دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ ستائیسویں قسط
نظام الدولہ
تمام افسر میری مردانہ وجاہت اور شائستگی سے بڑے متاثر تھے ۔کچھ خواتین تو میرے ساتھ فرینک ہوگئیں اور فلرٹ کرنے کی کوشش بھی کرتیں ۔وہ مجھے چیکو کہہ کر پکارتیں۔ پہلے تو مجھے علم نہیں تھا اس کا مطلب کیا ہے۔ بعدازاں علم ہوا کہ ہسپانوی زبان میں چیکو کا مطلب ہے نوجوان لڑکا۔۔۔میری بیوی سائرہ بھی وفور محبت سے کبھی کبھار چیکو کہا کرتی ہے۔خاص طور پر جب وہ فلرٹ کرنا چاہ رہی ہوتی ہے۔
کچھ ایسے افسران بھی تھے جو مجھے یوسف خان کے نام سے پکارتے۔ ان کا لہجہ برطانوی ہوتا تھا اور خاص انگریزوں کے انداز میں یوسف خان کہتے۔ انہیں یہ حیرت ہوتی تھی کہ میں ان کے ساتھ اتنی شستہ اور رواں انگریزی کیسے بول لیتا ہوں۔ میرا لہجہ اور انداز انگریزوں جیسا ہوتا تھا۔ انہیں میرا لباس اور نفاست بڑی پسند تھی۔ شروع سے ہی میں اچھے ٹیلر سے کپڑے سلواتا اور تراش خراش کا بڑا خیال رکھتاتھا۔ اچھا کپڑا اور اچھی سلائی شرٹ کا تاثر برقرار رکھتے ہیں۔ میں پتلون کے ساتھ پورے بازووں والی شرٹ پہنتا جس سے مجھے تسکین ملتی تھی۔
چھبیسویں قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
افسروں اور ٹومیوں کے ساتھ میرے دوستانہ تعلقات قائم ہوئے تو میں نے اندازہ لگایا کہ ٹومی افسر ملاوٹ والی بیئر پیتے ہیں اور انہیں اس کا مطلق احساس نہیں۔ کلب میں نہانے کے لیے بہت سے غسل خانے تھے۔ ٹومی اپنی فطرت میں مادر زاد دکھائی دیتے۔ وہ غسل خانوں میں یوں نہاتے کہ ایک دوسرے کے سامنے کپڑے اتار دیتے اور دروازہ بند کئے بغیر غسل خانے میں شاور لے رہے ہوتے۔ مجھے بڑی شرم محسوس ہوتی۔
ایک گرم دن کی بات ہے۔ مجھے ایک ٹومی افسر نے دبوچ لیا اور غسل کرنے کی دعوت دی۔ اس نے اصرار کرتے ہوئے میرے کپڑے بھی نوچ ڈالے کہ مجھے کپڑے اتار کر نہانا چاہئے میں بہت پریشان ہوا کہ کیا کروں۔ میں کبھی کسی کے سامنے عریاں نہیں ہوا تھا۔ میرے سارے بدن پر لمبے لمبے سیاہ گھنے بال تھے۔ ان پرپانی پڑتا تو وہ ایک طرف ہو جاتے اور عجیب سا لگتا۔ میں اس افسر کی بات نہیں مان سکتا تھا۔ اسی وجہ سے تو میں فل بازو والی شرٹ پہنا کرتا تھا۔ آستینوں کی وجہ سے بازوؤں کے بال دکھائی نہیں دیتے تھے۔
لطف کی بات سن لیجئے۔ گھنے بالوں کی وجہ سے مچھروں کو بھی بڑی زحمت ہوتی تھی۔ وہ میرے سینے، بازوں اور ٹانگوں کے بالوں کے گچھے میں پھنس جاتے اور بے چارگی سے بھنبھناتے رہتے۔ میرا جسم تو ان کے لیے گھنے افریقن جنگل جیسا تھا لہٰذا جہاں ان کے پھندے لگے ہوتے لہٰذا وہ مجھ سے دور ہی رہتے۔ مجھے مچھروں کی بے بسی پر ترس آتا اور میں انہیں بالوں میں الجھنے سے بچانے کے لیے پہلے ہی پرے دھکیل دیتا تھا۔ ان وجوہات کی وجہ سے میں تالاب میں نہیں اترتا تھا۔
