شاہد لونڈ کی ہلاکت آر پی او بہاولپور کا اہم کردار
شاہد لونڈ جوکہ دہشت کی علامت سمجھا جاتا تھا اور حکومت پنجاب نے ڈاکو شاہد لونڈ کے سر کی قیمت ایک کروڑ روپے مقرر کر رکھی تھی یہ ڈاکو پولیس اہلکاروں کے قتل، دہشت گردی، اغوا برائے تاوان، پولیس پر حملوں، قتل اور ڈکیتی جیسے 28 سے زائد سنگین مقدمات میں پولیس کو مطلوب بین الاضلاعی اشتہاری تھا۔طویل عرصے سے پنجاب کے کچے کے دریائی علاقوں میں روپوش تھا، جن پر ڈاکووں کو پناہ دینے کے الزامات بھی تھے۔پولیس کے مطابق 28 سالہ شاہد لونڈ شہریوں کو راغب کرنے کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال کر کے انہیں اپنا شکار بنایا کرتے تھے۔شاہد نے دیہی طرزِ زندگی کو اجاگر کرنے کے لیے ٹک ٹاک، فیس بک، یوٹیوب اور انسٹاگرام پر اپنے پیغامات سے ہزاروں لوگوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی، جن میں وہ ہاتھ میں بندوق تھامے نظر آتے تھے۔خیال رہے کہ رواں سال اگست میں ڈاکو شاہد لونڈ کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی، ان کی محکمہ داخلہ کے نمبر پر مبینہ کال کرتے ہوئے ویڈیو بنائی گئی جس میں اس نے گفتگو میں کہا تھاکہ میں شاہد لونڈ بات کررہا ہوں لسٹ میں میرا نام سب سے پہلے ہے، اصل جو ملزم ہیں ان کے نام نہیں ہیں، انعام کے اعلان والی فہرست درست نہیں اسے دوبارہ بنائیں۔جس کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں میں ہل چل مچ گئی۔وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کو جب اس بات کا علم ہوا تو انہوں نے ایک اجلاس میں آئی جی پولیس سے سخت ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے ان ڈاکوؤں کی فوری گرفتاری کا حکم دیا۔جس پر آئی جی پولیس پنجاب نے جنوبی پنجاب کے ایڈیشنل آئی جی کامران خان، آرپی او بہاول پور رائے بابر سعید اور آرپی او ڈیرہ غازی خان سجاد منج،ڈی پی او رحیم یار خان رضوان عمر گوندل اور ڈی پی او راجن پور دوست محمد کے ساتھ ہونیوالی ایک میٹنگ میں کچے کے علاقے میں سر کی قیمت والے ڈاکوؤں بالخصوص شاہد لونڈ کی زندہ یامردہ گرفتاری کا ٹاسک سونپا گیا اس اجلاس کے بعد آرپی او بہاول پور رائے بابر سعید اپنے ڈی پی او رحیم یار خان جبکہ آرپی او ڈیرہ غازی خان سجاد منج اپنے ڈی پی اوراجن پور کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے کہ سر کی قیمت والے اشتہاری ملزمان کی گرفتاری کو یقینی بنایا جائے۔شاہد لونڈ دریائے سندھ میں ایک جزیرے پر رہتے تھے جسے اکثر ’کچے‘ کا علاقہ کہا جاتا ہے۔ اس علاقے میں گنے کی اونچی اونچی فصلیں گھات لگانے والوں کے لیے کور فراہم کرتی ہیں، یہ خطہ دریائی گزرگاہوں کے بدلنے سے متاثر ہوتا ہے، جو اغوا سے لے کر ہائی ویز پر ڈکیتی اور سمگلنگ تک کے جرائم کو پیچیدہ بنا دیتا ہے۔پاکستان کے چار میں سے تین صوبوں کے سنگم پر واقع یہ مقام سینکڑوں ارکان پر مشتمل ڈاکوؤں کے گینگز کی محفوظ آماجگاہ سمجھا جاتا ہے۔یہاں ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔2016 میں بڑے پیمانے پر پولیس آپریشنز اور یہاں تک کہ فوج کی مداخلت بھی امن و امان نافذ کرنے میں ناکام رہی۔ رواں سال اگست میں اس علاقے میں پولیس کے قافلے پر راکٹ حملے میں 12 پولیس اہلکار مارے گئے تھے۔