پاک فوج اور ابابیل
کل لکشمی چوک (لاہور) کے ایک تنگ سے بازار میں جانے کا اتفاق ہوا۔ ڈرائیور کو مطلوبہ اشیاء لانے کو بھیج کرمیں گاڑی میں بیٹھا بعض لوگوں کی محرومیوں کا اندازہ کررہا تھا جو میرے سامنے سے گزر رہے تھے ان میں سے بیشترمزدور اور دیہاڑی دار تھے اور میری جبینِ نیاز بار بار اس خالقِ حقیقی کے حضور سجدہ ریز ہو رہی تھی کہ جس نے مجھے گاڑی دی، ڈرائیور دیا اور 80سالہ بوڑھے کو ایک طویل عرصے کے بعد اس بھرے پَرے بازار میں ایک بار پھر جانے کا موقع عطا فرمایا۔ ساٹھ برس پہلے انہی بازاروں کو دیکھا تھا۔ میں ان ایام میں قلعہ گجر سنگھ میں ایک عزیز کے ہاں مقیم تھا اور اپنی بائیسکل پر روزانہ گورنمنٹ کالج آیا جایا کرتا تھا۔
یہ علاقہ اس دور میں سنیما گھروں کا گڑھ تھا۔ یہاں فلمی ستاروں کا آنا جانا لگا رہتا تھا۔ فلموں کے کئی دفاتر اسی چوک کی بالائی منازل میں واقع تھے۔ یہیں صبیحہ، سنتوش، درپن اور منور ظریف کو بارہا دیکھا، سنا اور پھر شام کو یہاں سے 20،30گز دور کسی سنیماگھر میں بیٹھ کر ان کی فلموں کو بھی دیکھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ وہ ایک الگ دور تھا جسے میں اس تنگ بازار میں بیٹھ کر یاد کررہا تھا اور جومیرے زمانے میں تنگ نہیں تھا۔ اکا دکا کاریں نظر آیا کرتی تھیں۔ تانگوں کا دور دورہ تھا۔ اب تو بہت کچھ بدل گیا ہے۔
میں ابھی انہی سوچوں میں گم تھا کہ ایک وسطانی عمر کے آدمی نے آکر سلام کیا اور کہا: ”شمشیروسناں اول؟“…… انہوں نے اپنا تعارف کروایا اور کہا کہ: ”میں یہاں ایک پریس کا مالک ہوں۔ میرا نام ذوالفقار ہے اور میں عرصہ 20سال سے آپ کے کالم کا قاری ہوں۔ آیئے ایک کپ چائے پیجئے“۔ میں نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ مجھے جلدی ہے، ڈرائیور کا انتظار ہے…… ذوالفقار صاحب نے مجھ سے پوچھا: ”سر، آپ آج کل فوج پر کچھ نہیں لکھتے،کووں اور چیلوں پر لکھنا تو آپ کا موضوع نہیں تھا۔ میں اور اس بازار میں کافی لوگ روزنامہ ”پاکستان“ میں آپ کے کالم کے متلاشی رہتے ہیں۔ آپ نے فوجی موضوعات کو چھوڑ کر پرندوں اور درندوں کا رخ کیوں کر لیا ہے؟“…… میں نے ان کو بتایا کہ یہ داستان دراز ہے، کیا بتاؤں اور کیا نہ بتاؤں۔
…… فوجی موضوعات پر لکھتے لکھتے اگر قلم ذرا سا بھی چوک جائے تو دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں رات کو گھر کا دروازہ کوئی نقاب پوش آکر کھٹکھٹائے اور کہے: ”سر، شرافت سے ہمارے ساتھ آ جایئے ورنہ……“ اب ایسے ماحول میں آپ بتائیں کہ میں ”کووں‘‘پر لکھوں یا فوجی جوانوں پر؟ ہر روز خبر آتی ہے کہ وزیرستان یا باجوڑ یا مستونگ یا گوادر میں ایک آفیسر اور چار دوسرے فوجیوں کو گولی مار کر شہید کر دیا گیا ہے۔ یہ پڑھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔
