دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر38
نظام الدولہ
بہت کچھ بدل گیا تھا۔میری متعدد فلمیں سکرین پر آچکی تھیں اور اس دوران میں بمبئی ٹاکیز کے بعد فلمستان کی ٹیم کا حصہ بن گیا تھا۔ایس مکھر جی نے میرے مستقبل بارے اچھا مشورہ دیا اور انکی رہ نمائی میں ہی فلمستان میں کام شروع کیا۔اس کا بنیادی فائدہ ایک طرح کی گوناآزادی کا احساس تھا۔بمبئی ٹاکیز میں تو میں معاہدہ کے تحت ملازم اداکارتھا لیکن فلمستان میں ایسا کوئی کنٹریکٹ سائن نہیں کیا تھا۔یہ آزادی انسان کو اچھا کام کرنے کی جستجو میں لگا دیتی ہے۔اگرچہ اس دور میں بمبئی ٹاکیز سے جو پیسے ماہانہ ملتے اس سے گھر کا خرچہ اچھی طرح پورا ہوجاتا تھا،اماں کو باقاعدگی سے پیسے دیتا،پشاور سے مہمانوں کا تانتا بھی بندھ گیا تھا،اماں کے بارہ بچے اور آغا جان کی دوبہنوں سمیت اتنے زیادہ لوگوں کے اخراجات پورے کرنا آسان نہ تھا لیکن میری فلم کی کمائی سے گھر کا کچن اچھا چل رہا تھا ۔گھر میں اضافی آمدنی کو ویلکم کیا گیا تھا لیکن پیسہ میری ترجیح نہیں تھا،اچھا کام کرنا چاہتا تھا۔کئی پروڈیوسر مجھے کاسٹ کرنا چاہتے تھے ۔ان حالات میں فلمستان میں ایس مکھر جی کے ساتھ کام کرنے کا فیصلہ زیادہ سود مند تھا ۔ایس مکھر جی نے میرے اس فیصلہ کو سراہا اور پسند کیا۔
دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر37 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
میری فلم ’’شہید‘‘ جو کہ 1948 میں ریلیز ہوئی تھی اس نے میرے فیصلے کی توثیق کردی۔اس فلم میں ہیروئن کامنی کوشال تھی۔وہ بڑی پرفیکٹ اداکارہ تھی۔ہدایت کار کی منشا کے مطابق کام کرتی تھی ۔اس کے ساتھ کام کرنے میں مجھے بڑی آسانی محسوس ہوئی،اس سے پہلے وہ چیتن کی فلم نیچا نگر اور دوسری فلموں میں کام کرچکی تھی،تعلیم یافتہ تھی ،اس کے ساتھ بات چیت کرکے مزہ آتا تھا۔وہ انگریزی بہت اچھی بولتی تھی۔سارا دن ایکٹنگ کے دوران مکالمے بول بول کر جب ہم سب اکتا جاتے تو انگریزی میں گفتگو کرنا اچھا لگتا۔ایس مکھر جی اس پر بہت خوش تھے ۔ہم نے الگ سے ایک گروپ بنا لیا تھا جو انگریزی میں بات چیت کرکے تھکن اتارا کرتا،خوب گپ شپ ہوتی۔اشوک بھیااوررمیش سہگل بھی اس گروپ کا حصہ تھے،گروپ میں سب کامنی کوشال سے زیادہ بے تکلف نہیں تھے۔صرف رمیش سہگل واحدفرد تھے جو کامنی کو انکے اصلی نام یوما سے مخاطب کرتے تھے۔
شہید نے کامیابی کے جھنڈے گاڑدئیے تو میری جوڑی کامنی کوشال کے ساتھ بڑی پسند کی گئی لہذا فلمستان نے اگلی فلم ’’ندیا کے پار‘‘ اور ’’شبنم‘‘ میں بھی ہمیں کاسٹ کرلیا اور اس نے بعد میں بہت زیادہ کامیابی حاصل کی۔
اس زمانے میں ادب لحاظ بہت تھا،جیسا کہ اب ذراسا کسی سے تعلق بن جائے تو میڈیا شور مچا دیتا ہے۔اس دور میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔کسی سے کوئی جذباتی تعلق ہوتا بھی تو اسکی خبر نہ نکلتی،ٹی وی تو تھا نہیں،اس وقت بھی زرد صحافت تھی۔ایک ادھ رسالہ کچھ چھاپ بھی دیا کرتا تھا لیکن اس کا عوام پر اثر نہیں ہوتا تھا ۔
ڈیلی پاکستان کے یو ٹیوب چینل کو سبسکرائب کرنے کیلئے یہاں کلک کریں
میری تینوں فلمیں شہید،ندیا کے پار اور شبنم کامیاب فلمیں تھیں۔اس زمانے میں پڑھی لکھی خواتین میں سینما کا زیادہ ذوق نہیں تھا،جو سینما جاتیں ان کے بارے سماج اچھی رائے نہیں رکھتا تھا ۔میرا تعلق چونکہ ادبی طور پر مضبوط تھا اس لئے میں پڑھے لکھے لوگوں سے تعلق ہی رکھنا پسند کرتا ۔ویسے بھی ہمارے گھر میں آغا جی سے جو لوگ ملنے آتے وہ ہندوستان کے انتہائی تعلیم یافتہ لوگ تھے،مولانا آزاد،سعادت حسن منٹو وغیرہ ۔۔۔ میں ان سے ملتا اور ادب و علم کی بات سنتا اور کرتا،ایک فلم سٹار کے طور میری شہرت بہت پھیل گئی تھی لیکن جب میں ان لوگوں کے پاس بیٹھا کرتا تو یہ شہرت مجھے پریشان کرتی لہذا میں نے دیکھا کہ مجھے زیادہ ذہنی سکون کہاں مل سکتا ہے۔
اس وقت میری عمر بیس سال تھی ۔مجھے کامنی کوشال کے ساتھ بات چیت کرنا اچھی لگتا تھا ۔اس جیسا کوئی نہیں تھا،تہذیب اور علمی گفتگو میں وہ بڑا تاثر رکھتی تھی۔شاید میرا کوئی جذباتی تعلق تھا اس سے،مجھے سب سے اچھی لگتی تھی وہ۔۔۔کامنی کوشال کے ساتھ محبت تھی یہ۔۔۔ مجھے نہیں معلوم ۔۔۔ لیکن اس کے ساتھ بیٹھ کر وقت بیتانا اور باتیں کرنا اچھا لگتا تھا ۔اس نے میری زندگی اور احساسات پر اچھا اثر چھوڑا۔
(جاری ہے)