خفیہ اداروں کا تقدس اور عدلیہ کا رویہ

خفیہ اداروں کا تقدس اور عدلیہ کا رویہ
 خفیہ اداروں کا تقدس اور عدلیہ کا رویہ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 ہندوستان میں بنگلہ دیش کی 25 ویں سالگرہ تھی۔ ایسی تقاریب میں اعلیٰ عہدے داروں کو اگلی صفوں میں جگہ ملتی ہے۔ لیکن ایک صحافی نے دیکھا کہ پچھلی اور آخری صف میں بھارتی انٹیلی جنس ادارے را کا سابق سربراہ رمیشور ناتھ کاو_¿ بیٹھا تھا۔ بنگلہ دیش بنانے میں اس کا کردار کلیدی تھا۔ صحافی اس کے پاس جا کر بولا: "جناب آپ کو تو اسٹیج پر ہونا چاہیے. آپ کے بغیر بنگلہ دیش کا قیام ممکن نہیں تھا"۔ جواب ملا: "نہیں میں نے کچھ نہیں کیا". پھر وہ چپکے سے باہر نکل گیا( بی بی سی اردو 20 جنوری 2018ئ) را کے اس سربراہ کو دراصل یہ جھٹکا لگا تھا کہ وہ پہچان کیوں لیا گیا ہے اور وہ بھی ریٹائرمنٹ کے ڈیڑھ عشرے بعد۔ قیام پاکستان کے بعد مدتوں ہمیں اپنے خفیہ اداروں کا بہت کم علم ہوتا تھا۔ پھر آئی ایس آئی کے ایک سربراہ المعروف بہ ”فاتح جلال آباد“ نے صحافیوں کا لشکر پال کر اپنی کردار سازی یوں کرائی کہ گویا ملک کے نجاہت دہندہ وہی ہیں۔

 اگلے تین عشروں میں ہمارے خفیہ ادارے پتا نہیں خفیہ کیوں کہلاتے رہے، کھلم کھلا ادارے کہلاتے تو بہتر تھا۔ صوابی کے ایک میجر صاحب نے تو اپنا دسترخوان صحافیوں کے لیے بچھا دیا جو آئے دن نمک مرچ لگا کر ان کے ”کارنامے“ شائع کرتے۔ افغان جہاد، کشمیر کی جنگ آزادی، موساد سے پنجہ آزمائی اور ملکی سیاست کا کون سا شعبہ تھا،جس پر ان کے کارنامے شائع نہ ہوئے ہوں۔ بڑھتے بڑھتے یہ سلسلہ آئی ایس پی آر تک جا پہنچا۔جنرل آصف غفور کبھی ثناءبچہ سے مناظرہ کرتے پائے جاتے، پھر یو ٹرن لے لیتے۔ کبھی وہ بالی وڈ کی اداکارہ دیپکا پاڈو کون پر تبصرہ کر گزرتے جو انہیں حذف کرنا پڑ جاتا ( انڈی پینڈنٹ اردو 13 جنوری 2020ئ)۔ یوں لگتا تھا کہ فوج کوئی محترم ادارہ نہیں، بلکہ اس کے بڑے فلم اور ماڈلنگ کی سطح پر آ چکے ہیں۔

را کا سربراہ رمیشور ناتھ کاو_¿ ذہن میں رکھ کر آگے چلیے۔ کابل پر طالبان کا قبضہ ہوا تو آئی ایس آئی چیف جنرل فیض حمید طمطراق سے وہاں جا پہنچے،جانا چاہیے تھا۔ کوئی ریاستی مفاد ہی ہوا ہوگا۔ لیکن خفیہ ادارے کے سربراہ کو تو وہاں یوں جانا چاہیے تھا کہ ہمیں خبر تک نہ ہوتی، لیکن ان کی چائے کی پیالی والی تصاویر اس اہتمام سے شائع کرائی گئیں کہ خفیہ ادارے کا گمنام سربراہ نہ ہوا، شاہد آفریدی یا دلیپ کمار ہو گیا۔ لیکن پھر اللہ کو ہم پر ترس آگیا۔ ان کے جانشین اور اسی ادارے کے موجودہ سربراہ نے آتے ہی پریس ایڈوائس جاری کی کہ نہ تو ان کی تصویر شائع ہوگی اور نہ ذرائع ابلاغ پر تذکرہ ہوگا۔ شکر ہے کہ دو سال سے ذرائع ابلاغ پر خفیہ اداروں کا تذکرہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ ہمارے خفیہ ادارے اگر را کے سربراہ کا مذکورہ عمل اختیار کر لیں تو کوئی مضائقہ نہیں۔ محرم راز خالق کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ حکمت کی بات جہاں کہیں سے ملے لے، لیا کرو۔