اتنے میں ڈرائیور واپس آ گیا اور ہم لکشمی چوک سے روانہ ہو کر لاہور کینٹ کی طرف چل پڑے۔ راستے میں بار بار یہی سوچتا رہا کہ میں پرندوں پر کیوں لکھتا ہوں؟29،30برس کی فوجی ملازمت میں دس بارہ مقامات میں Serve کرنے کے مواقع ملے۔ گلگت سے گوادر تک اور کھاریاں سے پشاور تک صرف فوج کے اداروں سے انٹرایکشن نہیں رہا بلکہ سول اداروں اور وہاں کے بازاروں اور گلی کوچوں میں جانے اور ان کے مکینوں سے بات کرنے کے مواقع بھی میسر آئے۔ مجھ پر ہی کیا منحصر ہر فوجی جوان، جے سی او آفیسر پر بھی یہی کچھ گزرتا ہے۔
ان واقعات پر لکھنے بیٹھوں تو یادِ ماضی عذاب بھی بن جائے گی لیکن ثواب کا سامان بھی کر جائے گی۔ اس عذاب و ثواب کا تذکرہ کرتے ہوئے اگر ان میں اپنی تجزیاتی Input بھی شامل کردوں تو اپنے دور کی پاک آرمی کے قصیدوں کا ایک دیوان مرتب ہو جائے گا۔ شاید آج ان قصاید کو پڑھنے والے لوگ(سویلین) مجھ پر حرف گیری کریں کہ کرنل صاحب کو ساون میں صرف ہرا ہرا ہی کیوں سوجھتا ہے۔ وہ سوچتے ہوں گے کہ اگر ماگھ پھاگن میں درختوں کا ہرا پن، زرد پن میں تبدیل ہو جاتا ہے تو اس کو بھی موضوعِ سخن بنانا چاہیے……
اتنے میں ہم لکشمی چوک سے نکل کر منٹگمری روڈ اور پھر شملہ پہاڑی کی طرف جا رہے تھے۔ دن کے دو بج رہے تھے ایک تو دھند (Smog) چھٹنے کا نام نہیں لیتی تھی، ساری سڑک اور اردگرد کا ماحول کہرے میں لپٹا ہوا تھا اور گاڑیاں تھیں کہ ان کی قطاریں تیز رفتاری کی بجائے آہستہ روی کا مقابلہ کر رہی تھیں۔ میرا دماغ اب پرندوں کی دنیا سے نکل کر ان انسانوں کی دنیاؤں میں پہنچ چکا تھا کہ جو میری طرح ان گاڑیوں میں سوار اور دھند کی پرواہ کئے بغیر رواں دواں تھے۔ مجھے ایسے معلوم ہوا کہ میں لاہور میں نہیں بلکہ موسمِ سرما میں لندن، مانچسٹر یا پورٹ ماؤتھ کی سڑکوں پر رینگ رہا ہوں۔
اسے محض اتفاق ہی کہا جائے گا کہ دو تین کلومیٹر آگے بڑھے تو سڑک کے دائیں کنارے پر پرندوں کی ایک مارکیٹ پرنظر پڑی۔ ایسی مارکیٹوں میں نہ صرف پرندوں کے لئے دانہ دنکا برائے فروخت موجود ہوتا ہے بلکہ آپ وہاں سے پالتو پرندے وغیرہ بھی خرید سکتے ہیں۔
اس مارکیٹ کے سامنے ایک فوجی گاڑی (اڑھائی ٹن ڈاج) کھڑی تھی جس میں 4،5فوجی سوار تھے۔میری نظر فوجی گاڑی میں بیٹھے ایک نائیک پر پڑی جس نے کاندھے پر ”ابابیل“ کا ”فارمیشن سائن“لگا ہوا تھا۔ یہ فارمیشن سائن 16ڈویژن کا سائن تھا جو آج کل شاید پنوں عاقل میں مقیم ہے۔ میں نے اس فوجی سے بلند آواز میں پوچھا: ”آپ یہاں کب سے ہیں؟“…… اس کا جواب تھا کہ وہ ایک فوجی دستے کے ہمراہ ٹریننگ کے لئے 11ڈویژن (لاہور) میں آیا ہوا ہے۔
