پاک فوج اور عوام میں خلیج کیوں؟ قسط: 3

پاک فوج اور عوام میں خلیج کیوں؟ قسط: 3
پاک فوج اور عوام میں خلیج کیوں؟ قسط: 3

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


 آج اس سلسلے کی تیسری قسط ہے، راقم اس قسط میں کالم اور موضوع کو سمیٹنا چاہتا ہے، اس لیے کئی سوالات اور واقعات سے صرف نظر کرتے ہوئے مسائل کے حل پر زیادہ توجہ مرکوز رکھی جائے گی، پچھلی قسط میں ہم ضیاء  الحق کے دور تک پہنچے تھے. اس وقت ن لیگ کے قائد میاں نواز شریف صاحب بھی جنرل ضیاء  الحق کی دریافت ہیں  ان کے ساتھ محمد خان جونیجو صاحب جو کسی کی نظر میں ہی نہ تھے کو بطور وزیراعظم سامنے لایا گیا، چوہدری شجاعت حسین کی کتاب”سچ تو یہ ہے“ میں چوہدری صاحب لکھواتے ہیں کہ ہم رات 12 بجے ضیاء الحق سے میٹنگ ختم کر کے نکلے جس میں الٰہی بخش سومرو کے وزیراعظم لانے کا فیصلہ ہوا اور ہم نے رات کو مٹھائی کی دکان کھلوا کر مٹھائی خریدی اور سومرو صاحب کے گھر مبارک دینے پہنچے، لیکن صبح جب اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو ضیاء  الحق نے الحمدللہ پڑھ کر محمد خان جونیجو کو وزیراعظم نامزد کر دیا سارے ممبران اسمبلی ہکے بکے رہ گئے، جیسے عمران خان نے بزدار کو اچانک کہیں سے نکال کر وزیراعلیٰ پنجاب بنا دیا تھا۔ محمد خان جونیجو کو تاریخ کا کمزور ترین وزیراعظم سمجھا گیا، لیکن انہوں نے اپنے دور میں بہت اچھے کام بھی کیے اور جمہوریت کی طرف پیش قدمی کرنے کی کوشش کی، شاید اسی لئے اس اپنے مقرر کردہ کمزور وزیراعظم سے بھی نبھا نہ ہو سکا اور افغانستان کے کے معاملے پر جنیوا معائدے کی پاداش میں ان کو بھی اس طرح معزول کیا گیا کہ جنیوا میں وہ پاکستان کے وزیراعظم تھے اور پاکستان اترتے ہی عام پاکستانی جنہیں ایئرپورٹ سے ٹیکسی لیکر گھر جانا پڑا، ضیاء  الحق اپنے ساتھی جنرلز اور امریکی سفیر سمیت جب طیارہ حادثے کی نظر ہو گئے اس کے بعد پہلے سے اعلان کردہ 88 کے انتخابات  میں میاں نواز شریف کی سربراہی میں اسلامی جمہوری اتحاد بنوایا گیا، لیکن جب پاکستان پیپلز پارٹی تمام تر دباو اور صعوبتوں کے باوجود قومی اسمبلی میں اکثریتی جماعت کے طور پر کامیاب ہو گئی تو پھر صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ کس نے لگوایا؟ غیر قانونی ہتھکنڈوں سے پنجاب میں نواز شریف کو اکثریت دلوا کر وزیراعلیٰ بنوا دیا جس نے مرکز کے ساتھ محاذ آرائی شروع کر دی۔ادھر مرکز میں پیپلز پارٹی کے ہاتھ پاؤں باندھ کر حکومت دے دی گئی، یعنی اسٹیبلشمنٹ نے وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب اپنا رکھا جبکہ صدر اسحاق خان جن کے ہاتھ میں آٹھویں آئینی ترمیم کی تلوار تھی وہ بھی اسٹیبلشمنٹ کے نامزد کردہ تھے پھر 88ء سے 99ء تک پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی دو دو حکومتوں کو منتخب کروایا اور معزول بھی کیا گیا اور ایک بار پھر سول حکومت پر شب خون مارا گیا.

