ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 63
یک نہ شد دو شد
جہاز میں پہنچا تو اپنی نشست کے عین برابر میں ایک نوجوان خاتون کوبراجمان پایا۔یہ خاتون سخت گرمی کا شکار معلوم ہوتی تھی۔کم از کم ان کے لباس سے یہی لگتا تھا۔میں اپنی نشست خالی چھوڑ کر کونے والی نشست پر جابیٹھا۔ امید یہی تھی کہ جہاز میں پیسنجر کم ہوئے تو یہ نشست خالی ہی رہے گی یا کوئی آئے گا تو اس خاتون کے برابر میں بیٹھ کر زیادہ خوش ہو گا۔ سوئے اتفاق کہ جس نشست پر میں براجمان تھا اس کی دعویدار جلد ہی آ گئی۔ یہ بھی ایک نوجوان طالبہ ہی تھی جو پہلی والی کی طرح گرمی کا شکار تھی۔
اس نے دور سے مجھے اپنی نشست پر بیٹھا دیکھا اور مہذب انداز میں جو کچھ کہا اس کا مطلب یہ تھا کہ میری نشست چھوڑ دیجیے ۔بہرحال ان کو جگہ دی اور اپنی نشست پر جابیٹھا۔ اب صورتحال یہ ہوئی کہ میں دائیں بائیں دونوں طرف سے گرمی کی شکار دو نوجوان خواتین کے بیچ میں گھر چکا تھا۔یہ خیال ہوا کہ اسی حال میں جہاز گرگیا تو معاندین کہیں گے کہ دیکھو اس بدکار کا خاتمہ کس حال میں ہوا۔ میں نے جلدی جلدی سفر کی دعائیں پڑ ھیں اور دعا کی کہ جہاز خیریت سے پرتھ پہنچ جائے ۔
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 62 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
مغرب میں عریانی کا مسئلہ
تفنن برطرف مگر میرے دل سے ان کے لیے اور ایسی ساری خواتین کے لیے ہدایت کی دعا نکلی۔ان کی مت نہیں ماری جاتی کہ اس طرح نیم عریاں گھومتی ہیں ، اس رویے کے پیچھے ایک فلسفیانہ سوچ اور ایک خاص سماجی زاویہ ہے ۔
مغرب ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا جیسا وہ اب نظر آتا ہے ۔عریانی، بدکاری اور زنامغرب میں بھی ایسے ہی قابل مذمت سمجھے جاتے تھے جیسے ہمارے ہاں سمجھے جاتے ہیں ۔تاہم پیچھے جس آزادی کی فکر کا تذکرہ ہوا ہے اس نے جہاں دیگر سماجی معاملات پر اپنے اثرات ڈالے وہیں خواتین کی آزادی، مرد و زن کے تعلق کے سابقہ معیارات کو بدل کر رکھ دیا۔اس میں بہت نمایاں اثر فرائڈ کے کام کا ہوا جس نے علم نفسیات کی روشنی میں جنس کے جذبے کو قابو میں رکھنے کے لیے حیاکے معیارات کی نفی کر دی اور عفت اور حیا جیسی چیزوں کو سماجی جبر قرار دیا۔
معاشرتی سطح پر عظیم فلسفی اور دانشور برٹینڈ رسل کے نظریات کا بڑ ا اثر ہوا۔انیسویں صدی میں وکٹورین ایج کی سماجی اقدار بڑ ی حد تک قدامت پسند تھیں ۔مگرصنعتی دورمیں آنے والی سماجی تبدیلیوں نے اس بات کو یقینی بنادیا کہ اب پرانی اقدار کو اپنی جگہ چھوڑ نا ہو گی۔رہی سہی کسر برٹینڈ رسل کی تنقیدوں نے پوری کر دی۔ بیسویں صدی میں میڈیا اور سرمایہ دارانہ نظام نے ان اقدار کو آخری دھکا دیا۔ اور بیسویں صدی کے نصف آخر سے صورتحال مکمل بدل گئی۔انسانیت ایک نئے دور میں داخل ہوگئی جہاں عریانی ایک قدر بن چکی ہے ۔
مغربی سماج کی دو بنیادی کمزوریاں