یہ 16ڈویژن جس کا ذکر کررہا ہوں 1980ء کے عشرے میں کوئٹہ میں تھا جہاں میں نے تین برس اس ڈویژن ہیڈکوارٹر میں بطور گریڈ ٹو سٹاف آفیسر گزارے تھے اور بازو پر ”ابابیل“ کا ”فارمیشن سائن“ پہنا تھا۔اس ڈویژن کے ساتھ بہت سی یادیں وابستہ ہیں۔(جنرل وحید کاکڑ ان ایام میں اس ڈویژن کے GOC تھے جو بعد میں آرمی چیف بنے۔)یادش بخیر اس ڈویژن سے پوسٹنگ کے بعد میں نے ”ابابیل“ پر یہ چند اشعار لکھ کر ہیڈکوارٹر 16ڈویژن کو ارسال کئے تھے جو ڈویژن کے کرنل سٹاف کے دفتر میں کئی برسوں تک آویزاں رہے۔ آج پرندوں کی مارکیٹ کے سامنے کھڑی گاڑی میں ’ابابیل‘ کی یاد میں لکھے وہ اشعار یاد آنے لگے:
پرندوں کی دنیا کا درویش ہے یہ
بناتا ہے خلوت میں اپنا ٹھکانہ
ہوا نہ کبھی خاک ریزی کا خوگر
زمیں پر کبھی اس کا آنا نہ جانا
فضاؤں میں اِترا کے بَل کھا کے اڑنا
گھٹاؤں میں لہرا کے چکر لگانا
کڑی دھوپ میں بارشوں کا پیامی
حسین موسموں کا مفسر پرانا
بیاں اس کا قرآن میں آ چکا ہے
یہ سب ماجرا جانے سارا زمانہ
ہمہ یاراں دوزخ، ہمہ یاراں جنت
میرے ساتھ رہتا ہے، شانہ بشانہ
گرمی کے موسم میں جب بادل گھر کرآتے ہیں اور ٹھنڈی ہوائیں چلتی ہیں تو ان ہواؤں میں ابابیلوں کے غول بھی اڑتے نظر آتے ہیں۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ پرندہ کہاں رہتا ہے، کہاں گھونسلہ بناتا ہے اور بارشوں کی آمد کی خبر اس کو کیسے ہو جاتی ہے۔
سورہ ”الفیل“ قرآن حکیم کے 30ویں پارے میں 105ویں سورہ ہے جس میں صرف پانچ آیات ہیں۔ ان میں تیسری آیہ یہ ہے: ”و اَرسَلَ عَلَیھم طیراًاَبَابیل“…… جس کا ترجمہ ہے کہ ”ہم نے ابابیلوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیج دیئے“۔ اس سورہ کی شانِ نزول جس واقعے سے وابستہ ہے وہ تقریباً 525ء میں پیش آیا تھا۔ ابابیلوں کے ”لشکروں“ نے حبش کی عیسائی حکومت کے 70ہزار فوجیوں کو کنکر مار مار کر برباد کر دیاتھا اور خانہ کعبہ کو بچا لیا تھا۔
قارئین کی اکثریت اس واقعے کو جانتی ہے۔ میں نے صرف پرندوں کے حوالے سے ”ابابیل“ کا ذکر اپنی درج بالا نظم میں کیا تھا۔
”مشاہدۂ طیور“ میرا ایک پرانا مشغلہ ہے جو فوج میں آنے سے بہت پہلے میرے بچپن اور لڑکپن میں دلچسپیوں کا ایک فوکس ہوا کرتا تھا۔ اب اس دور کو یاد کرتا ہوں اور اس کا ناتہ فوجی ماحول سے جوڑتا ہوں تو قلب و نظر کو ایک ایسی آسودگی ملتی ہے جس کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ دراصل ہماری زندگی کے بہت سے واقعات کے ڈانڈے بچپن، لڑکپن،جوانی،ادھیڑ عمری اور پھر بڑھاپے سے ملے ہوئے ہیں جن کو بیان کرنے کا ایک مقصد یادِ ماضی ہے اور دوسرا اپنی نئی نسل کے لئے ایک سبق آموزکہانی بھی ہے جس کے اوراق گاہے بگاہے الٹنا ضروری ہوتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے:
تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را
گاہے گاہے باز خواں ایں قصہء پارینہ را