پھر مشرف صاحب سیاہ و سفید کے مالک بن کر فیصلے کرنے لگے، اسی دور میں 9/11 ہوا اور امریکہ نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ افغانستان پر چڑھائی کر دی، جہاں پاکستان کی حمایت یافتہ طالبان حکومت تھی، جنرل مشرف صاحب امریکی صدر کی ایک فون کال کی تاب نہ لا سکے اور امریکی اتحادی بن کر افغان جنگ کا ملبہ پاکستان پر گرا لیا گیا۔ راقم لاتعداد واقعات کو نظر انداز کرتے ہوئے چند سوالات کرنے کی جسارت کرتا ہے پہلا اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان کے 27 وزراء اعظم میں سے پہلے وزیراعظم نواب لیاقت علی خان اور خواجہ ناظم الدین کے علاوہ کونسا وزیراعظم ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے راستے سے نہ آیا ہو؟ پھر جن بتوں کو آپ خود تراشتے ہو وہ کس طرح ایوانوں کے بت خانے میں جا کر خدا بن بیٹھتے ہیں؟ تمام وزراء  اعظم کا سفر ایک صفحہ سے شروع ہوتا ہے اور پھر اسی صفحے کی کرچی کرچی پر ختم کیوں ہوتا ہے؟ پچھلے دو دہائیوں کے واقعات نے تو پردہ ہی چاک کر دیا ہے. آپ ہزار کہیں کہ آپ سیاست سے دور ہیں، مگر بچے بچے کی زبان پر یہ بات ہے کہ سارے فیصلے اسٹیبلشمنٹ کی منظوری سے ہوتے ہیں. پاکستان کے سیاستدان، علماء کرام، سرمایہ دار اور میڈیا والے سب یہ کیوں سمجھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ خوشگوار تعلقات کے بغیر ہمارا گزارہ نہیں ہے؟ جتنی حکومتوں کو مالی بدعنوانیوں کے الزام میں فارغ کیا گیا ان سے کچھ برآمد کیوں نہیں ہو سکا؟ بلکہ ان میں سے کئی کو دوبارہ اقتدار دیا جاتا رہا جو آج بھی ہو رہا ہے؟ الطاف حسین کئی دہائیوں تک کراچی میں لسانیت کے نام پر قتل و غارت کرواتا رہے۔ قائد اعظم کے مزار پر کھڑے ہو کر پاکستان کا پرچم جلا دے تو اسے کچھ نہ کہا جائے، لیکن جیسے ہی وہ سازش کرے تو پھر الطاف سے بانی کہلائے اور پاکستان میں نظر نہ آئے۔ عمران خان پارلیمنٹ اور دوسرے ریاستی اداروں پر چڑھ دوڑے تو خیر رہے، لیکن اگر آپ کے خلاف گستاخی کا مرتکب ہو تو صرف چیئرمین کہلائے اور تنہا ہو جائے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں تمام مقدمات کے فیصلے عدلیہ میں ہوتے ہیں مگر ہمارے ہاں کسی فوجی افسر کا کوئی مقدمہ کیوں ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ میں نہیں چلایا جا سکتا، اگر فوج کا اپنا نظام الگ ہے تو پھر تو یہی کہا جائے گا کہ ریاست کے اندر ریاست ہے۔ایک سوال یہ ہے کہ کئی اعلی فوجی افسروں کے اثاثے ان کی آمدن سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں،مگر ان کا میڈیا میں ذکر آتا ہے نہ ٹیکس کا ادارہ ان کی پڑتال کرتا ہے جبکہ سیاستدانوں کی بدعنوانیوں کے چرچے ہوتے رہتے ہیں آج کل نادرا کے چئیرمین اور کچھ دوسرے افسر بھی بدعنوانی کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں۔


یہ خاکسار چاہتا ہے کہ ہماری فوج اور عوام کے درمیان کوئی خلیج پیدا نہ کر سکے اور عوام ہمیشہ فوج کی پشت پر کھڑے ہوں اور ہر فوجی کی عزت ہو ہم جہاں فوجی بھائی کو دیکھیں اسے سیلوٹ کریں، لیکن یہ تب ہی ممکن ہوگا جب ہم سب برابر ہوں گے اور ہمارے حقوق بھی ایک جیسے ہوں گے، کیونکہ ہم سب ایک ہی وطن کے باسی ہیں. فوجی اسٹیبلشمنٹ یا تو اقتدار کے فیصلے عوام پر چھوڑ کر اپنی دفاعی تیاریوں پر توجہ مرکوز رکھے یا پھر اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اقتدار میں آپ کا شامل ہونا ملک کے لیے ناگزیر ہے تو پھر آئینی ترمیم کے ذریعے باقاعدہ طور پر اقتدار میں شامل ہو جائیں اور ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں اس سے پہلے کہ یہ خلیج گہری ہو ہمیں سنجیدگی سے سوچنا ہو گا۔

مزید :

رائے -کالم -