جعلی ڈومیسائل والوں کی نوکریاں ختم کی جائیں گی: ناصر حسین شاہ

جعلی ڈومیسائل والوں کی نوکریاں ختم کی جائیں گی: ناصر حسین شاہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


کراچی (اسٹاف رپورٹر)وزیر اطلاعات و بلدیات سندھ سید ناصر حسین شاہ کی زیر صدارت کمشنر کراچی کے دفتر میں شہر میں موجود مخدوش عمارتوں کو خالی کروانے اور غیر قانونی تعمیرات کی روک تھام کے حوالے سے اہم اجلاس منعقد کیا گیا جس میں کمشنر کراچی افتخار شلوانی، ڈی آئی جی مقصود میمن،ڈی جی ایس بی سی اے نسیم الغنی،تمام ڈپٹی کمشنرز، ایم سی ایسٹ وسیم سومرو سمیت کے ایم سی، کنٹونمنٹ بورڈ، پولیس اور رینجرز کے افسران نے شرکت کی۔کمشنر کراچی کی جانب سے وزیر بلدیات سندھ کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ایس بی سی اے کی جانب سے مرتب کردہ لسٹ کے مطابق شہر میں موجود مخدوش عمارتوں کے رہائشیوں کو بلڈنگیں خالی کرنے کے حوالے سے نوٹس جاری کردئیے گئے ہیں۔ ناصر حسین شاہ کے استفسار پر ڈی جی ایس بی سی اے نے ان کو بتایا کہ شہر کے اولڈ سٹی ایریا میں زیادہ تر مخدوش عمارتیں موجود ہیں جن میں سے بعض کو تاریخی بھی قرار دیا جاچکا ہے۔ شرکا میٹنگ سے خطاب کرتے ہوئے ناصر حسین شاہ کا کہنا تھا کہ حالیہ بلڈنگ گرنے کا واقعہ نہایت ہی دلخراش اور افسوس ناک تھا۔ حکومت سندھ کسی بھی صورت شہریوں کی جانوں کو داو پر نہیں لگاسکتی لہذا فوری طور پر جس بھی مقام پر غیر قانونی تعمیرات ہورہی ہیں وہاں کام رکوایا جائے اور غیر قانونی تعمیرات کے اجازت نامے دینے والوں کا نشان عبرت بنادیا جائے۔ وزیر بلدیات سندھ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ انسانی جانوں کے ضیاع کی کسی بھی صورت اجازت نہیں دی جائے گی اور جو بلڈر، ٹھیکیدار،سرکاری افسر انسانی جانوں کا سودا کرتے ہیں ان کو قانون کے مطابق قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ وزیر بلدیات سندھ کو بتایا گیا کہ بعض غیر قانونی پورشنوں میں ڈمی فیملیز کو لاکر بسایا جاتا ہے تاکہ ان کی آڑ لیکر غیرقانونی تعمیر کو بچایا جاسکے، ناصر حسین شاہ نے واضع الفاظ میں حکم دیا کہ عورتوں اور بچوں کو آڑ بنا کر چھوٹے چھوٹے پلاٹوں پر دھڑا دھڑ غیر قانونی تعمیر کرنے والے کسی بھی رعایت کے مستحق نہیں۔ ناصر حسین شاہ نے پولیس حکام کو ہدایت کی کہ غیرقانونی تعمیرات کے خلاف ایس بی سی اے کی مکمل معاونت و مدد کی جائے اور لیڈی پولیس کی مدد سے خواتین کو ڈھال بنانے والوں کے خلاف کاروائی عمل میں لائی جائے۔ وزیر بلدیات سندھ نے ڈی جی ایس بی سی اے نسیم الغنی کو ہدایت دی کہ تمام غیر قانونی تعمیرات کے مرتکب افراد کے خلاف باقاعدہ ایف آئی آر کٹوائی جائے اور ضلعی انتظامیہ کی مدد سے شہر کے تمام علاقوں میں فوری طور پر اینٹی انکروچمنٹ ڈرائیو کا آغاز کیا جائے۔