اسلام اور علامہ محمد اقبالؒ

سیالکوٹ شاعرِ مشرق حضرت علامہ محمد اقبالؒ کا شہر ہے، اس لئے تقریباً ہر ماہ کسی نہ کسی مجلس، محفل، انجمن، اکیڈمی یا بزم کے زیراہتمام مجھے اظہار خیال کی سعادت حاصل ہوتی رہتی ہے۔ علامہ اقبالؒ کی عظیم الشان شخصیت کے بارے میں عقیدت کے پھول نچھاور کرنے کو مَیں اپنی خوش قسمتی سمجھتا ہوں۔ علامہ اقبالؒ کو مغربی علوم پر بے پناہ دسترس تھی، لیکن جو لوگ مغربی علوم و فنون کے رعب سے مرعوب ہو کر اسلامی نظام حیات کے حوالے سے معذرت خواہانہ رویہ اختیار کر لیتے ہیں، علامہ اقبالؒ نے ان کو بڑے زوردار انداز میں چیلنج کیا اور پُرزور استدلال سے یہ نقطہ ء نظر پیش کیا کہ اسلامی نظریات آج بھی اسی طرح قابلِ عمل ہیں،جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے۔۔۔جو لوگ یہ رائے رکھتے تھے کہ اسلامی نظامِ زندگی موجودہ زمانے کے لوگوں کے لئے ناکافی اور ناقابل عمل ہے، وہ علامہ اقبالؒ کے دلائل کا سامنا نہیں کر سکتے تھے اور ان کے روبرو بولنے کی ہمت بھی نہیں کر سکتے تھے۔ علامہ اقبال ؒ نے اپنے خطبہ ء الٰہ آباد میں مسلمانوں کے لئے ایک الگ مسلم ریاست کا جو مطالبہ پیش کیا تھا، اس کی بنیاد بھی علامہ اقبال کا یہ نظریہ تھا کہ اسلام میں مذہب اور سلطنت ایک دوسرے سے الگ الگ نہیں ہیں۔علامہ اقبالؒ نے فرمایا تھاکہ رسالتِ محمدیہؐ کا مقصد صرف یہی نہیں کہ بندوں کو اپنے رب سے ملائے، بلکہ اس کا مقصد یہ بھی ہے کہ دنیا میں رہنے اور انفرادی و ملی زندگی بسر کرنے کے لئے ایک مکمل آئین بھی تیار فرمائے اور یہ آئین آج بھی مسلمانوں کے پاس موجود ہے۔ مسلمانوں کو اپنے ہر فعل کے لئے خواہ وہ انفرادی ہو یا اجتماعی، کتاب اللہ اور سنتِ رسولؐ میں اپنے لئے نظامِ کار تلاش کرنا چاہیے۔ علامہ اقبالؒ کے نزدیک اسلام نے زندگی کے ہر پہلو کے لئے احکام وضع کئے ہیں اور مسلمانوں کا اس پر عقیدہ ہے کہ ہمارے لئے انفرادی ، قومی اور بین الاقوامی قوانین کی بنیاد الہامِ الٰہی، یعنی قرآن کے احکامات پر مبنی ہے۔ اسلام میں وہی عمل قربِ الٰہی اور رضائے الٰہی کا باعث ہوگا جو اللہ اور رسولِ کریمؐ کے احکامات کے مطابق کیا جائے گا۔
علامہ اقبالؒ اس سیاست کو، جو مذہب کے احکامات کے مطابق نہ ہو، ضلالت و گمراہی قرار دیتے تھے۔
علامہ اقبالؒ کے ان خیالات کی رہنمائی میں اگر دیکھا جائے تو مسلمانوں کے لئے ہندوستان میں ایک الگ سلطنت کا قیام اس لئے ضروری تھا کہ ہم اپنی اجتماعی ملی زندگی کو اسلام کی تعلیمات کے مطابق گزار سکیں۔ دینِ اسلام ہمارے لئے اور پورے عالم انسانیت کے لئے نجات دہندہ بھی اسی صورت میں ثابت ہو سکتاہے، جب ہم اپنی اجتماعی زندگیوں میں اسے بروئے کار لائیں گے۔