 یہ بحث روک کر ذرا دیر کے لیے عدلیہ کو چلتے ہیں۔کبھی ہماری عدلیہ مضبوط خطوط اور اعلیٰ پائے کے ججوں پر استوار تھی لیکن جوڈیشل کمیشن کے ذریعے ججوں کی تقرریوں نے ہمیں پستی کے اسفل گوشے میں دھکیل دیا اور یوں ثاقب نثار، کھوسہ، عظمت سعید، گلزار، بندیال، مظاہر نقوی اور اعجاز الاحسن جیسے افراد اس مقدس ادارے میں داخل ہو گئے۔ جونہی کسی چیمبر کا کوئی وکیل با اختیار ہوا، عدلیہ میں اسی کے وکیل آنا شروع ہو گئے۔ اقربا پروری اور ذاتی پسند ناپسند کے سہارے آج کی عدلیہ انہی بیشتر وکلا پر مبنی ہے جن کے ذہن قانونی سے زیادہ سیاسی رنگ میں ہیں۔الجھی ہوئی نفسیاتی گرہوں کے ساتھ یہ وکلا مناسب عدالتی تجربے کے بغیر اعلیٰ مناصب کے قبل از وقت حقدار بن گئے تو یہی لوگ ریاستی اداروں میں ٹکراﺅ کا سبب بننے لگے۔

خفیہ اداروں نے خود اپنا حشر نشر کیا سو کیا، رہی سہی کسر عدالتیں نکال رہی ہیں۔ را کے سربراہ کا انداز ذہن میں رکھ کر پڑھیے۔ اعلیٰ عدلیہ کے ججوں نے مسلسل بول بول کر اپنا ذہن عام کر رکھا ہے۔ متاثرہ فریق اسی عدالت میں جاتا ہے جہاں اسے اپنے مطلب کا جج ملتا ہے۔ کسی ہائی کورٹ کا سیاسی میلان واضح ہو جائے تو متاثرہ فریق کہیں اور جاکر کامیاب لوٹتا ہے۔ چند سیاسی شخصیات کی ذاتی گفتگو عام ہوئی تو معاملہ اسلام آباد ہائی کورٹ جا پہنچا۔اس عام سے مقدمے نے خفیہ اداروں کی ایسی کی تیسی کر کے رکھ دی۔ بہتر تھا کہ یہ کام متعلقہ وزارت تک رہتا۔ لیکن نہیں جسٹس بابر ستار کا فرمان تھا: "حکومت جواب دے ورنہ انٹیلی جنس ایجنسیوں کو براہ راست فریق بنائیں گے (ایکسپریس 18 ستمبر 2023ئ)۔

یہی نہیں، پھر انہوں نے آئی بی اور ایف آئی اے کے سربراہوں کو 19 فروری 2024ءکو ذاتی حیثیت میں طلب کر لیا (آئی ایس آئی کا رخ کرنے پر جسٹس شوکت صدیقی یاد آ جاتے ہوں گے)، حالانکہ کسی بھی ادارے، بشمول خفیہ ادارے کا افسر مجاز عدالت کو جو معلومات دیتا ہے، وہ ادارے کی متصور ہوتی ہیں، خفیہ اداروں کے لوگ گمنام رہ کر خاموشی سے کام کرتے ہیں۔ اگر ان کے سربراہوں کو عدالتوں میں گھسیٹ کر وکیلوں کے حوالے کر دیا جائے، الٹی سیدھی جرح کی جائے، باہر نکلتے ہی ذرائع ابلاغ کے نمائندے ان کی بھد اڑائیں، تو چل چکا یہ ملک جناب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب !

چیف جسٹس اور آرمی چیف سے گزارش ہے کہ وہ اس طرف بھرپور توجہ کریں. ہر ملکی ادارہ محترم اور مقدس ہے۔ ریاستی اداروں میں سے صرف سیاسی شخصیات اور کسی حد تک تعلیمی دنیا کا تعلق کیمرے اور سکرین سے ہوتا ہے۔ عدلیہ،انتظامیہ، مسلح افواج اور خفیہ اداروں وغیرہ کے لیے کیمرہ اور اسکرین زہریلے نشے سے کم نہیں ہوتے جس کا انجام موت ہے۔ تین عشروں تک ریاستی عہدے داروں کی انہی بد اعمالیوں کے باعث ملک ادھڑ چکا ہے۔جب آپ اپنی خبریں بنوائیں گے تو سوشل میڈیائی مجاہدین آپ کو کیوں چھوڑیں گے؟ چیف جسٹس سے توقع ہے کہ وہ اعلیٰ ریاستی عہدے داروں کو عدالت میں بلانے کے عمل کو منضبط قاعدے اور عدالتی ضابطہ اخلاق کے اندر لائیں گے۔اس کام میں جتنی تاخیر ہوگی ملک کو اتنا ہی نقصان ہوگا۔ بہتر ہے کہ عدالتیں سیاسی مقدمات نہ لیا کریں ناگزیر ہو جائے تو ان مقدمات کو باری آنے پر وہی وقت دیں جتنا سیاستدان عدلیہ کو دیتے ہیں۔ اعلیٰ عہدے داروں کو بلانا ناگزیر ہو جائے تو یہ کام ججوں کی کمیٹی کی منظوری سے ہو۔ موجودہ شکل میں لگتا ہے کہ جج صاحب خفیہ اداروں کو اپنے ذاتی احساس برتری کا اسیر کرنا چاہتے ہیں، حالانکہ عدلیہ بجائے خود ہر حکومتی ادارے پر فوقیت رکھتی ہے۔ تو کیا اسے غیر شعوری احساس کمتری پر محمول کر لیا جائے؟

مزید :

رائے -کالم -