عظمت شان صحابہ ؓ
صحابہؓ کو ستاروں سے نسبت کیوں دی گئی ہے اور اللہ نے یہ کیوں کہا ہے کہ میں ان سے راضی اور وہ مجھ سے راضی۔۔۔۔۔کیا یہ اتفاق ہو سکتا ہے کہ صحابہؓ جیسے عظیم لوگ اتفایہ نبوت محمدﷺ کے دور میں پیدا ہوئے ہوں بالکل بھی نہیں، ایک ایک صحابی کو اللہ نے چن کر بھیجا اور اس کا کردار مخصوص کیا،یہ نبیوں کے بعد اللہ کے مخصوص ترین لوگ تھے جنہوں نبیوں کے سردار اور اللہ کے محبوب ہمارے آقا صل اللہ علیہ وسلم کا ساتھی بننا تھا اور ان کو ایسا احترام و عقیدت کا بلند درجہ ملنا تھا جیسا کسی اور انسان کو نصیب نہیں ہونا تھا
” اے نبی ﷺ فرما دیجئے کہ تعریفیں سب اللہ کے لئے ہیں اور سلام ہے ان بندوں پر جن کو اللہ نے منتخب فرمایا۔“ ۔۔۔۔۔یہ اللہ پاک کا خاص انتخاب تھے، اپنے پیارے محبوب کو ایک عظیم ٹیم منتخب کرکے عطاکی جن کا ایمان، دیانت،شرافت،صداقت،شجاعت اور وفاداری بے مثال تھی،ایک ایک نام اللہ کا چنا ہوا تھا،ایک ایک کردار اللہ کا لکھا ہوا تھا،ایک ایک کا کارنامہ درج شدہ تھا۔ان کی روحیں، ان کے دل اور ان کی سوچیں سب بہت ہی خاص بنی ہوئی تھیں۔ اس لئے کسی ایک صحابی ؓسے عقیدت میں کسی دوسرے صحابیؓ کو کم تر کرنے کی کوشش نہ کریں،یہ اللہ کی اپنے محبوب ﷺکو عطا کردہ دنیا کے بہترین انسانوں کی بے مثال ٹیم تھی یہ ممکن نہیں تھا کہ کوئئی عقیدت ومحبت میں اور اخلاص و وفاداری میں دوسرے سے پیچھے تھا جسے جتنا کردار عطا کیا گیا تھا اس نے وہ کردار اس خوبی سے نبھایا کہ ہر کردار مثالی ہوگیا اوران کا کردار قابل رشک ٹھہرا، ایسے کردار جن کے لئے خود اللہ پاک کا لکھا سکرپٹ نبھانا تھا اور اس سکرپٹ کو کس نے کس طرح کردار ادا کرنا ہے اس کا تعین بھی اللہ پاک نے ہی کیا تھا اور ان کرداروں نے اللہ نے جیسا چاہا ویسا حق ادا کردیا اسی لئے تو اللہ پاک نے اپنے عظیم کلام پاک میں قیامت تک انہیں اس طرح سراہا کہ '' اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی''
جب اللہ پاک راضی ہے تو پھر ہم تو پابند ہیں کہ جو اس کو پسند وہ ہمارا ایمان،جو اس کی رضا ہم اس پر راضی۔۔۔۔: کیا ہم یہ گمان بھی کرسکتے ہیں کہ صحابہؓ نبی پاکﷺ کے دور میں اتفاقیہ پیدا ہوئے ہوں گے اور ان کی ٹیم کا حصہ بن گئے، اللہ کے محبوب محمد صل اللہ علیہ وسلم کہ جن کے لئے کائنات تشکیل دی گئیء اور جنہیں اپنے تمام نبیوں کا سردار اور تمام انسانوں میں سب سے اعلیٰ رتبہ عطا کرنا طے کیا جا چکا تھا اور پھر ہر چیز اس دنیا کی تخلیق کی گئیء تو کیا افضل البشر کائنات کے سردار کو چننے کے بعد ان کی ٹیم کا ایک ایک ممبر جسے صحابی ؓکا عظیم المرتب درجہ عطا کیا جانا تھا وہ ممکن ہی نہیں عہد رسالتﷺ میں اتفاقیہ ہوں، یہ رب کائنات کا عظیم انتخاب تھے،اس ٹیم کی تشکیل کسی اور نے نہیں خود اللہ پاک نے اپنے ہیرو ہم سب کے آقا رحمت للعالمین کے لئے کررکھی تھی جو ایمان کے سب سے اوپری درجہ پر تھے: جب اللہ پاک نے انسان کو بنانے کا ارادہ کیا تھا اور اس دنیا کا ایک مقصد اور یہاں حیات انسان کا سوچا تھا تو اس میں حضرت محمدصل اللہ علیہ وسلم کو اس دوجہاں کا اعلی و