ناصر حسین شاہ نے مزید کہا کہ ہر ڈسٹرکٹ کی سطح پر ویجیلنس کمیٹی کا قیام بھی عمل میں لایا جائے جس میں ایس بی سی اے، کے ڈی اے، ڈی ایم سی، پولیس کے نمائندگان شامل ہوں تاکہ غیر قانونی تعمیر کی فوری طور پر نشاندھی ہوسکے۔ وزیر بلدیات نے کہا کہ غیر قانونی تعمیرات کا قلع قمع کرنے کے لئے اگر قانون سازی کی ضرورت پیش آئی تو وہ بھی کی جائے گی مگر کسی بھی صورت شہر کی خوبصورتی اور انسانی جانوں کو ضائع نہیں ہونے دیا جائے گا۔بعد ازاں ناصر حسین شاہ نے میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ شہر میں چار سو بایئس عمارتوں کو خطرناک قرار دیا گیا ہے جن میں سے پچپن عمارتیں محکمہ تاریخی ورثہ کے زیر انتظام ہیں، غیر قانونی عمارتوں اور پورشنوں کی تعمیرات کے خلاف کام جاری ہے جبکہ غیر قانونی تعمیرات کے مرتکب اداروں اور افراد کے خلاف ٹھوس اور سخت اقدامات کے سلسلے میں ایس بی سی اے کی علیحدہ عدالت کے قیام اور جج کی تعیناتی کے لئے بھی اقدامات جاری ہیں۔ ناصر شاہ نے بتایا کہ لیاری میں سیورج سسٹم کو بہتر بنایا جارہا ہے اور جمیلہ پمپنگ اسٹیشن کو مزید فعال بنایا جارہا ہے، ضلعی سطح پر کمیٹیاں قائم کی جارہی ہیں جس کا سربراہ متعلقہ ڈپٹی کمشنر ہوگا اور وہ کمیٹیاں غیر قانونی تعمیرات کی نشاندھی پر ایکشن لیں گی۔
کراچی (اسٹاف رپورٹر)وزیر اطلاعات سندھ ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ یقین دلاتے ہیں کسی کے ساتھ زیادتی نہیں ہونے دیں گے، جعلی ڈومیسائل پرکام کرنے والوں کی نوکریاں ختم کی جائیں گی۔پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما ناصر حسین شاہ نے کراچی میں مرتضی وہاب کے ہمراہ پریس کانفرنس کی، اس دوران ناصر حسین شاہ نے جعلی ڈومیسائل سے متعلق بات کرتے ہو ئے کہا ہے کہ جعلی ڈومیسائل کے معاملے پر کمیٹی بنادی ہے، جعلی ڈومیسائل کے حامل افراد کے خلاف کارروائیاں ہو رہی ہے، جعلی ڈومیسائل والوں کی نوکریاں ختم کر دی جائیں گی۔ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ جعلی ڈومیسائل کے معاملے پر تحقیقاتی رپورٹ وزیراعلی سندھ سید مراد علی شاہ کو بھیج دی ہے، اس وقت تک 4 اضلاع میں 154 مشتبہ ڈومیسائل سامنے آئے ہیں، ان چاراضلاع میں لاڑکانہ، کشمور، گھوٹکی اور جامشورو شامل ہیں۔انہوں نے کہا ہے کہ اگر کسی کے پاس ثبوت ہیں تو وہ کمیٹی سے رابطہ کر سکتے ہیں، ابتدائی رپورٹ میں دو دو ڈومیسائل بھی سامنے آئے ہیں اور کچھ لوگوں کے پاس سندھ اور دیگر صوبوں کے بھی ڈومیسائل بھی ہیں۔