ناچاہتے ہوئے بھی میں عظیم عمارتوں کے سحر میں گم ہوگیا، ذہن میں ایک بار پھر فرعونوں کا دور فلم کی طرح چلنے لگا، جہاں ہر طرف زندگی ہی زندگی ہوتی تھی

 ناچاہتے ہوئے بھی میں عظیم عمارتوں کے سحر میں گم ہوگیا، ذہن میں ایک بار پھر ...
 ناچاہتے ہوئے بھی میں عظیم عمارتوں کے سحر میں گم ہوگیا، ذہن میں ایک بار پھر فرعونوں کا دور فلم کی طرح چلنے لگا، جہاں ہر طرف زندگی ہی زندگی ہوتی تھی

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:58
وہاں پتھروں کے دو اونچے اور چوکور چبوترے والے مخروطی ستون بھی کھڑے تھے جیساکہ قاہرہ کے مضافات میں دیکھے تھے۔ ان کی اوسط لمبائی ساٹھ ستر فٹ ہوگی اور وزن ڈیڑھ سو ٹن سے بھی زیادہ ہوگا۔ یہ ایک ہی چٹان کو تراش کر بنائے گئے تھے اور ان کی دیواروں پربھی اسی قدیم زبان میں کچھ تاریخی حوالے لکھے ہوئے تھے اور دیوتاؤں، جانوروں اور پرندوں کی مختلف اشکال بنی ہوئی تھیں۔یہ یقیناً دیکھے جانے کے قابل تھے۔
احمد بڑے ذوق و شوق سے مجھے ساتھ لے کر ان مندروں میں ا ِدھر سے اُدھر بھاگا پھر رہا تھا۔ وہ کسی بھی دلچسپ مقام پر رک کر وہاں اپنا لیکچر شروع کر دیتا تھا۔ ناچاہتے ہوئے بھی میں آہستہ آہستہ ان عظیم عمارتوں کے سحر میں گم ہوگیا اور میرے ذہن میں ایک بار پھر فرعونوں کا دور ایک فلم کی طرح چلنے لگا۔ جہاں ہر طرف زندگی ہی زندگی ہوتی تھی اور وہ اپنے روایتی طور طریقوں سے ایک شاندار ماحول میں رہ رہے تھے۔ کسی بادشاہ یا ملکہ کا رتھ گزرتا ہوگا تو ہر طرف ہٹو بچو کی صدائیں گونج جاتی ہونگی۔
 اس سے پہلے کہ میں اس تاریخ میں مزید غرق ہو جاتا، احمد نے میرے کندھے پر آہستگی سے ہاتھ رکھا اور مجھے ایک بڑے نسوانی مجسمے کے سامنے لے آیا جو مصر کی مشہور اور خوبصورت ملکہ نفرتیتی کا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اس کے شوہر اور ایک اور بڑے فرعون اخناتن کا مجسمہ بھی تھا۔ دونوں ساتھ ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اور شاہانہ جاہ و جلال ان کے مجسموں سے بھی ٹپک رہا تھا۔ ان ہی کا بیٹا وہ مشہور زمانہ جواں مرگ بادشاہ توتنخامون (King Tut)  تھا۔ جس کا کچھ ذکر تو قاہرہ کے عجائب گھر میں پڑے اس کے سنہری تابوت کے سلسلے میں آچکا ہے اور ابھی بڑاکچھ آگے چل کر آنے والا ہے۔
آہستہ آہستہ گھومتیپھرتے ایک بغلی دروازے سے اب ہم مندر کے احاطے سے باہر آگئے تھے۔ یہاں مندر کی بیرونی دیوار کے ساتھ ہی تھوڑے نشیب میں ایک بہت بڑا اور قدیم پانی کا تالاب تھا۔ جو اب بھی پانی سے بھرا ہوا تھا۔ اس کے کنارے کھڑے ہوئے کھجوروں کے تین درختوں کا عکس پانی میں بہت خوبصورت نظر آ رہا تھا۔ یہ فرعونوں کا بڑا ہی مقدس تالاب تھا جس کے کناروں پر نہ صرف عبادت ہوتی تھی بلکہ یہ جگہ معاشرتی سرگرمیوں کیلئے بھی استعمال ہوتی تھی اور تمام بڑی شاہی تقاریب بھی اسی کے کنارے منعقد ہوتی تھیں کسی خاص جشن کے موقع پر یہاں روشنیوں اور رنگ و نور کا ایک سیلاب امڈ آتا تھا اور بہت خوبصورتی سے سجائے گئے چھوٹے چھوٹے بجرے اور کشتیاں اس میں اِدھر سے اُدھر تیرتی پھرتی تھیں، جن پر جاری  موسیقی اور  رقص و سرود کی محفلیں ماحول کو اور بھی خوبصورت بنا دیتی تھیں۔ اس کے علاوہ فرعونوں کے شہنشاہی راج ہنس بھی ہر طرف اٹھکیلیاں کرتے نظر آتے۔
اسی تالاب کے ایک کونے میں واقع ایک عمارت میں شاہی خاندان کے افراد کو حنوط کرکے ان کی ممیاں بنائی جاتی تھیں۔ تالاب اور آس پاس کی عمارتوں کی عظمت سے اندازہ ہو رہا تھا کہ شاہی خاندان کی تقریبات اور دیگر سرگرمیوں کا محور یہی تالاب تھا۔ میں نے بھی یونہی ایک چھوٹی سی کنکر اٹھا کر تالاب میں پھینکی، ہلکی سی آواز آئی اور پھر وہ آہستہ آہستہ گہرے پانی میں ڈوبتی چلی گئی۔میں نے یہ کیوں کیا،خود مجھے بھی علم نہیں۔(جاری ہے) 
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں 

مزید :

ادب وثقافت -