میں نے پیچھے یہ بیان کیا تھا کہ مغربی سماج نے انسانیت کو مادیت کے عروج پر پہنچادیا ہے ۔تاہم دو پہلو ایسے ہیں جن کی بنا پر یہاں اس ساری مادی ترقی کے باوجود لوگ حقیقی خوشی سے محروم ہیں ۔ ایک حقیقی روحانیت کا خلا اور دوسرے جنسی آزادی کے بعد خاندانی نظام کی شکست و ریخت ۔ یہ دونوں چیزیں بے لگام آزادی کے لازمی نتائج ہیں ۔ خدا ہو یا خاندان دونوں انسانوں پر کچھ پابندیاں لگاتے ہیں ۔خدا کی بیان کردہ اخلاقیات کو تو لوگ فطرت کی آواز سمجھتے ہیں ، مگر شریعت ان کو وہ بیڑ یاں لگتی ہے جس سے ان کی آزادی پرقدغن لگ جاتی ہے ۔اسی طرح خاندان عفت اور حفظ مراتب کے اصول کو مانے بغیر اپنے مقاصد حاصل نہیں کرسکتا۔
خدا نے جنسی تعلق کو حیوانی نسل کے آگے بڑ ھنے کا ایک ذریعہ بنایا ہے ۔ تاہم انسانوں میں یہ جذبہ نسل بڑ ھانے کے ایک تعلق سے کہیں آگے بڑ ھ کر اپنی ایک غیر معمولی کشش رکھتا ہے ۔ یہ کشش خدا نے اس لیے رکھی ہے کہ مرد و زن خاندان کی بھاری ذمہ داریاں اٹھانے کے لیے آپس میں جڑ جائیں ۔دورِ جدید کے انسان نے آزادی کے نشہ سے سرشار ہوکر لذت اندوزی کو اپنا مقصد بنایا توخاندان کہیں پس منظر میں چلا گیا۔خاندان کہیں بنتا بھی ہے تو اکثر بڑ ی عمر میں جا کرجب لوگ لذت اندوزی سے فارغ ہو چکے ہوتے ہیں ۔چنانچہ آپ اکثر مغرب میں یہ دیکھیں گے کہ چالیس پینتالیس سال کے افراد کا پہلا بچہ ان کی گود میں ہو گا۔دوسری طرف نوجوانوں کا حال یہ ہے کہ بیشتربالغ لڑ کیاں بکینی، منی ا سکرٹ پہنے اور نوجوان لڑ کے ان کے آگے پیچھے بھنبھناتے پھرتے ہیں ۔ ایک جائزے کے مطابق مغربی مرد وزن زندگی میں اوسطاً بارہ پارٹنر بدلتے ہیں ۔قیاس یہ ہے کہ اصل تعداد اس سے زیادہ ہو گی۔ا س صورتحال کے پیچھے فرائڈ سے لے کر برٹینڈ رسل تک جیسے بڑ ے اذہان کا استدلال ، آزادی کی تحریک، میڈیا کا مکمل بے لگام ہوجانا اور صنعتی انقلاب کے بعد آنے والی معاشی اور معاشرتی تبدیلیاں ہیں ۔
تاہم یہ غنیمت ہوتا کہ یہ لوگ اس طرح کوئی مثبت نتیجہ حاصل کر لیتے ۔مگر اس وقت صورتحال یہ ہے کہ مغرب میں بیشتر شادیاں ناکام ہوجاتی ہیں ۔لوگ مستقل پارٹنر بدلتے رہتے ہیں ۔سنگل پیرنٹ کی تعداد معاشرے میں بڑ ھتی جا رہی ہے ۔سب سے بڑ ھ کر لوگوں کی تشفی و تسکین ہونے کے بجائے ان کی فرسٹریشن بڑ ھ رہی ہے ۔اس وقت تو مغرب میں مادی اور سماجی ترقی اور امن وامان نے اس صورتحال کو کچھ سنبھال رکھا ہے ۔ کبھی یہ صورتحال بدلی تو یاد رکھنا چاہیے کہ خاندانی تحفظ سے محروم رہنے والے بچے بہت جلد بھیڑ یے بن جاتے ہیں ۔
بے ضر ر خدا کی تلاش
مغرب کا دوسرا مسئلہ ایک روحانی خلا ہے ۔اہل مغرب بیسویں صدی کے تلخ تجربات کے بعد اب خدا کو ماننے کے لیے تیار ہیں ۔ مگر یہ خدا خار ج میں اپنا وجود رکھنے والی اور علیم و قدیر ہستی نہیں بلکہ ایک ثقافتی تصور ہے ۔خدا کو ماننا کسی سچائی کا نہیں بلکہ روحانی سکون کی تلاش کا موضوع ہے ۔ایسا بے ضر ر خدا جو کوئی حکم نہیں دیتا بلکہ آپ کی مرضی کے تصورات میں ڈھلتا چلا جاتا ہے ، اب کافی مقبول ہو چکا ہے ۔ مگر یہ کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔ خداوندکائنات نہیں ہو سکتا جو ایک روز لوگوں کا حساب کرنے کے لیے ان کو اپنے پاس جمع کرے گا۔
