کچھ پاک۔ بھارت جنگ 1971ء کے بارے میں (2)
کسی جدید جنگ کے بارے میں اردو زبان میں لکھنا کارے دارد ہے۔ ہمارے بیشتر لکھاریوں نے اس موضوع پر لکھنا لکھانا Tabooسمجھ رکھا ہے۔ میجر جنرل حکیم ارشد قریشی مرحوم اس موضوع پر اکثر دل گرفتہ رہا کرتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملٹری موضوعات پر ایسی تحریریں بہت کم دستیاب ہیں جو انگریزی زبان یا دوسری جدید زبانوں میں پائی جاتی ہیں۔
ان کی کتاب کے پہلے باب کا ترجمہ جب میں نے ان کے سامنے رکھا تو تادیر سر ہلاتے رہے اور داد دیتے رہے۔ اللہ کریم ان کی مغفرت فرمائے، آیئے ان کے بابِ اول کا اگلاحصہ دیکھتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں:
آج سے ٹھیک بارہ برس پہلے اس روز پاکستانی چیک پوسٹ بڑے خوبصورت انداز میں سجائی گئی تھی۔ رنگ برنگے جھنڈے، جھنڈیاں، اورشامیانے تھے اور.......ملٹری بینڈ،وطن کے محبت بھرے گیتوں کی دھنیں فضا میں بکھیر رہا تھا۔ ہمارے استقبال کے لئے آنے والوں کی ایک لمبی قطار تھی جس میں ایک سینئر ملٹری کمانڈر، سرکاری اہلکار اور ریڈکراس کے کچھ لوگ شامل تھے۔ ان سب کے ہاتھوں میں پھولوں کے ہار پکڑے ہوئے تھے جو یہ ہمارے گلوں میں ڈالنے کے لئے لائے تھے…… یہ سارا منظر ایک فاتح فوج کے داخلے سے مشابہ تھا۔ گویا ایک فاتح فوج روم میں داخل ہو رہی تھی....... ہالی وڈ سٹائل میں!
ہم سب، ان نوے ہزار جنگی قیدیوں کا حصہ تھے جن میں پینتالیس ہزار فوجی تھے۔ ان میں ایسٹ پاکستان سول آرمڈ فورسز (EPCAF) کی ایک بہت بڑی تعداد بھی شامل تھی جس نے 16 دسمبر 1971ء کو بھارتی ”فاتحین“ کے سامنے ہتھیار ڈالے تھے۔ آدھا ملک گنوا دینے کے بعد اور سرنڈر کو شہادت پر ترجیح دینے کے بعد اب ہمارا استقبال قومی ہیروز کی طرح کیا جا رہا تھا!....... پس منظر میں شاید اسی لئے قومی دھنیں بجائی جا رہی تھیں۔ یہ منظر شرمندہ اور افسردہ کر دینے والا تھا۔ شائد ایک سادہ، رنگینیوں سے مبرا اورحقیقت حال سے ہم آہنگ استقبالیہ اس موقع کے لئے زیادہ مناسب ہوتا جو ہماری واپسی کو باوقار بناتا یا شائد وہ سلوک مناسب ترین ہوتا جو سلطان شہاب الدین غوری نے پرتھوی راج کے ہاتھوں شکست کھانے کے بعد اپنی فوج کے ساتھ کیا تھا۔ سلطان اور اس کی سپاہ نے قسم کھائی تھی کہ وہ شکست کا بدلہ لینے تک زندگی کی تمام لذتوں سے پرہیز کریں گے۔
اس روز میرا جی چاہ رہا تھا کہ جتنا جلد ہو سکے میں یہاں سے بھاگ کر کسی خاموش جگہ نکل جاؤں۔ اپنے گھر چلا جاؤں اور جس جانکاہ تجربے سے میں بحیثیت ایک فرد اور ہم بحیثیت ایک قوم گزرے تھے اس پر غور و فکر کر سکوں۔ اسے اپنے ذہن میں جذب کر سکوں اور اس کے اسباب و عوامل تک پہنچ جاؤں کہ یہ سانحہ ء عظیم کیسے پیش آیا اور1971ء پاکستان کیلئے آزمائشوں کا سال کیسے بن گیا تھا؟ مجھے ”دو شہروں کی ایک داستان“ (A Tale of Two Cities) نامی انگریزی کتاب کا ایک فقرہ یاد آنے لگا: ”یہ بہترین ایام تھے اور یہی بدترین ایام بھی تھے“…… 1971ء نے ہماری قوم کی اجتماعی اور ہماری انفرادی خوبیوں اور خامیوں کو نمایاں کر دیا تھا!
اگست 1970ء میں، بطور لیفٹیننٹ کرنل پروموٹ ہونے پر مجھے حکم دیا گیا تھا کہ 26 فرنٹیئر فورس رجمنٹ کی کمان سنبھالوں جو سیدپور ضلع رنگ پور(مشرقی پاکستان) میں مقیم تھی۔ میں 30 اگست کو ڈھاکہ پہنچا جہاں میرے ایک دوست کرنل شیخ نصر اللہ نے میرا استقبال کیا۔ نصر اللہ ہیڈ کوارٹرز ایسٹرن کمانڈ میں تعینات تھے۔ میں رات ڈھاکہ میں ٹھہرا۔ میرے دوست نے مجھے جاری صورت حال سے مطلع کیا جو میرے لئے باعثِ اضطراب تھی۔ صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ تمام وردی پوش حضرات بغیر اسکارٹ (مسلح گارڈ) کے کنٹونمنٹ سے باہر نہیں جا سکتے تھے۔ سارا ماحول نفرتوں، کدورتوں اور ایک دوسرے پر عدم اعتماد کی فضا میں لپٹا ہوا تھا۔ تمام غیر بنگالی ناپسندیدگی بلکہ نفرت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔
اگلے روز میں ریل گاڑی پر سوار رنگ پور جا رہا تھا۔ میرے ساتھ کوئی اسکارٹ نہیں تھا۔ ہر طرف مخلوق خدا کا ایک وسیع سمندر تھا۔ نیم برہنہ، ننگ دھڑنگ لوگ جو اپنے گردو پیش سے بے نیاز اپنے اپنے کاموں میں مگن تھے۔ افلاس اور غربت ان کی نس نس سے ٹپک رہی تھی، ان کی حالتِ زار واقعی قابل رحم تھی۔ انہوں نے انگریز سے توآزادی حاصل کر لی تھی لیکن برطانوی استعمار سے یہ آزادی ایک واہمہ ثابت ہوئی تھی جس نے ان لوگوں کو کچھ بھی نہ دیا تھا……دفعتاً میرے ذہن میں فیض کی ایک نظم ابھری:
یہ گلیوں کے آوارہ، بیکار کتے
کہ بخشا گیا جن کو ذوقِ گدائی
زمانے کی پھٹکار سرمایہ ان کا
جہاں بھر کی دھتکار ان کی کمائی
یہ مظلوم و مقہور گر سر اٹھائیں
تو انسان سب سر کشی بھول جائیں
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں
یہ آقاؤں کی ہڈیاں تک چبا لیں
کوئی ان کو احساس ذلت دلا دے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دم ہلا دے
مجھ پر کپکپاہٹ سی طاری ہونے لگی۔ میں ایک دم شدت احساس سے تلملا اٹھا……باہر موسلا دھار بارش ہونے لگی۔
ڈھاکہ سے رنگ پور کے سفر میں کوئی خاص قابل ذکر واقعہ نہ ہوا۔ گاڑی میں میمن سنگھ ایگری کلچر یونیورسٹی کا ایک بنگالی پروفیسر میرا ہمسفر تھا۔ ہم نے صوبے میں جاری سیاسی صورت حال پر گفتگو شروع کر دی۔ اس کا خیال تھا کہ اس سال کے آخر میں جو عام انتخابات ہونے والے ہیں ان میں ”شالے، پنجابیوں سے نفرت“ کے نعرے پر ووٹ مانگے جائیں گے اور یہی نعرہ ووٹ مانگنے والوں کی فتح کا ضامن بنے گا۔ میں نے اسے مولانا بھاشانی کا وہ انٹرویو یاد دلایا جس میں ان کا استدلال تھا کہ مشرقی پاکستان ایک ”ادھورا علاقہ“ ہے۔ انہوں نے اس انٹرویو میں کہا تھا کہ میں نے مسٹر جناح کو مشورہ دیا تھا کہ وہ فیڈریشن آف پاکستان میں ایسٹ بنگال کے ساتھ آسام کا بھی مطالبہ کریں تاکہ بنگال کی اقتصادی محرومی کا مداوا کیا جا سکے۔ ان کا خیال تھا کہ صرف ایسٹ بنگال کی پاکستان میں شمولیت کا مطلب یہ ہو گا کہ لاکھوں کروڑوں بنگالیوں کا پیٹ بھرنا پڑے گا اور پاکستان شاید یہ بوجھ برداشت نہ کر سکے۔ بیسویں صدی کے آغاز میں اور پھر 1943ء میں یہاں جو قحط پڑے اور جن میں لاکھوں انسان لقمہئ اجل بن گئے، وہ اس حقیقت کے غماز تھے کہ یہ علاقہ اقتصادی عدم توازن کا شکار ہے۔ یہاں کی تاریخ یہ دہراتی رہی ہے کہ اس سرزمین کے باسیوں نے اپنی ابتلاؤں اور مصیبتوں کا سارا ملبہ ”باہر والوں“ پر ڈالا ہے اور باہر والوں ہی کو ہمیشہ اپنی مشکلات کا ذمہ دار گردانتے رہے ہیں۔ اب پاکستان ایک ولن یعنی نفرت کے ہدف کے روپ میں پیش کیا جا رہا تھا۔ گویا ہم غیر بنگالی لوگ نفرت کی علامت بن چکے تھے!
ریل کی پٹڑی کے دونوں جانب حد نگاہ تک پھیلے ہوئے سرسبز و شاداب کھیت اس بات کے شاہد تھے کہ یہاں کی زمین بہت زرخیز ہے۔ جب بھی کسی مسافر کا دل کسی جگہ اترنے کو چاہتا، وہ ریل کی ہنگامی زنجیر کھینچتا، ٹرین رک جاتی اور وہ وہاں اتر جاتا۔ کسی کو نہ ٹکٹ کی پرواہ تھی اور نہ کسی ریلوے کے ضابطے یا قاعدے قانون کی۔ باہر دھان کے کھیتوں میں بظاہر جو حسن ترتیب نظر آتا تھاوہ لوگوں کے چلن سے کوئی مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ لیکن یہ تضاد اتنا بے محل بھی نہ تھا…… شائد دھان کے ان کھیتوں میں میرے بے تحاشا اور بے قابو نشوونما پانے والے رنگوں کی دھماچوکڑی میں ایک خاص بے ترتیبی بھی واضح طور پر نظر آ رہی تھی۔
(جاری ہے)