سے خون کا ایک قطرہ بھی نہ نکلا تھا۔ میں نے گردن اٹھا کر اردگرد دیکھا۔ صحرا کے ٹیلوں پر یت کے ذرے، آفتاب کی تمازت سے چمک رہے تھے۔ میری سینے میں ہلکا سا درد بھی نہ تھا۔
مجھے یقین ہوگیا کہ میری موت کو سچ مچ ٹال دیا گیا ہے اور میں مرا نہیں بلکہ زندہ ہوں۔ میرے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے۔ میں نے تھوڑا سا زور لگایا تو مجھ پر ایک اور حیرت انگیز انکشاف ہوا۔ میرے ہاتھوں کی زنجیریں ٹوٹ کر گر پڑی تھیں۔ میں نے ایک جھٹکا دیا اور میرے پاؤں بھی آزاد ہوگئے۔ پھر میں نے اپنے جسم کے گرد بندھا ہوا رسہ بھی توڑ دیا۔ میں آزاد تھا مگر میرے سینے میں چھ تیر لگے ہوئے تھے۔ یہ ایک دہشت ناک منظر تھا۔ میں نے ایک ایک کر کے اپنے سینے کے سارے تیر باہر نکال ڈالے مگر ان کے ساتھ ذرا سا بھی خون نہیں لگا ہوا تھا۔
یہ بات خود میرے لئے بھی بڑی حیرت انگیز اور کسی حد تک دہشت ناک تھی۔ میں نے اپنے سینے کے زخموں کو دیکھا اور تیروں کے باہر نکلتے ہی اس طرح مندمل ہوگئے تھے جیسے وہاں کبھی کوئی تیر نہیں لگا تھا۔ صرف میرے سفید عبا میں چھ سوراخ موجود تھے۔ خوشی سے میرا دل بھر آیا۔ میں اسی وقت خدائے واحد کا تصور کر کے سجدے میں گر گیا اور اس کا شکر ادا کیا کہ اس نے مجھے پھر سے نئی زندگی عطا کی تھی۔ میں ٹیلے کی دوسری جانب سے ہو کر شہر کی طرف چل پڑا۔ میں اس سارے علاقے سے اچھی طرح واقف تھا۔ اب میں اس ظالم شہر سے نکل جانا چاہتا تھا۔ دور مجھے اپنے والد کا اہرام اور والدہ کے قبرستان والے کھجور کے درختوں کا جھنڈ نظر آیا۔ میں نے دل ہی دل میں اپنی والدہ اور والد کی روحوں کو سلام کیا اور ریت پر شہر کی طرف چلتا چلا گیا۔ ایک اور بات بڑی عجیب ہو رہی تھی صحرا تیز دھوپ کی تپش میں جل رہا تھا مگر مجھے کوئی گرمی محسوس نہیں ہو رہی تھی۔ مجھے پسینہ بھی نہیں آرہا تھا۔
شہر میں پہنچ کر می کونے والے زیتون کے ایک باغ چشمے پر بیٹھ گیا۔ میں کاروان سرائے ، رات کے اندھیرے میں جانا چاہتا تھا۔ وہیں چشمے پر بیٹھے بیٹھے شام ہوگئی۔ پھر شام کا سرمئی اندھیرا جب رات کی تاریکی میں بدل گیا تو میں زیتون کے باغ سے نکل کر شہر کی خاموش گلیوں میں سے گزرتا ہوا کاروان سرائے پہنچ گیا۔ سرائے کے مالک سے اپنا تھیلا واپس لیا۔ تھیلے میں سے گزرتا ہوا کاروان سرائے پہنچ گیا۔ سرائے کے مالک سے اپنا تھیلا واپس لیا۔ تھیلے میں سے چند دینار نکال کر اسے دیئے اور کہا کہ مجھے ایک گھوڑا چاہیے۔ میرا گھوڑا گم ہوگیا ہے۔ سرائے کے مالک نے مجھے اپنے اصطبل میں سے ایک گھوڑا لا کر دے دیا۔ میں گھوڑے پر سوار ہو کر کارواں سرائے سے باہر آگیا اور گھوڑے کو صحرائی ببولوں میں سے گزرتے اس کچے راستے پر ڈال دیا جس پر سے دو دن پہلے ایک قافلہ مصر سے ملک سندھ کی طرف روانہ ہوچکا تھا۔