اس حقیقی خدا اور اس کی عائد کردہ پابندیوں کو نہ ماننے کا سب سے بڑ ا نقصان یہ ہے کہ انسان حقیقی روحانیت سے محروم رہ جاتا ہے ۔ اس وقت روحانیت کے نام پر انسان کو جوکچھ مل رہا ہے وہ اصلاً ان کے نفسی ذوق کی تسکین ہے ۔انسان کے نفس میں خدا کے تصور کی ایک زبردست طلب ہے ۔ یہ طلب خدا کو ماننے سے پورا ہوجاتی ہے ۔ مگر جس روحانی سکون کو انسان تلاش کر رہا ہے ، وہ خدا کو جیسا وہ ہے اور جو کچھ وہ کہتا ہے ، اس سب کو ماننے ہی سے ملتی ہے ۔یہ چیزلوگ آزادی کے فریب میں ماننے کے لیے تیار نہیں ۔
مغربی مفکرین اپنے تمام تر استدلال میں درست ہو سکتے ہیں ۔ مگر وہ ایک چیز کا ادراک کرنے میں مکمل قاصر رہے ہیں ۔ وہ یہ کہ انسانی طبیعت آزادی میں جتنا سکون محسوس کرتی ہے ، بے لگام آزادی میں اتنی ہی بے کیف ہوجاتی ہے ۔یہی وہ پس منظر ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے بہت محدود پیمانے پر سہی انسانوں پر شریعت کی کچھ پابندیاں لگائی ہیں ۔
اللہ تعالیٰ نے جب بدکاری کو حرام قرار دیا ہے تو اس کے جہاں اور بہت سے سماجی اور اخلاقی پہلو ہیں وہیں ایک بہت اہم پہلو یہ ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ انسان کو اِس دنیا میں لذت کامل نہیں مل سکتی۔ اگر انسان کو کھلی چھوٹ مل گئی تو انسان لذت کی تلاش میں آخر کار اپنے سماجی ڈھانچے کو تباہ کر لے گا اور پھر بھی بے سکون رہے گا۔چنانچہ انھوں نے بدکاری پر پابندی لگا کر انسانوں کو ایک طرف اس سماجی انارکی سے بچایا ہے دوسری طرف پابندی لگا کر اس کی زندگی میں مقصدیت اور روحانیت پیدا کر دی ہے ۔یہ مقصدیت جنت کی اس بستی کی ہے جہاں لذت کامل ہو گی اور روحانیت خدا سے اس تعلق کی ہے جو بے لگام آزادی کے ساتھ نہیں مل سکتی۔یہ مقصد اور یہ روحانیت انسان کو وہ آخری سکون عطا کرتا ہے جو اس دنیا میں اسے مل سکتا ہے ۔
یہی معاملہ شریعت کے ہر حکم کا ہے ۔ اللہ کو معلوم ہے ان کے نام لیواؤں کی ایک بڑ ی تعداد کے لیے فجر کی نماز پڑ ھنا بہت مشکل کام ہے ۔اور بہت سے لوگوں کے لیے ساری نمازیں پڑ ھنا بہت مشکل کام ہے ۔ وہ یہ کرسکتے تھے کہ صرف جمعہ کی نماز فرض کر دیتے ۔ مگر انھوں نے پنج وقتہ نماز میں کوئی رعایت نہیں کی۔انھیں معلوم ہے کہ گرمیوں کے روزے بہت مشکل ہوتے ہیں ۔ انھیں معلوم ہے کہ حج کرنا آسان نہیں ۔ مگر شریعت کے ہر حکم میں دیگر حکمتوں کے علاوہ ایک اور اصول کارفرما ہے ۔ وہ یہ کہ انسانوں کو جتنی خوشی آزادی سے ملتی ہے ، اتنا ہی اطمینان بعض محدود پابندیوں میں بھی ملتا ہے ۔
مگر یہی وہ پابندیاں ہیں جن کی وجہ سے جدید انسان خدا کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ۔وہ ایک ایسے خدا کو ماننے کے لیے تیار ہے جو بس اخلاقی احکام دیتا رہے ۔انسانیت کی بات کر لے ۔اس سے آگے بڑ ھ کر عملی زندگی میں انفرادی یا اجتماعی سطح پر دخل اندازی نہ کرے ۔ ایسے خدا کو انسان ماننے کے لیے تیا رنہیں ۔(جاری ہے)
ترکی سے آسٹریلیا تک پاکستانی سکالر ابویحیٰی کے مشاہدات۔ ..قسط نمبر 64 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں