گردن کندھوں میں کھچاؤ کی وجوہات ایسی کہ۔۔۔۔۔۔

گردن کندھوں میں کھچاؤ کی وجوہات ایسی کہ۔۔۔۔۔۔
 گردن کندھوں میں کھچاؤ کی وجوہات ایسی کہ۔۔۔۔۔۔

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تحریر: ڈاکٹر طلحہ عباس(ایم ڈی، ایف سی پی ایس برین اینڈ سپائن سرجن)
نیوروسرجن ہی کیا ہر ڈاکٹر اپنے کلینک پر سب سے زیادہ جس مر ض کی شکایت سنتا ہے وہ گردن اور کندھوں کا کچھاؤ ہے۔ بعض مریض تو اسے باقی علامتوں کے ساتھ ملا کر بیان کرتے ہیں مگر بعض مریضوں کی ڈاکٹرکے پاس آنے کی وجہ ہی کندھوں کا کھچاؤ ہوتی ہے۔ اس عام ترین علامت کی آخر وجہ کیا ہے؟ کیا یہ کسی بیماری کی ابتدائی علامت ہے یا یہ خود ایک بیماری ہے؟
گردن حسن پرستوں کی آرزو، شاعروں کا موضوع سخن اور قصائیوں کا تختہ مشق ہی نہیں میڈیکل سائنس میں بھی اسے خاص اہمیت حاصل ہے۔ سمجھنے کے لئے اسے اگلے اور پچھلے حصے میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ اس کے اگلے حصے میں زندگی رواں ہے یعنی کسی بھی انسان کو زندہ رہنے کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے ان کی گزر گاہیں گردن کے اگلے حصے میں مجتمع ہیں۔ سب سے آگے جو سخت چیز نظرآتی ہے یا محسوس ہوتی ہے وہ ہے ہوا کا پائپ یعنی ٹریکیا (Trachea)۔ اس سے ہم نہ صرف سانس اندر اور باہر نکالتے ہیں بلکہ تمام قسم کی آوازیں بھی اسی سے نکلتی ہیں اور آواز نہ صرف زندگی ہے بلکہ وجہ زندگی بھی ہے۔ سانس کی نالی کے بالکل پیچھے خوراک کی نالی اور اس کے دائیں اور بائیں خون کی شریانیں اور وریدیں ہیں جو دماغ ، سر، چہرے وغیرہ کو خون مہیا کرتی ہیں۔
گردن کے پچھلے حصے کی اہمیت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا۔یہ ایک مضبوط سسٹم ہے جو ریڑھ کی ہڈی اور گوشت کے حسین ترین امتزاج سے بنا ہے۔ یہاں ریڑھ کی ہڈی کا ابتدائی اور سب سے محترک حصہ ہوتا ہے جو گنتی کے سات مہروں پر مشتمل ہوتا ہے۔
گردن کے اس پچھلے حصے کا کام سر کو اپنی جگہ پر قائم رکھتا ہے۔ یہ کام اس میں موجود مخصوص مہروں کی وجہ سے اور ان مہروں کے گرد لگے ہوئے مسلز کی وجہ سے ہے۔ مسلز گردن میں کئی تہوں میں ہوتے ہیں سب سے باہر مضبوط اور بڑے مسلز جو سرکے پیچھے حصے سے شروع ہو کر گردن کے دونوں اطراف چمٹتے ہوئے کندھوں اور کمر کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔ یہاں سے شروع ہو کر گردن کے دونوں اطرف چمٹتے ہوئے کندھوں اور کمر کے ساتھ جڑے ہوتے ہیں۔ اس بیرونی تہہ کے بعد اندر کئی تہیں ہوتی ہیں جو ہمیں سر کو کسی بھی طرف حرکت دینے میں مدد دیتی ہیں۔
مذکورہ بالا تمام اعضاء سے بھی زیادہ اہم جو عضو گردن سے گزرتا ہے وہ ہے حرام مغزSpinal Cord۔ اگر حرام مغز گردن کے کسی حصے میں منقطع ہو جائے تو جلد یا بدیر مریض زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور جو اس کی زندگی رہ جاتی ہے وہ مردوں سے ابتر ہوتی ہے۔
اگرچہ گردن درد اور کندھوں میں کچھاؤ سر درد کے بعد سب سے زیادہ کہی جانے والی شکایت ہے۔ اس کی بروقت اور صحیح تشخیص اور علاج مریض کو کئی پیچیدگیوں سے بچا سکتا ہے۔
ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ آپ کی شخصیت اس علامت کی ایک وجہ بن سکتی ہے۔ اکثر خواتین جو ہمارے کلینک میں گردن اور کندھوں کے درد کی شکایت کرتی ہیں یا تو خود بہت زیادہ پریشان ہوتی ہیں یا پریشان کرنے والی ہوتی ہیں۔ پریشان خواتین اچھی ماں، اچھی بیوی یا بہو بننے کی دوڑ میں اس بات سے غافل ہو جاتی ہیں کہ انہیں بھی آرام کی ضرورت ہے۔ وہ تھکاوٹ میں کام کرتی رہتی ہیں۔ اس کی وجہ سے تھکاوٹ پورے جسم سے مسلز میں اکٹھی ہوتی رہتی ہے۔ اس پر ستم یہ کہ خواتین مخصوص وجوہات کی بنا پر خون کی کمی کا بھی شکار رہتی ہیں۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کے ایک ہاتھ میں کھانا پکانے والا چمچہ اور دوسرے ہاتھ میں ان کی گردن ہوتی ہے۔ اسی طرح وہ طالب علم جو کئی کئی گھنٹے کتابوں پر سر جھکائے یا کمپیوٹر سکرین پر توجہ باندھے ہوئے رہتے ہیں۔ ان کے گردن کے مسلز بھی آرام نہیں کر پاتے۔ اس تھکاوٹ کی وجہ سے گردن میں کھچاؤ پیدا ہوتا ہے اور درد سے مزید کچھاؤ پیدا ہوتا ہے۔ ایسے افراد سے گزارش ہے کہ وہ خود پر رحم کھائیں۔ اگر کام کرنا بہت ضروری ہے تو اسے وقفوں میں بانٹ کر کریں یعنی اگر انہوں نے ایک گھنٹہ کام کرنا ہے تو ہر15 منٹ بعد ایک وقفہ لیں۔ گردان کو دائیں بائیں یا آگے پیچھے گھومائیں۔ اگر تکلیف رفع نہ ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کریں۔اب آئیے ان افراد کی طرف جو زندگی میں خوش رہنے کا ہنر کھو چکے ہیں۔ یہ ایسے افراد ہیں جو خود کو گیلے کپڑے کی طرح نچوڑتے رہتے ہیں۔ اکثر گردن درد اور پٹھوں میں کچاؤ کی وجہ سے ڈاکٹر سے رجوع کرتے ہیں۔ مزید پوچھنے پر پتہ چلتا ہے کہ موصوف ساری ساری رات تارے گنتے رہتے ہیں۔ ایسے افراد کو نہ صرف مسلز کا کھچاؤ کم کرنے والی ادویات کی ضرورت ہوتی ہے بلکہ اعصاب کو Relaxکرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کے لئے Auto Trainingاور Self Relaxation تجویز کی جاتی ہے۔
گردن درد کی ایک وجہ اپنے بستر پر نہ سونا بھی ہے۔ ڈاکٹرز ہسپتالوں کی 24-24گھنٹے کی ڈیوٹیوں کے دوران کبھی کرسیوں پر کبھی میز پر کبھی میزوں کی درازوں میں سر رکھ کر سوئے پائے جاتے ہیں یا کبھی لمبے ٹرین، گاڑی یا جہاز کے سفر میں سوتے ہوئے گردن کو بہت بے آرام حالت میں رکھتے ہیں جو گردن کے درد کا باعث بن سکتی ہے۔ اس کے علاوہ جسم میں پانی اور نمکیات کی کمی کی وجہ سے جہاں سارا جسم درد کرتا ہے وہیں گردن کو بھی بل پڑ سکتا ہے۔ ان تمام افراد سے گزارش ہے کہ اپنا خیال رکھیں۔ کام کو وقفے وقفے سے کریں ۔ خود کو ذہنی دباؤ سے دور رکھیں ،مسکرانا سیکھیں، خوراک اور آرام کا خاص خیال رکھیں۔
(ڈاکٹر صاحب سے اس ای میل پر رابطہ کیا جاسکتا ہےdrtalhamalik@gmail.com)

۔

نوٹ: روزنامہ پاکستان میں شائع ہونے والے بلاگز لکھاری کا ذاتی نقطہ نظر ہیں۔ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مزید :

بلاگ -