جاگ پاکستانی جاگ…… ورنہ……!
کہاوت ہے دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے۔ میری عمر کے پاکستانی بنگلہ دیش کے تجربے سے اِس قدر ڈرے ہوئے ہیں کہ پاکستان کے محفوظ مستقبل کے لئے ہمیشہ پریشان رہتے ہیں۔ ایک ”متنازعہ جملہ“ بھی پریشان کر دیتا ہے ایسا ہی کچھ گزشتہ دنوں ہوا۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے جب پی آئی اے خریدنے اور پھر پنجاب ائیر لائن کے قیام کی بات کی اور تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم رہنے والے ان کے والد میاں نواز شریف نے بھی یہی کچھ کہا اور صاحبزادی کی باتوں کی ”تصدیق و توثیق“ کی تو ماضی یاد آ گیا۔ وہ ماضی جب 36 سال پہلے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کا طیارہ ہوا میں پھٹنے کے بعد پاکستان میں عام انتخابات کا اعلان ہوا تو ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے ”خوفزدہ“ اس وقت کی عسکری قیادت نے جو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی لگانے کے بعد بھی ذوالفقار علی بھٹو سے ڈرتی تھی جناب بھٹو کی صاحبزادی بے نظیر بھٹو کا راستہ روکنے کے لئے اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل حمید گل کو ”ذمہ داری“ سونپی، جنہوں نے گیارہ سال سے ظلم و جبرکی چکی میں پسنے والی جماعت پیپلز پارٹی کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے دائیں بازو کی جماعتوں پر مشتمل اسلامی جمہوری اتحاد، یعنی آئی جے آئی بنوایا۔ بے نظیر بھٹو کی تمام مخالف جماعتیں اس اتحاد میں اکٹھی کر دی گئیں، مگر جب قومی اسمبلی کے انتخابات کا نتیجہ آیا تو ”ان“ کی تمام امیدوں اور کاوشوں پر پانی پھر گیا۔ پیپلز پارٹی نے 93 اور آئی جے آئی نے صرف 54 سیٹیں حاصل کیں مگر اس کے باوجود جناب نواز شریف کا حوصلہ قائم رہا انہوں نے نعرہ مستانہ بلند کیا کہ وفاق میں حکومت ہم ہی بنائیں گے، لیکن اسی رات ایک ”فیصلہ“ ہوا اور پھر راتوں رات پنجاب بھر کی سڑکوں پر بینر لگ گئے۔ سکولوں، کالجوں، سرکاری اور نجی عمارتوں کی دیواروں پر وال چاکنگ ہو گئی، جہاں ایک ہی نعرہ درج تھا ”جاگ پنجابی جاگ۔ تیری پگ نوں لگ گیا داغ“۔ یعنی پیپلز پارٹی کی جیت ہمیں قبول نہیں اور ”وفاق“ میں پیپلز پارٹی کی حکومت بننے کا مقصد پنجابیوں کی پگ کو داغ لگنا ہے۔ یہ وہ ”صوبائیت کا علم“ تھا جو سب سے بڑے صوبے کے لیڈر نے بلند کیا۔ صوبائیت کی، جس لہر نے 1988ء میں جنم لیا اس کا پہلا شاہکار 1989ء میں 15 نومبر کو سامنے آیا، یعنی پنجاب بینک کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس طرح پاکستان بننے کے 42 سال بعد ہمیں ایک قومی بینک (نیشنل بینک) کی بجائے صوبائی بینک یاد آنا شروع ہوگئے۔ پنجاب بینک جسے سٹیٹ بینک نے 1994ء میں شیڈول بینک کا درجہ دیا اب اس نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ آج اس کی برانچوں کی تعداد 800 سے زیادہ ہو چکی ہے اور پنجاب حکومت اسے رواں سال میں 900 تک لے جانا چاہ رہی ہے۔ پنجاب حکومت کے اس ”صوبائی بینک“ کے قیام کے صرف دو سال بعد صوبہ سرحد یعنی موجودہ خیبرپختونخوا میں اسلامی جمہوری اتحاد کی صوبائی حکومت نے جس کے وزیراعلیٰ میاں نواز شریف کی مسلم لیگ کے میر افضل خان تھے دوسرا صوبائی بینک قائم کیا،جس کا نام خیبر بینک تھا۔ صوبائی بینکوں کی بنیاد مسلم لیگ(ن) کی طرف سے رکھی گئی اور پھر جب بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد وفاق اور سندھ میں پی پی پی کی حکومت قائم ہوئی تو ”جناب زرداری کے زیر سایہ“ 2010ء میں 29اکتوبر کو ملک کے تیسرے صوبائی بینک، یعنی سندھ بنک کا قیام عمل میں لایا گیا۔ یہ صوبائی بینک بھی پھل پھول رہا ہے اور آج اس کی 169شہروں میں 331 برانچیں ہیں۔ بلوچستان پاکستان کا بے شک سب سے بڑا اور قدرتی وسائل سے مالا مال صوبہ ہے، لیکن بیچارہ اپنی آبادی کے لحاظ سے سب سے چھوٹا اور اس ملک کا سب سے زیادہ نظر انداز شدہ صوبہ ہے۔ لہٰذا2021ء میں بینک آف بلوچستان کا قیام عمل میں آیا اور حیران کن طور پر اس بینک کا تصور 2017ء میں کسی اور نہیں گورنر سٹیٹ بینک اشرف وتھرا نے دیا تھا۔ یہیں پر بس نہ ہوئی ایک بینک آزاد جموں و کشمیر نے بھی قائم کیا ہے اور وہ بنک 2005ء میں قائم ہوا ہے۔ کسی بینک کے قیام پہ اعتراض نہیں ہے، کیونکہ بینک ایک کمرشل ادارہ ہوتا ہے، لیکن اگر اس سے صوبائیت کی بو آئے تو پھر مستقبل میں اس کے قیام سے ملک کو خطرات بڑھتے ہیں۔ میاں نواز شریف قیام پاکستان کے بعد اس ملک میں سامنے آنے والے سیاسی لیڈروں میں دوسرے بڑے لیڈر کہے جا سکتے ہیں کہ پہلا نام جناب ذوالفقار علی بھٹو کا ہے، جنہوں نے اپنی جماعت پیپلز پارٹی بنائی اور پھر ”کھمبے جتوا“ کر دکھا دیئے۔ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کے بعد ان کی جماعت ”مشکل میں آئی“ اور ان کی اہلیہ نصرت بھٹو اور صاحبزادی بے نظیر بھٹو نے فوجی آمر کے مظالم کے خلاف مزاحمت کا علم بلند کیا تو فوجی حکمرانوں کو ایک متبادل قیادت کی تلاش ہوئی اور جنرل غلام جیلانی خان نے پنجاب کے صنعتکار میاں محمد شریف کے صاحبزادے میاں محمد نواز شریف کو اس مقصد کے لئے چنا۔ میاں محمد نواز شریف نے اس کے بعد مڑ کر نہیں دیکھا وہ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد اِس ملک کے دوسرے بڑے لیڈر بنے،اب وہ علیحدہ صوبائی ایئر لائن کی بات کر رہے ہیں۔ خیر ”جواب آں غزل“ صوبہ خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے بھی فوری طور پر پی آئی اے کو خریدنے کا اعلان کر دیا ہے، لیکن حیران کن طور پر انہوں نے اس کا نام خیبر ائیر لائن یا کوئی اور نہیں رکھا، ابھی تک وہ پی آئی اے کو خریدنے کی حد تک ہی محدود رہے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ ان دونوں بلکہ تینوں کو صدر آصف زرداری کے ایک قریب ترین معتمد خاص شرجیل میمن دیں گے اور وادی مہران کی مناسبت سے ”مہران ایئر لائن“ کا اعلان فرمائیں گے۔ بلوچستان والے بیچارے غریب لوگ ہیں انہیں یہ اعلان کرتے کرتے لازمی بات ہے ابھی بہت سال لگیں گے۔ یہ سب کچھ ایک ایسے ماحول میں ہو رہا ہے۔ دنیا میں پاکستان کو تقسیم کرنے کی باتیں برسوں سے شروع کی جا رہی ہیں، مگر ہم اور ”ہمارے حکمران“ سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہیں۔ بلوچستان پر بھارت اور اپنے ”بھائیوں“ ان کی ”پشت پر موجود“ طاقتور ممالک کی نظریں ہیں۔ افغانستان نے پہلے دن سے ”ڈیورنڈ لائن“ کو قبول نہیں کیا اور آج بھی اپنی سرحد دریائے سندھ مانتا ہے۔ سندھ میں الطاف حسین کی شکل میں ”تقسیم سندھ“ کا شوشہ موجود ہے، لیکن ان حالات میں جب صوبائی ائیر لائن کی بات ہو تو پھر انجانے خوف لاحق ہوں گے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ سے ہی امیدیں ہیں اور اسی سے اس ملک کی سلامتی کی دعا ہے۔
٭٭٭٭٭