ستاروں کی روشنی میں منور خاموش اور ٹھنڈے صحرا میں میرا گھورا آدھی رات تک سفر کرتا رہا۔ یہ وہ راستہ تھا جس پر قافلے سفر کرتے تھے۔ چنانچہ ایک جگہ کھجوروں کے جھنڈ میں ٹھنڈے پانی کا چشمہ مل گیا۔ یہاں میں نے گھوڑے کو پانی پلایا۔ کچھ دیر اسے آرام کرنے کے لئے کھلا چھوڑ دیا۔ میں چشمے کے پاس پتھروں پر بیٹھ کر اپنی شروع ہونے والی نئی زندگی پر غور کرنے لگا۔ رات تھوڑی باقی رہ گئی تھی کہ میں پھر اپنے سفر پر روانہ ہوگیا۔ دو دن اور دو راتوں کے سفر کے بعد میں نے مصر کی سرحد سے بہت دور قافلے کو جالیا۔ اب میں بھی باقاعدہ طور پر اس قافلے میں شامل ہوگیا جس کی منزل ملک سندھی یعنی آج کا پاکستان تھا۔ اس قافلے میں کوئی ستر کے قریب مسافر سفر کر رہے تھے۔ پندرہ اونٹ تھے۔ پچاس گھوڑے اور کچھ ایسے اونٹ تھے جن پر صرف سامان لدا ہوا تھا۔ میرکارواں ایک عجمی تھا مگر مصری اور دوسری مشرقی زبانوں کا ماہر تھا۔ ساعتی، یعنی وہ آدمی جد کے ذمے یہ کام تھا کہ وہ ہر ساعت گزرنے پر بہ آواز بلند وقت کا اعلان کرے، ایک اونٹی پر سوار تھا اور اس کی اونٹنی پر ریت گھڑی موجود تھی۔ اس ریت مگھڑی میں سے ہر ایک ساعت گزر جانے پر ریت اوپر کے خانے سے نکل کر نیچے کے خانے میں جمع ہوجاتی تھی۔ جس کے ساتھ ہی ساعتی اسے دوبار الٹا کر دیتا تھا اور ریت ذروں کی صورت میں نچلے خالی خانے میں گرنا شروع ہوجاتی تھی۔
یہ گھڑی مصریوں کی ایجاد نہیں تھی بلکہ اسے ان سے بھی بہت پہلے دجلہ وفرات کی وادی میں رہنے والی سمری قوم نے بنایاتھا۔ مصریوں نے اس میں سفید ردو بدل ضرور کیا تھا اور یہ ردو بدل میرے سامنے فرعون کفروتی کے شاہی محل میں ہوا تھا۔ اہل بابل اور اہل مصر نے اس سلسلے میں حیرت انگیز کام کیا اور بعد میں بنو عباس اور بنو امیہ کے عہد میں مسلمان ہیت دانوں نے اس ضمن میں ایسے کارہائے نمایاں انجام دیئے کہ تاریخ کے اوراق آج بھی ان کے کارناموں سے روشن ہیں۔
مثال کے طور پر بنو عباس کے ایک خلیفہ کے دور میں ایک ایسا شمع دان بنایا گیا جو رات کے وقت روشنی دینے کے ساتھ ساتھ وقت بھی بتایا تھا۔ ہر ساعت کے گزر جانے پر اس شمع کا دروازہ کھلتا اور اس میں سے ایک شخص کا پتلا نکل کر بڑے ادب سے تعظیم بجا لاتا۔ فجر کے وقت یہی پتلا شمع دان کی چوٹی پر کھڑا ہوجاتا اور اعلان کرتا۔
اللہ تعالیٰ خلیفہ وقت پر صبح خیر و برکت کے ساتھ طلوع کرے ، میں اسی عباسی خلیفہ کے دربار میں کچھ دیر شاہی طبیب رہا ہوں۔ میں نے اس شمع دان والی گھڑی کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ یہ شمع دان پورے کا پورا سونے کا تھا اور اس پر ہیرے جواہرات جڑے ہوئے تھے۔ اس شمع دان پر بعد میں قاہرہ کے امام شہاب الدین ابو العباس احمد بن ادریس القرانی نے مزید کام کیا۔ امام القرانی ساتویں صدی ہجری کے ایک مقتدر بزرگ اور نامور ققیہہ گزرے ہیں۔ وہ ریاضی اور فلکیات کے ماہر اور جید سائنس دان اور مکینیکل انجینئر بھی تھے۔ انہوں نے ایک ایسا شمع دان بنایا جس کی شمع کا رنگ ہر ایک گھنٹے کے بعد تبدیل ہو جاتا تھا۔ اس کے اندر شیر کا ایک مجسمہ بھی تھا جس کی سیاہ آنکھیں ہر ساعت پوری ہوجانے کے بعد پہلے سفید اور پھر سرخ ہوجاتی تھی۔ ہر ساعت کا رنگ مختلف ہوتا تھا۔
