گریٹر اسرائیل کا خواب

گریٹر اسرائیل کا خواب

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

اسرائیل کے سرکاری سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے گریٹر اسرائیل کا ایک نقشہ جاری کیا ہے، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ فلسطین، اْردن، شام اور لبنان کے کچھ حصے اسرائیل کا حصہ ہیں۔ سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، اْردن اور فلسطین نے اسرائیل کے اقدام کی مذمت کرتے ہوئے اِس نقشے کو مسترد کردیا،سعودی عرب کا کہنا تھا کہ اِس طرح کے انتہاء پسندانہ اقدامات اسرائیل کے فلسطین پر قبضے کو مستحکم کرنے، ریاستوں کی خودمختاری پر کھلم کھلا حملے جاری رکھنے اور عالمی قوانین اور اصولوں کی خلاف ورزی کرنے کے عزائم کو ظاہر کرتے ہیں۔ سعودی عرب کی وزارتِ خارجہ نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کی خلاف ورزیاں روکنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ وزارت نے خطے کے بحرانوں کی شدت کو محدود کرنے کے لیے ریاستوں اور اُن کی سرحدوں کی خودمختاری کا احترام کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ فلسطین اور اُردن کے حکام نے بھی اسرائیلی نقشے کی مذمت کی، فلسطینی اتھارٹی کے ترجمان نے کہا کہ رواں ہفتے اسرائیلی سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی طرف سے شیئر کیا گیا نقشہ تمام بین الاقوامی قراردادوں اور قوانین  کی کھلی خلاف ورزی ہے، نئی امریکی انتظامیہ کو چاہئے کہ وہ اُن تمام اسرائیلی پالیسیوں کو روکے جو مشرق وسطیٰ میں سلامتی اور امن کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ اردن کی وزارتِ خارجہ نے ”گریٹر اسرائیل“ کے نقشے کو اشتعال انگیز اور بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دعویٰ جھوٹ پر مبنی ہے کہ یہ اسرائیل کا تاریخی نقشہ ہے، نسل پرستی پر مبنی اسرائیلی اقدامات اور تبصرے اُردن کی خودمختاری کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور نہ ہی فلسطینی عوام کے جائز حقوق کو تبدیل کرسکتے ہیں۔ وزارت کے بیان میں مزید کہا گیا کہ اسرائیلی حکومت کو فوری طور پر اِن اشتعال انگیز اقدامات اور اسرائیلی حکام کی طرف سے غیر ذمہ دارانہ بیانات کو روکنا چاہیے جو صرف تناؤ کو بڑھا رہے ہیں اور خطے میں عدم استحکام کا باعث بن رہے ہیں۔ قطری وزارتِ خارجہ نے بھی اپنے بیان میں اسرائیلی نقشے کی اشاعت کے بارے میں کہا کہ غزہ کی پٹی پر جاری وحشیانہ جنگ کے دوران مبینہ نقشے کی اشاعت خطے میں اَمن کے امکانات کو متاثر کرے گی۔ قطری وزارتِ خارجہ نے بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ اسرائیل پر دباؤ ڈال کر اسے عالمی قانونی قراردادوں کی تعمیل اور عرب ممالک میں توسیع پسندانہ عزائم سے باز رکھنے کی ذمہ داری کو پورا کرے۔  متحدہ عرب امارات کی وزارتِ خارجہ کا کہنا تھا کہ مقبوضہ فلسطینی علاقے کی قانونی حیثیت کو تبدیل کرنے کے تمام اشتعال انگیز اقدامات اور بین الاقوامی قراردادوں کی خلاف ورزی کے تمام اقدامات کو واضح طور پر مسترد کرنا چاہئے۔ واضح رہے کہ اِس سے قبل مارچ 2023ء میں اسرائیل کے وزیر خزانہ بیزل سموٹریچ کو  پیرس میں ایک تقریب سے خطاب کے دوران“گریٹر اسرائیل”کے نقشے کے ساتھ کھڑے ہوئے دیکھا گیا تھا، اِس نقشے میں اُردن کو اسرائیل کا کا حصہ دکھایا گیا تھا لیکن اس نئے نقشے میں اب کئی دوسرے ممالک کو بھی شامل کر لیا گیا ہے۔