ارفعی انسان بنانے کا فیصلہ کیا تو ان کے ساتھی کون کون ہوں گے اور وہ کون کون سے دنیا کے خوش نصیب انسان ہوں گے جو ان پر ایمان لاکر ایمان کی حالت میں انہیں دیکھیں گے اور جان فدا کرنے والے ساتھی بنیں گے کیا یہ ممکن ہے کہ ان کا کردار منتخب نہ کردیا ہو،کون کس کے گھر پہدا ہوگا اور کس گھرانے سے نبوت کا اقرار کرکے پرچم محمدی ﷺکے نیچے کھڑا ہوگا اور جنہیں اپنے تمام نبیوں کا سردار اور تمام انسانوں میں سب سے اعلیٰ رتبہ عطا کرنا طے کیا جا چکا تھا اور پھر ہر چیز اس دنیا کی تخلیق کی گء تو کیا افضل البشر کائنات کے سردار کو چننے کے بعد ان کی ٹیم کا ایک ایک ممبر جسے صحابی کا عظیم المرتب درجہ عطا کیا جانا تھا وہ ممکن ہی نہیں اتفاقیہ ہوں، یہ رب کائنات کا عظیم انتخاب تھے،اس ٹیم کی تشکیل کسی اور نے نہیں خود اللہ پاک نے اپنے ہیرو ہم سب کے آقا رحمت للعالمین کے لئے منتخب کررکھی تھی جو ایمان کے سب سے اوپری درجہ پر تھے۔
میرا تو ایمان ہے کہ نبی پاک کی زندگی کا ایک ایک لمحہ،ان کے منہ سے ادا ہونے والا ہر لفظ، ان کا ایک ایک عمل،ان کا ایک ایک قدم،انہوں نے کس سے ہمکلام ہونا ہے، ان پر کس نے ایمان لانا ہے حتیٰ کہ انہوں نے کس درخت کی چھاؤں میں ٹھہر کر اسے شرف بخشنا ہے اور اس درخت کے کس کس پتے نے ان کے اوپر چھاؤں کا حصہ بننا ہے، کس ہوا کے جھونکے نے ان کے جسم معطر کو چھونا ہے ان سب کی خوش نصیبی لکھی جاچکی تھی،وہ کسی درخت کے نیچے اتفایہ بیٹھے تھے نہ کسی بکری کا دودھ اتفاقیہ پیا نہ کسی کھجور کے درخت کا پھل اتفاقیہ کھایا،یہاں تک کہ زمین کسی کس ٹکڑے کی کتنی خاک کے کن ذروں کو یہ شرف حاصل ہونا ہے کہ وہ نعلین مبارک کے تلوؤں کو چھوسکیں گے یہ سب اللہ کا عطا کردہ اور منتخب شدہ تھا ،یہ سب اتفاقیہ نہیں تھا،خاک کے ذروں کی خوش بختی تھی اور وہ بھی ہم گنہگاروں سے زیادہ عظمت والے تھے۔
دنیا میں جب بھی کوئی ٹیم جیتتی ہے تو تمام کھلاڑی ہی جیتتے ہیں اور ان کو فتح کے چبوترے پر ایک ساتھ ہی کھڑا کرکے میڈل عطا کئے جاتے ہیں،کپتان کی ٹیم کا ہر کھلاڑی فاتح ہوتا اور چیمپئین ٹیم کا حصہ ہوتا ہے۔۔۔۔کون سنٹر فارورڈ کھیلا،کون ہاف بیک اور کون فل بیک اور کون گول کیپر یہ سب ٹیم ورک ہوتا ہے اور ٹیم کا انتخاب سلیکٹر کرتا ہے۔۔۔۔اس لئے اس ثیم کے کیا کہنے جس کی سلیکشن اللہ پاک نے کی،جس کی کپتانی حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کی اور وہ ٹیم اللہ کے برگزیدہ بندوں کی ٹیم کہلائی جس پر اللہ نے اپنی پسندیدگی کی مہر '' اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی“ کہہ کر لگادی۔۔۔۔ذرا غور کریں اللہ نے ڈائریکٹ کہا ہے ا میں ان سے راضی اور وہ مجھ سے راضی مطلب سو فیصد حق بندگی ادا کردیا۔
نبی کی تو یہ شان ہے کہ نبی کا خواب بھی سچا ہوتا ہے نبی کا خواب بھی عام انسان کی طرح اتفاقیہ نہیں ہوتا تو پھر یہ اتفاقیہ کیسے ہوسکتے ہیں۔محبوب خدا ہمارے آقاﷺ چاند سے بھی حسین تھے تو ان کے ستارے بھی سپر سٹارز سے۔۔۔ایسے سپر سٹارز کہ غلامیء محمدﷺ کا اعزاز پانے کے بعد کائنات کے سب سے سپر سٹارز بن گئے۔