علامہ اقبال کا یہ ارشاد انتہائی قابلِ غور ہے، وہ فرماتے ہیں: ’’ایک سبق جو مَیں نے تاریخ اسلام سے سیکھا ہے، یہ ہے کہ آڑے وقت میں اسلام ہی نے مسلمانوں کی زندگی کو قائم رکھا ہے۔ مسلمانوں نے اسلام کی حفاظت نہیں کی‘‘۔۔۔قیام پاکستان کے پس منظر میں جب ہم علامہ اقبال کے اس ارشاد کو سمجھنے کی کوشش کریں گے تو ہم پر یہ راز کھل جائے گا کہ جب ہندوؤں کی دائمی غلامی کا خطرہ اسلامیانِ ہند کو درپیش تھا تو اس وقت اسلام ہی مسلمانوں کی مدد کو پہنچا۔اسلام ہی تصور پاکستان کی بنیاد قرار پایا اور اسلام ہی کی برکات سے پاکستان کا قیام ممکن ہوا۔شریعتِ اسلامیہ کے بارے میں یہ بات سمجھ لینے کی ہے کہ اس میں صرف عبادات ہی کے لئے احکامات نہیں ہیں، بلکہ ہماری معاشی اور سماجی زندگی کے لئے بھی اسلام ہماری مکمل رہنمائی کرتا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے قائداعظمؒ کے نام اپنے ایک خط میں تحریر فرمایا تھا۔یہ خط علامہ اقبال کے خطوط کی کتاب اقبال نامہ کے حصہ دوم میں محفوظ ہے۔۔۔ ’’شریعت اسلامیہ کے طویل و عمیق مطالعہ کے بعد مَیں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اگر اسلامی قانون کو معقول طریقے سے سمجھا اور نافذ کیا جائے تو ہر شخص کو کم از کم اپنے معاش کی طرف سے اطمینان ہو سکتا ہے، لیکن ایک آزاد اسلامی ریاست کے قیام کے بغیر شریعت اسلامیہ کا نفاذ ممکن نہیں‘‘۔
علامہ اقبال نے اپنے اس خط میں آزاد اسلامی ریاست کے قیام کی اہمیت بھی بیان کر دی ہے اور ایک آزاد اسلامی مملکت کے مقاصد بھی واضح کر دیئے ہیں۔ عوام کے معاشی مسائل کے حل کے لئے یہ نسخہ بھی تجویز کر دیا ہے کہ شریعتِ اسلامیہ پر عمل کیا جائے۔اقبال نامہ کی جلد اول میں علامہ اقبالؒ کا ایک خط موجود ہے،جس میں وہ لکھتے ہیں: ’’اگر آزادی ء ہند کا نتیجہ یہ ہو کہ جیسا دارالکفر موجود ہے، ویسا ہی رہے یا اس سے بھی بدتر بن جائے تو مسلمان ایسی آزادیء وطن پر ہزار بار لعنت بھیجتا ہے‘‘۔۔۔اندازہ کیجئے کہ علامہ اقبال کو اسلام سے کس درجے کا عشق تھا کہ اسلام کی سربلندی کے بغیر انہیں آزادی بھی قبول نہیں تھی، حالانکہ اقبال کی ساری شاعری آزادی اور حریت کی پیامبر ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ علامہ اقبال مسلمانوں کے لئے جس آزاد سلطنت کے علمبردار تھے، اس سے علامہ اقبال کامقصود مسلمانوں کی آزادی اور اقتصادی بہبود بھی تھا، لیکن ایک اسلامی ریاست کے حکمرانوں کی سب سے مقدم ذمہ داری اسلام کا نفاذ ہے۔علامہ اقبالؒ نے ہندوستانی قومیت یا دوسرے الفاظ میں وطن کی بنیاد پر قومیت کے تصور کو مسترد کرتے ہوئے اسلامی قومیت کا جو نعرہ بلند کیا تھا اس کی وجہ ہی یہ تھی کہ علامہ اقبالؒ اسلام کی بالادستی چاہتے تھے اور اسی مقصد کی خاطر مسلمانوں کے لئے ایک آزاد اور خودمختار مملکت کا تصور پیش کیا تھا۔ علامہ قبالؒ فرماتے ہیں: ’’اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام ایک تمدنی قوت کے طور پر زندہ رہے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرے‘‘۔
