محبت کے اسیروں کی تو عادت یہ پرانی تھی۔۔۔

محبت کے اسیروں کی تو عادت یہ پرانی تھی
جنوں ان کا پرانا تھا بغاوت یہ پرانی تھی
تھکن چہرے پہ در آئی تھی اب پیروں سے پوچھو تم
مرے حصے میں آئی تھی مسافت یہ پرانی تھی
پریشاں کیوں ہو تم مظلوم کی حالت پہ میرے یار
یہ اب سے تو نہیں، یارو روایت یہ پرانی تھی
عقیدت کو مری تم جان پاتے کیسے، کیسے میں
بتاتا حال دل کا ان سے نسبت یہ پرانی تھی
محبت کی گلی میں جو گیا لوٹا نہیں پھر وہ
سمجھ لو تم کلیم اس کو کہاوت یہ پرانی تھی
کلام :ڈاکٹر محمد کلیم