اس شمع دان میں دو پرندے بھی تھے جو ایک گھنٹہ ختم ہونے پر دو کنکریاں گرادیتے تھے جس سے آواز پیدا ہوتی تھی۔ شمع دان کے دو دروازے تھے۔ ایک دروازہ کھلتا ایک آدمی اندر سے نکلتا اور دوسرے دروازے سے ایک دوسرا آدمی اندر داخل ہوجاتا اور دروازہ بند ہوجاتا۔ نماز کا وقت قریب آتا تو ایک آدمی کا پتلا شمع دان کی چوٹی پر کھڑا ہوجاتا اور اپنے کانوں میں اس طرح انگلیاں دے دیتا جیسے اذان دے رہا ہو۔
بنو عباس کے عہد خلافت کے ساتھ کچھ ناخوشگوار واقعات بھی وابستہ ہیں جن کا ذکر میں اپنے طویل تاریخی سفر کی داستان بیان کرتے ہوئے ساتھ ساتھ کرتا جاؤں گا لیکن اس دور اسلام کے خلاف اٹھنے والے ہر فتنے کو نابود کرنے کے لئے اپنی جانوں کی قربانی سے بھی گریز نہ کیا۔ مجھے خوب اچھی طرح سے یاد ہے کہ تیسری صدی ہجری کے دوسری عشرے میں جب بغداد کے تخت خلافت پر عباسی شہنشاہ مامون الرشید جلوہ افروز تھا اور اس کی حکومت افریقہ اور ایشیا کے ایک وسیع تر علاقے پر پھیلی ہوئی تھی بغداد اس وقت علوم و فنون کا سرچشمہ تھا۔ بغداد کی علمی مجلسوں میں نونانی فلاسفی اور افکار کے نئے نئے رنگ دیئے جا رہے تھے معتزلہ کے گروہ نے ان ہی مجالس میں جنم لیا تھا۔ اس گروہ کے افراد سلطنت کے بڑے بڑے منصب پر فائز تھے اور یوں اس وقت ملک کی سیاسی اور فکری رہنمائی ان لوگوں کے پاس تھی۔ خلق قرآن کے فتنے کو ان ہی افراد نے پیدا کیا اور مامون الرشید بھی ان لوگوں کی عقلی موشگافیوں کے دام میں آگیا۔ چنانچہ اس نے بغداد کے گورنر اسحاق بن ابراہیم کے نام ایک فرمان روانہ کیا جس میں درج تھا۔
’’ شہر کے تمام علماء کو طلب کرو۔ جو علماء خلق قرآن کا اقرار کریں ، انہیں کچھ نہ کہو۔ جو انکار کریں ان کے بارے میں دربار خلافت کو خبردار کرو۔‘‘
اس کے ساتھ ہی مامون الرشید نے ایک اور فرمان بھیج دیا جس میں لکھا تھا۔
’’ بشیر بن ولید الکندی قاضی القضاۃ اور ابراہیم بن مہدی اگر خلق قرآن سے انکار کریں تو انہیں قتل کردو۔ باقی علماء جو انکار کریں، زندان میں ڈال دو۔‘‘
یوں اس زمانے میں درزنداں کھل جاتا ہے۔ تلواریں حرکت میں آجاتی ہیں۔ بڑے بڑے علماء کے پاؤں میں لغزش آجاتی ہے مگر مردان حق ثابت قدم رہتے ہیں اور شرک و کفر کے آگے سیسہ پلائی دیوار بن کر ڈٹ جاتے ہیں۔ ان ہی مردان حق میں شیخ عبدالعزیز بن یحییٰ الکنانی بھی تھے۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)