ملائیشیا کی ترقی کا سفر دیکھ کر حیران ہوگئے،اس کا سہرا مہاتیر محمد کے سر بندھتا ہے جنہوں نے 3مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کو یکجا کر کے عظیم قوم بنا دیا 

 ملائیشیا کی ترقی کا سفر دیکھ کر حیران ہوگئے،اس کا سہرا مہاتیر محمد کے سر ...
 ملائیشیا کی ترقی کا سفر دیکھ کر حیران ہوگئے،اس کا سہرا مہاتیر محمد کے سر بندھتا ہے جنہوں نے 3مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کو یکجا کر کے عظیم قوم بنا دیا 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف:محمد اسلم مغل 
تزئین و ترتیب: محمد سعید جاوید 
 قسط:189
ہم تھوڑے سے عرصے یعنی1957 ء سے 2006 ء(جس سال ہم وہاں گئے تھے) کے دوران ملائیشیا کی ترقی کا سفر دیکھ کر حیران ہوگئے۔  اس کا سارا سہرا صرف ایک لیڈر یعنی مہاتیر محمد کے سر بندھتا ہے جنہوں نے 3مختلف تہذیبوں اور ثقافتوں کو یکجا کر کے ایک عظیم قوم بنا دیا،  جس میں مسلمان، چینی اور ہندو شامل تھے۔ سب سے پہلے ایک ایسا سیاسی اور معاشی نظام متعارف کرایا جو عدل پر قائم تھا اس کے بعد ہر ایک کو آگے بڑھنے کے لیے مساوی مواقع دئیے گئے جس میں ابتدا ء تعلیم اور معاشی ترقی کے شعبوں سے کی گئی۔ وہ ایک اعلیٰ اورسچی قیادت کی قابلِ تقلید مثال ہیں اور بے مثال ترقی کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ ان کی تقلید دوسرے خصوصاً مسلمان ممالک کو کرنا چاہئے۔ ایک چیز جس نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ وہاں کی مذہبی رواداری ہے۔ سارے مذاہب کے افراد اپنے اپنے روایتی طریقے کے مطابق اپنی رسومات ادا کرنے کے لیے پوری طرح آزاد ہیں۔ پاکستان میں تو دوسرے فرقے کے لوگوں کو برداشت ہی نہیں کیا جاتا اور لوگ اپنے خیالات اور عقائد دوسروں پر تھوپنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں۔ پھر اس کے علاوہ صوبائی عصبیت اور ثقافتی مسابقت بھی معاشرے میں اپنا زہر گھولتی رہتی ہیں۔ لیکن ہمارے کسی حکمران کو اتنی توفیق نہ ہوئی کہ وہ یہاں کے افراد میں قومی یکجہتی پیدا کرنے کے لیے کچھ عملی اقدام اٹھاتا جو کہ ملک کی سلامتی اور معاشی ترقی کے لیے بے حد ضروری ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ قائد اعظم کی رخصتی کے بعد ہمیں بھانت بھانت کے حکمران تو بہت ملے لیکن یہاں مہاتیر محمد کی طرح کا کوئی رہنما نہ پیدا ہو سکا۔ اور پھر ظاہر ہے اس کا یہی نتیجہ نکلنا تھا جو سب کے سامنے ہے۔ ذہن میں ایسے ہی افسردہ خیالات اور اپنے وطن کے مستقبل کے لیے اچھی آس اور امید ذہن میں بسائے بجھے دل کے ساتھ ہم نے بنکاک کی پرواز میں سوار ہوگئے جہاں سے ہم نے آگے لاہور جانا تھا۔
فلپائن
 مجھے ایشین ڈیویلپمنٹ بینک کے لیے کچھ تحقیقی کام کے سلسلے میں 2 مرتبہ فلپائن  جانے کا موقع ملا لیکن میں اس دوران منیلا شہر کی حد تک ہی محدود رہا۔ میرا پہلا دورہ  4 جولائی سے 8 جولائی  2006 ء تک تھا جبکہ دوسری بار میرا  10 سے 14 دسمبر 2006 ء تک منیلا میں قیام رہا۔ پہلے دورے کے دوران وسیمہ میرے ساتھ تھی۔ کیونکہ منیلا میں منعقد ہونے والی میٹنگ کے اختتام کے بعد ہمارا سان فرانسسکو جانے کا پروگرام تھا جہاں عمر اور رابعہ ہمارے منتظر تھے۔
منیلا فلپائن کا دارالخلافہ ہے اور اس کی آبادی بے تحاشہ پھیلی ہوئی ہے جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہاں کے مضافاتی علاقے بھی اب اس شہر  میں شامل ہوگئے ہیں۔ ایئر پورٹ سے اپنے ہوٹل تک، جو ایشین ڈویلپمنٹ بینک کے ساتھ ہی واقع تھا، سارے راستے میں ہر طرف غربت ہی نظر آئی۔ جگہ جگہ جھونپڑیاں اور کچی آبادیا ں تھیں لیکن شہر میں کثرت سے بنی ہوئی اونچی عمارتیں اور امارت کی دیگر نشانیاں ایک ہی شہر میں تضاد کی سی کیفیت کی نشاندہی کرتی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق منیلا کی 40 فیصد آبادی خط غربت کے نیچے جی رہی تھی۔ یہاں شہر کا پرانا حصہ بھی ہے جو وقت کی کمی کی وجہ سے میں اسے نہ دیکھ سکا، حالانکہ مجھے اپنے پیشے کے لحاظ سے ایسے تحفظ شدہ علاقوں کو دیکھنے میں بہت دلچسپی ہے۔ منیلا کی نئی آبادیاں کسی طرح بھی دوسرے جدید اور ترقی یافتہ شہروں کی آبادیوں سے مختلف نہیں تھیں۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بُک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوط ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

ادب وثقافت -