جب آرزو نہیں ہے، تو کیوں جستجو کروں ۔۔۔

یوں دل سے اُتری شے کی بھلا آرزو کروں
جب آرزو نہیں ہے، تو کیوں جستجو کروں
جب روز ایک زخم نیا دے رہے ہیں وہ
پھر کس لیے میں دامنِ دل کو رفو کروں
جب بات ہی وہ دھیان سے سنتا نہیں مِری
پھر کیسے، ایسے شخص سے میں گفتگو کروں
کیوں مول لوں، ہر ایک سے میں دشمنی بھلا
تیرے لیے ہر ایک کو میں کیوں عدو کروں
لکھنے کو لکھ تو سکتا ہوں میں 'ہجو' بھی تِری
بہتر نہیں قلم کو میں بے آبرو کروں
آسان تو یہی ہے کہ تیرے جواب میں
تیرے کہے ہوئے کو تِرے روبرو کروں
وہ جانے والا جا چکا، تنویر، اِس لیے
بے فائدہ سا کام ہے، جو 'ہاؤ ہو' کروں
کلام :تنویرسیٹھی