ان کا غیرقانونی تعمیرات پر بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ کراچی میں گرنے والی عمارت کی حالت خستہ تھی، لوگ نکلنے کو تیار نہیں تھے، بہت سی مخدوش عمارتیں لوگ خالی نہیں کر رہے ہیں۔ناصرحسین شاہ نے کہا ہے کہ ایک ہزار سے زیادہ غیرقانونی تعمیرات کو گرایا جا چکا ہے، 422 مخدوش عمارتوں کی نشاندہی کی گئی ہے، جہاں جہاں غیرقانونی تعمیرات ہو رہی ہیں وہاں ایکشن لیا جا رہا ہے۔ناصرحسین شاہ کا کے 4 منصوبے سے متعلق بات کرتے ہوئے مزید کہنا تھا کہ 2008 سے پہلے کے فور کا روٹ تبدیل ہوا، پیپلزپارٹی کے دور میں کے فور کا روٹ کبھی بھی تبدیل نہیں کیا گیا، کے فور منصوبے پر جتنے تحفظات ہیں ان کو دور کیا جا رہا ہے، ہم ڈی سیلنیشن کی طرف جا رہے ہیں، کے فور منصوبے کے پہلے مرحلے کو مکمل کرنے کی جلدی ہے، ہم چاہتے ہیں جلد از جلد کے فور منصوبہ مکمل ہوا۔ناصر حسین نے مزید کہا کہ وفاقی حکومت نے کراچی میں ڈی سیلینیشن پلانٹ کی بات کی ہے عملی قدم اٹھائیں، پانی کے منصوبے پر اگر وفاقی حکومت کام کرنا چاہتی ہے تو خوش آمدید کہیں گے۔وزیر اطلاعات سندھ ناصرحسین شاہ نے پاکستان تحریک انصاف سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا وفاق کورونا سینہیں پیپلزپارٹی سے لڑنیمیں دلچسپی رکھتی ہے، پی ٹی آئی اپنی غلطیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے پی پی پی پر تنقید کرتی ہے، اپوزیشن کی کوئی ایک بات بتا دیں جو مثبت ہو۔ناصر حسین شاہ نے کہا کہ اس وقت پیٹرول دستیاب ہی نہیں ہے، جس کی وجہ وفاق کی نااہلی ہے، جب عالمی مارکیٹ میں آئل کی قیمتیں کم تھیں اس وقت مارکیٹنگ کمپنیوں کوآئل درآمد کی اجازت نہیں دی گئی۔ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ جو سوال ہم وفاقی حکومت سے پوچھتے ہیں اپوزیشن اس سیتوجہ ہٹانیکی کوشش کرتی ہے، وفاقی حکومت کی نااہلی ہے کہ نہ زیادہ تیل خود درآمد کیا نہ آئل کمپنی کو اجازت دی، جب تیل کی قیمت عالمی مارکیٹ میں کم تھی تو وفاق کو زیادہ درآمد پر توجہ دینی تھی۔وزیر اطلاعات کا مزید کہنا تھا کہ اپوزیشن کی باتوں کو سنجیدہ نہ لیا جائے اصل مسئلے پر وہ بات نہیں کرتی ہے، کاش کورونا کے معاملے کو اس وقت سنجیدہ لے لیا جاتا جب سندھ حکومت اور وزیراعلی کہہ رہے تھے۔ناصر حسین شاہ نے عالمی وبا کورونا سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں ایف آئی اے نیبتایا کہ ایک بارڈر سے پاکستان میں 8 ہزار کے قریب لوگ داخل ہوئے ہیں، ہم نے بیرون ملک سے1500 افراد کو ٹریس کیا اور ان کے ٹیسٹ کیے، 26 فروری کو پہلا کیس سامنے آیا، 15مارچ کو وزیراعظم نے پہلی میٹنگ بلائی۔