گریٹر اسرائیل کا خواب پورا کرنے کے لئے ہی اسرائیلی فوج ظلم و ستم کی نئی داستان رقم کرتی چلی جا رہی ہے، غزہ میں معصوم فلسطینیوں پر بربریت آج بھی جاری ہے بلکہ اب تو اس کا دائرہ کار لبنان، شام اور یمن تک پھیل چکا ہے۔ایران کو بھی وہ ڈراتا دھمکاتا رہتا ہے۔ فلسطینی وزارتِ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل حملے کے شروع ہونے سے لے کر اب تک 45 ہار سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں جن میں نصف سے زائد تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف کے مطابق نئے سال کے پہلے سات دنوں کے دوران، غزہ سٹی،خان یونس اور جنوب میں اسرائیل کے نامزد کردہ محفوظ زون ”المواسی“ میں راتوں رات کیے گئے اسرائیلی حملوں میں 74 فلسطینی بچے مارے گئے۔  یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ غزہ کے بچوں کے لئے، نیا سال حملوں، محرومیوں اور سردی کی بڑھتی ہوئی شدت سے اموات اور مصائب لے کر آیا ہے، جنگ بندی طویل عرصے سے التواء کا شکار ہے جبکہ دس لاکھ سے زائد بچے عارضی خیموں میں رہ رہے ہیں، گزشتہ 15 ماہ میں بے گھر ہونے والے بہت سے خاندانوں کے ساتھ، بچوں کو انتہائی خطرات کا سامنا ہے، 26 دسمبر سے اب تک آٹھ نوزائیدہ بچے مبینہ طور پر ہائپوتھرمیا سے مر چکے ہیں۔ دوسری جانب فلسطین کے سرکاری ادارہ شماریات کے مطابق غزہ کی آبادی چھ  فیصد کم ہو چکی ہے، قریباً ایک لاکھ فلسطینی یہاں سے جا چکے ہیں جبکہ مزید 55 ہزار سے زیادہ افراد کی جانیں ضائع ہونے کا خدشہ ہے۔ ادارے کے مطابق جنگ کے دوران غزہ کی آبادی 21 لاکھ سے کم ہو کرلگ بھگ 16 لاکھ رہ گئی ہے جس میں دس لاکھ سے زیادہ آبادی 18 سال سے کم عمر کے بچوں پر مشتمل ہے، عمارتوں اور دیگر اہم انفراسٹرکچر سمیت انسانوں کو اِس بے دردی سے نشانہ بنایا کہ پورے، پورے خاندان صفحہ ہستی سیمٹ گئے۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے حوالے سے اس وقت بھی دوحہ، قطر میں بالواسطہ مذاکرات جاری ہیں، ایک طرف خبریں ہیں کہ غزہ میں جنگ بندی قریب ہے۔امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے پیرس میں فرانسیسی ہم منصب جین نول بیروٹ کے ساتھ پریس کانفرنس میں  تصدیق کی کہ غزہ میں جنگ بندی اور یرغمالیوں کے حوالے سے معاہدہ بہت جلد ہونے کا امکان ہے۔قطری وزارت خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ  غزہ میں جنگ بندی کے مذاکرات تکنیکی سطح پر جاری ہیں اور وفود قاہرہ اور دوحہ میں مسلسل ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ دونوں فریقین کے مابین مذاکرات کا سلسلہ گزشتہ ایک سال سے چل رہا ہے، کبھی شروع ہوتا ہے اور کبھی رُک جاتا ہے۔ حماس کا موقف ہے کہ جب بھی وہ معاہدے کے قریب پہنچتے ہیں اسرائیل کوئی نہ کوئی نئی شرط پیش کر دیتا ہے،نئے الزامات عائد کر دیتا ہے لیکن اب دوبارہ سے اُمید جاگی ہے کہ کچھ بہتری ہو جائے گی تو اسرائیل کی طرف سے یہ نقشہ جاری کر دیا گیا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہودی مذہب کے مطابق گریٹر اسرائیل سے مراد مشرقِ وسطی میں وہ تمام قدیمی علاقے ہیں جو سلطنت ِ عثمانیہ کا حصہ تھے اور جہاں یہودی آباد تھے۔اسرائیلوں کا ماننا ہے کہ اسرائیل بائبل میں درج حوالوں اور تاریخی اعتبار سے ان زمینوں کا حقدار ہے جو نہ صرف ’دریا سے سمندر تک‘ بلکہ ’دریا سے دریا تک‘ پھیلی ہوئی ہیں۔ یعنی دریائے فرات سے دریائے نیل تک اور ان کے درمیان تمام علاقے۔لیکن بہت سے ماہرین اسے اسرائیل کی خام خیالی قرار دیتے ہیں، ان کے نزدیک اسرائیل کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں اور اسے حمایتی ممالک کی مدد کی ضرورت پڑے گی۔

المیہ تو یہ ہے کہ اس وقت بھی اسرائیل جو اپنی ہی مستی میں آگے بڑھتا چلا جا رہا ہے، اس کے پیچھے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ چند روز قبل ہی خبر سامنے آئی تھی کہ امریکہ آٹھ ارب ڈالر کا مزید اسلحہ اسرائیل کو فروخت کرے گا، اِس سے قبل گزشتہ سال اگست میں بھی امریکہ نے اسرائیل کے لئے 20 ارب  ڈالر کے پیکیج کی منظوری دی تھی جس میں جیٹ طیارے، فوجی گاڑیاں،بم اور میزائل شامل تھے جبکہ بعد ازاں نومبر میں بائیڈن انتظامیہ نے 68 کروڑ ڈالر کا بم اور دیگر جنگی ساز و سامان پر مشتمل ایک اور پیکیج اسرائیل کے لئے منظور کیا تھا۔ نو منتخب ڈونلڈ ٹرمپ البتہ جنگ بندی چاہتے ہیں،ان کا اصرار ہے کہ ان کے حلف لینے سے پہلے جنگ بندی ہو جائے اور ان کے یرغمالی آزاد کر دئیے جائیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران دنیا میں جاری جنگیں بند کرانے پر زور دیا تھا ااور دعویٰ کیا تھا کہ وہ دِنوں میں یہ کام کر کے دکھائیں گے۔یہ بات درست ہے کہ امریکی اسٹیبلشمنٹ میں یہودی لابی کی جڑیں بہت گہری ہیں اور ہر سطح تک پھیلی ہوئی ہیں۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل اور فلسطین سمیت روس اور یوکرین کے درمیان جنگ بندی کرانے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ مسلم ممالک کو بھی چاہئے کہ وہ متحد ہو جائیں، اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کو نکیل ڈالنے کا اہتمام کریں، مشرق وسطیٰ کا نقشہ بدلنے کا اسرائیلی خواب شرمندہ تعبیر ہونا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے لیکن اس کے لئے امت مسلمہ کو مل کر اقدامات کرنے ہوں گے۔

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -اداریہ -