اپنے گریبان قریب ہیں یا دوسروں کے؟؟

 اپنے گریبان قریب ہیں یا دوسروں کے؟؟
 اپنے گریبان قریب ہیں یا دوسروں کے؟؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 جب موضوع ہی گریبان ہے تو پھر کالم کا آغاز بھی اپنے سے ہی کرنا چاہئے دو دن پہلے یہ درویش بھمبر کے پٹرول پمپ پی ایس او سے باہر نکلا وہاں سڑک سے مجھے واپس مڑنا تھا دوسری طرف سے ایک تیز رفتاری سے ہائی ایس آ رہی تھی جس کے ڈرائیور نے میری غلطی کو بھانپتے ہوئے دور ہی سے زوردار ہارن بجا کر مجھے خبردار کرنے کی کوشش کی مگر میں سمجھ رہا تھا کہ جتنا ہمارا فاصلہ ہے۔ مناسب رفتار سے وہ گاڑی میرے قریب پہنچنے سے پہلے ہی میں مڑ سکتا ہوں لیکن چونکہ اس کی رفتا حد رفتار سے زیادہ تھی اس لئے اسے میرے پیچھے قریب آ کر بریک لگانا پڑی جس پر اس ڈرائیور نے مجھے زور دار ہارن کے ساتھ فل لائٹس دیکر اپنے غصے کا اظہار کیا جس پر میں بھی اپنے غصے پر قابو نہ رکھ سکا اور اس کو آگے نکلنے کا راستہ دینے سے انکار کرتے ہوئے کچھ فاصلے تک اسے اپنے پیچھے آنے پر اور گاڑی آہستہ چلانے پر مجبور کیے رکھا۔ اس دوران ایک بار وہ میرے برابر بھی آیا اور مجھے دیکھ کر پھر پیچھے ہو گیا تھا۔ میرپور چوک میں پہنچ کر ہمارے راستے جدا ہو گئے اس کے بعد میں نے سوچا کہ وہ کمرشل گاڑی کا ڈرائیور تھا شاید اس کی کوئی مجبوری ہو جس وجہ سے وہ تیز رفتاری سے گاڑی چلا رہا تھا دوسرا مجھے پیٹرول پمپ سے نکلتے ہوئے احتیاط کرنا چاہئے تھی، اب میرا دل جاہ  رہا تھا کہ اس کے پیچھے اڈے تک جا کر اس سے معذرت کر آوں، لیکن پھر دل نے تسلی دی کہ اس چھوٹے سے شہر کی چھوٹی سڑک پر رش میں اس ڈرائیور کی تیز رفتاری غلط اقدام تھا لہٰذا تجھے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ اتفاق ایسا ہوا کہ لگ بھگ ایک گھنٹے بعد میں ایک دکان سے پھل وغیرہ لے کر نکلا تو ایک موٹر سائیکل سوار نوجوان میرے قریب رکا مجھے سلام کیا اور میرا نام پوچھا، میں نے تعجب کی نظروں سے اسے دیکھا اور نام پوچھنے کی وجہ پوچھی تو اس نے کہا آپ کا نام مختار ہے نا اور ساتھ ہی میرا پتا بھی بتا دیا،اسی سانس میں اس نے اپنا نام وسیم اور اپنے قصبے کا نام بڑھنگ بتاتے ہوئے کہا کہ میرے دل میں آپ کی بہت زیادہ عزت ہے میں سوشل میڈیا پر آپ کا فالور ہوں آپ کو بہت اچھا انسان سمجھتا ہوں لیکن آج آپ نے ایک غلط کام سے مجھے مایوس کیا ہے میں سمجھ گیا کہ یہ وہی ڈرائیور ہے  ایک لمحے کے لئے میں نے اس کو بھی اس کی غلطی بتانے کی کوشش کی مگر چونکہ مجھے پہلے سے ہی احساس ہو چکا تھا لہٰذا معذرت کرنے میں زیادہ دیر نہیں کی، اس نوجوان نے اپنی تیز رفتاری کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ میں خود معذرت کرتا ہوں اور آپ کو اپنے بڑوں کی جگہ عزت دیتا ہوں۔ اس واقعہ کے بعد ابھی تک مجھے شرمندگی ہے اور سوچ رہا ہوں ہم جتنے بھی اچھے بن جائیں آخر انسان ہیں اور کبھی بھی غلطی کا ارتکاب ہو سکتا ہے اب آتے ہیں اپنے معاشرے کی مجموعی صورتحال اور حالات کی طرف ہم اکثر میڈیا اور سوشل میڈیا پر مباحثے دیکھتے سنتے ہیں ہر کوئی دوسروں کی طرف انگلی اٹھاتا اور شکوے کرتا نظر آتا ہے مثال کے طور پر عمران خان صاحب کے مخالفین کا الزام ہے کہ وہ دوسرے سیاست دانوں کے ساتھ بیٹھنے سے انکاری ہو کر ملک میں افراتفری کا مرتکب ہو رہا ہے۔ دوسری طرف خان صاحب کے حمایتی تمام برائیوں کی جڑ پی ڈی ایم کی جماعتوں کے سربراہوں کو گردانتے ہیں پھر ان دونوں متحارب سیاسی جماعتوں کے کارکنان اور سپورٹر ایک دوسرے کے ساتھ کبھی نہ ختم ہونے والی بحثیں شروع کر دیتے ہیں۔ دونوں طرف کے لوگ فوجی اسٹیبلشمنٹ پر بھی تنقید کرتے ہیں (بس وقت بدل بدل کر کبھی ایک فریق فوجی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اور دوسرا مخالف تو کبھی یہ دونوں اپنی اطراف بدل لیتے ہیں) جبکہ ان سیاسی جماعتوں میں سے جس کو بھی اقتدار مل جائے ان کی ترجیحات میں عوام ہوتے ہیں نہ اپنے سیاسی کارکنان، وہ اپنے مفادات کے تحفظ میں لگ جاتے ہیں اب یہاں ملین ڈالر کا سوال یہ ہے کہ ہم میں سے کتنے لوگ ہیں جو اپنے شہر، گاوں، محلے یا رشتہ داروں کے درمیان اختلافات کو مل جل کر حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟کتنے ہیں جن کو اپنے ملک میں ہونے والی کرپشن بری لگتی ہے مگر خود موقع ملنے پر وہ بدعنوانی سے باز رہتے ہیں؟ کتنے ہیں جو اپنے سے بہتر آدمی کا احترام کرتے اور اس کی صلاحیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کو اپنا رہنما بنانے میں تامل نہیں کرتے؟ مجھے تو اپنے معاشرے میں ایسا بندہ کم ہی نظر آتا ہے جو دوسرے کو خود سے بہتر سمجھتا ہو (جب تک کہ اس سے کوئی مفاد حاصل نہ کرنا ہو) ہم سیاست کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنائے ہوئے ہیں مگر جمہوری رویوں کا شدید فقدان ہے. ہمارے درمیان کتنے ہی باصلاحیت لوگ اپنی صلاحیتوں کو دوسروں کے تعصب اور جیلسی کی بھینٹ چڑھا چکے ہیں ہمارے لوگ اپنے درمیان میں موجود اچھے اور مخلص انسانوں کی قدر کرنے کی بجائے اپنے سے بالاتر طبقات کی غلامی کو ترجیح دیتے ہیں جن بڑے سیاستدانوں اور افسروں کے گلے شکوے کرتے نہیں تھکتے موقع ملتے ہی ان کے ساتھ ایک تصویر بنوانے اور ان کی خدمت کرنے کے لئے بیتاب ہو جاتے ہیں اسی طرح روز مرہ کے معاملات میں ہر طرح کے جھوٹ، فراڈ، دھوکہ دہی میں ہر کوئی سبقت لینے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے۔ اوپر سے المیہ یہ کہ ہمارے ملک سے حقیقی سیاستدانوں اور راہنماؤں کا خاتمہ ہو جانے کے بعد سیاست کو تجارت بنانے والے لوگوں کی کھیپ کو ہمارے اوپر مسلط کیا گیا اور فیصلے عوام کی بجائے دیواروں کے پیچھے ہونے لگے۔ اب حالات اس قدر گھمبیر ہو چکے ہیں کہ بہت بڑے انقلاب کے بغیر سدھار ناممکن نظر آتا ہے، لیکن اگر اب بھی ہم دوسروں کی بجائے اپنے گریبانوں میں جھانکنا شروع کر دیں تو معاشرے میں بہتری کی صورت بن سکتی ہے سب سے پہلے اپنے کردار، اپنی سوچ پر غور کیجئے اور اپنے اردگرد کے لوگوں میں خوشگوار ماحول پیدا کرنے کے لئے با معنی گفتگو کا آغاز کیجئے اپنی صلاحیتوں کو مثبت سرگرمیوں کی طرف موڑ کر کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ زبانی واعظ و نصیحتیں کم اور عملی کام زیادہ کرنے چاہئیں دوسروں کے گریبانوں تک پہنچنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانک لیں گے تو پھر تبدیلی کے لئے لمبا سفر کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

مزید :

رائے -کالم -