اقبال کی فکر کے حوالے سے یہ بات ہمیں اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لئے ایک الگ وطن کا جو تصور دیا تھا، اس کے پس منظر میں علامہ اقبالؒ کا یہ عقیدہ تھا کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ ء حیات ہے، جس کو فرد اور معاشرہ دونوں پر نافذ کرنے کا حکم ہے۔ اسلام کے ثمرات بھی ہمیں اسی صورت میں حاصل ہو سکتے ہیں، جب یہ انسانی زندگی کے تمام شعبوں پر نافذ ہو۔ علامہ اقبالؒ نے اپنے الٰہ آباد کے خطبے میں اسی حقیقت کو یوں بیان کیا ہے: ’’اسلام کا مذہبی نصب العین اس کے معاشرتی نصب العین سے الگ نہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لئے لازم و ملزوم ہیں۔ اگر آپ نے ایک کو ترک کیا تو بالآخر دوسرے کو بھی ترک کرنا لازم ہو جائے گا‘‘۔۔۔ظاہر ہے کہ اگر اسلام کا ہماری ریاست کے امور سے، سیاست سے، معاشرت سے اور معیشت سے تعلق باقی نہیں رہے گا تو پھر اسلام کی بطور نظام حیات اہمیت موجود نہیں رہے گی۔ اسلام پوری انسانیت کی بھلائی کے لئے ایک اعلیٰ و ارفع نظام ہے، لیکن اگر مسلمان ہی اپنی اجتماعی زندگی کا رشتہ اسلام سے توڑ ڈالیں گے تو پھر اسلام کا ایک مکمل ضابطہ ء حیات کے طور پر کوئی ماڈل کہیں بھی ظہور میں نہیں آسکتا۔ اگر ہم عصرِ حاضر کے تقاضوں کے مطابق اسلام کی نہ ختم ہونے والی برکات سے مستفید ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں علامہ اقبالؒ کی طرح اسلام سے محبت کرنا ہوگی۔ اسلام کا سوشل نظام حریت، مساوات اور انصاف کے ستونوں پر کھڑا ہے۔ ہم اس پر عمل کرکے اپنے معاشرے میں احترام انسانیت کی بہترین مثالیں قائم کر سکتے ہیں۔ اسلام کو اپنا نجی معاملہ نہ سمجھیں، بلکہ اسلام کو ہم اپنے پورے سیاسی اور معاشرتی نظام سے جوڑ دیں۔ اسی صورت میں ہم اپنے ملک اور معاشرے میں مثبت تبدیلی لا سکتے ہیں۔علامہ اقبالؒ کو بھی خراجِ تحسین پیش کرنے کا یہ بہترین راستہ ہے کہ ہم ان کے تصورات کے مطابق پاکستان کو اسلامی قوانین اور ضابطوں کے ذریعے ایک ایسی مملکت میں تبدیل کر دیں جو یہاں بسنے والے ہر شہری کے لئے معاشی اور معاشرتی فلاح و بہبود کی ضامن ہو۔قائداعظمؒ نے کہا تھا کہ ’’علامہ اقبال سے بہتر اسلام کو کسی نے نہیں سمجھا‘‘۔ علامہ اقبالؒ نے ہمیں بھی اپنے تدبر و فراست سے اسلام کو بہترین انداز میں سمجھایا۔ ضرورت اس پر عمل کرنے کی ہے۔