انہوں نے لاک ڈاون سے متعلق کہا ہے کہ ہمیں ایک لمبے عرصے تک اس وائرس کیساتھ چلنا پڑے گا، ہمیں کورونا سے لڑنا بھی ہے اور بچنا بھی ہے، ہم وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے لاک ڈاو ن کی بات کر رہے تھے، آج سندھ میں 8 ہزار سے زائد کورونا ٹیسٹ کیے جار ہے ہیں، اس وقت بارہ ہزار سیزائد کورونا مریضوں کی اسپتالوں میں گنجائش ہے۔ناصر حسین شاہ نے کہا کہ لاک ڈاون اس کا حل نہیں ہے، لاک ڈاون کا وقت گزر گیا، اب احتیاطی تدابیراختیار کرنی ہے، کووڈ 19 کی وبا کو معمولی نزلہ زکام قرار دیا گیا، اب وفاقی حکومت کو کورونا کی وبا کی شدت کا احساس ہوا ہیجو اچھی بات ہے، لاک ڈاون کا قدم وبا کے پھیلاو کو روکنے کے لیے اٹھایا گیا تھا۔انہوں نے کہاکہ وزیراعلی سندھ روزانہ کورونا کے باریمیں بات کرتے تھے تو کہا جاتا تھاکہ ڈرا رہے ہیں، ہم نے کورونا کو معمولی فلو نہیں سمجھا، ہم نے اسے سنجیدہ لیا، پھر بھی ہم پرتنقید ہوتی ہے۔دوسری جانب ترجمان سندھ مرتضی وہاب نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ سندھ حکومت یقین دہانی کراتی ہے کہ ہم ڈومیسائل پی آر سی ایشو کو حل کریں گے۔مرتضی وہاب کا حکومت سے متعلق بات کرتے ہوئے کہنا تھا کہ وفاق کے نمائندوں کو اٹھارہویں ترمیم کے حوالے سے کچھ پتا نہیں، ہم اٹھارہویں ترمیم وفاقی نمائندوں کو پڑھانے کو تیار ہیں، وفاقی نمائندے کام کرنے کے بجائے بس تنقید ہی کرتے ہیں۔ترجمان سندھ حکومت نے مزید کہا ہے کہ لوگوں کو پیٹرول نہیں مل رہا ہے، پیٹرول پمپس کا معاملہ وفاق کا ہے، وفاق کو شرم آنی چاہیے۔انہوں نے چینی رپورٹ سے متعلق بات کرتے ہوئے کہا کہ چینی ایکسپورٹ کرنے کی وفاق نے اجازت دی، چینی کی ایکسپورٹ سے چینی کی قلت پیدا ہوگئی تھی، چینی کو ایکسپورٹ کرنے کا فیصلہ وزیر اعظم عمران خان نے کیا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ یوٹیلیٹی اسٹورز منسٹری آف انڈسٹریزکے ماتحت ہے، اپریل میں وزیر اعظم اس کے خود انچارج تھے، وزیراعظم کی منظوری کے بغیر یہ فیصلے نہیں ہو سکتے ہیں، اپوزیشن سوال پوچھتی ہے کیا وزیراعظم احتساب سے بالاتر ہیں۔مرتضی وہاب نے کہا ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹورز نے چینی خریدنے کا فیصلہ کیا تھا، اپریل میں 3 لاکھ 65 ہزار ٹن چینی خریدنے کا فیصلہ کیا گیا، 80 سے 82 روپے فی کلو کیحساب سے چینی خریدی گئی ہے، اس وقت قیمت 72 روپے تھی، یہ کس کی ایما پر یہ کام ہوا ہے؟ترجمان سندھ حکومت نے مزید کہا کہ سوالات کا جواب بھی وفاقی حکومت کی جانب سے نہیں دیا گیا۔مرتضی وہاب کا کہنا تھا کہ شوگر کمیشن خود کہتا ہے ساڑھے 40 ارب روپے کچھ لوگوں نے کمائے، شہنشاہ احتساب شہزاد اکبر نے کہا کہ چینی کا معاملہ نیب کو بھیجا جارہا ہے

مزید :

صفحہ اول -