کچھ ڈاکو رومانوی ساتھی، کاروباری پارٹنر اور ٹریکٹروں یا کاروں کی سستی فروخت کا اشتہار دے کر متاثرین کو لالچ دینے کے لیے ’ہنی ٹریپس‘ بچھانے کے لیے انٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہوئے بھاری تاوان وصول کررہے تھے۔ شاہد لونڈ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر دو لاکھ سے زیادہ فالوورز تھے، جو پولیس کی پریشانی کا باعث بھی تھے۔ان حالات میں سر کی قیمت والے اشتہاری ملزمان بالخصوص شاہد لونڈ کو گرفتار کرنا آسان نہیں تھاجس پر آرپی او بہاول پور نے مؤثر حکمت عملی کے ذریعے شاہد لونڈ کے قریبی رشتے دار عمر لونڈ کے بھائی تک رسائی حاصل کی اس مشاورت میں آرپی او ڈیرہ غازی خان سجاد منج،ڈی پی او راجن پور دوست محمد اورڈی پی او رحیم یار خان کو بھی اعتماد میں لیا گیا۔عمر لونڈ کے بھائی نے آرپی او بہاول پور کی ہدایت پر عمر لونڈ کی ڈی ایس پی روجھان سید حسنین شاہ سے ملاقات کروائی گئی جس میں عمر لونڈ نے شاہد لونڈ کو اس شرط پر قتل کرنے کی حامی بھر لی کہ اگر اس کیخلاف رحیم یار خان اور راجن پور میں درج مقدمات خارج کردئیے جائیں اور اسے کچے سے پکے میں شفٹ ہونے میں نہ صرف مدد فراہم کی جائے بلکہ سکیورٹی بھی دی جائے۔ آرپی او بہاول پور اور آرپی او ڈیرہ غازی خان نے آپس کی مشاورت کے بعد ساری صورت حال سے اپنے ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب کامران خان کو اعتماد میں لینے کے بعد آئی جی پولیس کو بھی آگاہ کیا اور ملزم عمر لونڈ کے خاندان کو چپکے سے راجن پور کے ڈی پی او دوست محمد اور ڈی پی او رحیم یار خان رضوان عمر گوند ل کی مدد سے راجن پور کے علاقے میں پکے میں شفٹ کردیا۔ ملزم عمر لونڈ کو یقین دھانی کروادی گئی کہ اگر شاہد لونڈ کو قتل کرنے میں کامیاب ہو گیا تو پولیس اسے وہاں سے نکلنے میں مدد فراہم کرنے کے ساتھ اس کے مقدمات بھی ختم کردے گی۔ پولیس اور ملزم عمر لونڈ نے ان تمام معاملات کی شاہد لونڈ کو خبر نہ ہونے دی۔عمر لونڈ نے اپنا ٹارگٹ حاصل کرنے کے لیے کچے کے علاقے چک بیلے شاہ میں شاہد لونڈ پر اپنی ایک رشتے دار خاتون سے مبینہ ناجائز کے الزام میں ایک پنچایت کا اہتمام کیا۔دوران پنچایت شاہد لونڈ اور ملزم عمر لونڈ کے درمیان تو تکرار ہوئی اور ملزم عمر لونڈ طے شدہ حکمت عملی کے پیش نظر کلاشنکوف کا برسٹ مار کر اسے قتل کردیا اور موقع سے فرار ہو گیا۔ رحیم یار خان اور راجن پور پولیس کی بھاری نفری نے اسے حصار کی صورت میں وہاں سے نکالا اور وہ اپنی کلاشنکوف سمیت ڈی ایس پی روجھان سید حسنین شاہ کے پاس پہنچ گیا۔یوں شاہد لونڈ اپنے انجام کو پہنچا راجن پور پولیس نے شاہد لونڈ کا مقدمہ پولیس مقابلے سمیت دیگر سنگین دفعات کے تحت شاہد لونڈ اس کے دوبھائیوں شاہ دین اور خالد سمیت دس بارہ نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کرلیا ہے۔رحیم یارخان پولیس نے اسی طرح کی ایک کارروائی کے دوران جانو گینگ کے سربراہ کو مروانے کی حکمت عملی بھی مرتب کی تھی اور اس کام کے لیے ان کی ٹیم کے ساتھی عثمان چانڈیو کواستعمال کرنے کی کوشش میں ملزمان نے اسے بھی ماردیا تھا لیکن اس دفعہ آرپی اوبہاول پور اور ڈی پی او راجن پور کے کردار کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔اب توجہ طلب بات یہ ہے کہ ایک کروڑ روپے انعام کس کو ملے گا۔ڈی پی او راجن پور کے مطابق اس کے حقدار ملزم عمر لونڈ ہیں۔لیکن اس کا فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے۔