برطانوی فوج کے افسر مہذب لوگ تھے لیکن رکھ رکھاؤ کے عادی تھے۔ ایک دن کا واقعہ ہے۔ کنٹین کا شیف غیر حاضر تھا۔ منیجر نے مجھ سے پوچھا کہ کیا میں ہلکا پھلکا سا اچھا پکوان تیار کر سکتا ہوں۔ اس نے بتایا کہ میجر جنرل چند مہمانوں کے ساتھ آرہے ہیں۔ میں نے بتایا کہ سینڈوچ اچھے طریقے سے بنا سکتا ہوں۔ وہ خوش ہوا اور خبردار کیا کہ سینڈوچ تازہ ڈبل روٹی سے تیار کرنا اور ہر شے تازہ اور معیاری ڈالنا۔ میں اس کی بات سن کر اندر ہی اندر ہنسا کہ معیاری اشیاء کہاں سے ڈالوں۔ تم خود کمتر چیزیں مہنگے داموں خریدتے ہو۔ تاہم میں نے منیجر کو تسلی دی کہ وہ ری لیکس رہے۔ میں تازہ اور معیاری اشیاء سے سینڈوچ بناؤں گا۔ خوش قسمتی سے سینڈوچ انتہائی معیاری اور لذیذ بنے۔ میجر جنرل اور ان کے مہمانوں نے بہت تعریف کی۔ منیجر اس بات پر کھل اٹھا اور مجھے شاباش دی۔ اس موقع پر مجھے ایک خیال آیا اور منیجرسے کہا کہ اگر وہ مجھے اجازت دلوا دیں تو شام کے وقت کنٹین میں سینڈوچ کا کاؤنٹر بنا دیا جائے تاکہ افسران اور ان کی فیملی کو معیار ی اور لذیذ سینڈوچ کھانے کو ملیں تو وہ ان سے خوش ہوں گے۔ منیجر چونکہ جانتا تھا کہ یوسف خان کو اس کے کرتوتوں کا علم ہے اور ایسے بھی وہ اس روز خوش تھا اس نے حکام سے بات کر کے مجھے یہ اجازت دلوا دی۔ پھر کیا تھا۔ سینڈوچ کی مشہوری اور معیار نے سب کو گرویدہ کر لیا اور شام ہوتے ہی سینڈوچ ختم ہو جاتے۔ دیر سے آنے والے کف افسوس ملتے رہے کہ وہ آج مزے دار سینڈوچ کھانے سے محروم رہ گئے ہیں لہٰذا انہوں نے فرمائش کی کہ کل سے ان کی تعداد زیادہ کر لیں۔ ایک ہفتے میں ہی سارے افسران میرے ذائقہ دار سینڈوچ اور پھلوں اور لیمن جوس سے سجے سنوارے میز سے بہت خوش ہوگئے۔ ان کا رویہ دوستانہ ہوگیا۔ وہ مجھ سے میرے اہل خانہ کے متعلق پوچھتے اور حیران ہوتے کہ تمہاری اماں اتنے بچے پیدا کرنے کے باوجود زندہ کیسے ہیں؟ جب میرا سینڈوچ کا کاروبار کامیاب ہوگیا تو مجھے اماں کی یاد ستانے لگی۔ میں نے بھائی ایوب کو ایک تار بھیجا اور اس میں لکھا’’میں ٹھیک ٹھاک ہوں اور پونہ میں برطانوی فوج کی کنٹین میں کام کر رہا ہوں۔‘‘
اگلے ہی ہفتے ایوب صاحب مجھے اطلاع دیئے بغیر آگئے۔ وہ میرے لئے اماں کے ہاتھ کا بنا حلوہ لائے۔ اس کی مہک سونگھتے ہی میرے دل میں اداسی اور ہچکی آگئی۔ اماں یہ جان کر بہت پر سکون ہوگئی تھیں کہ میں خیریت سے ہوں۔ ایوب صاحب اپنے ساتھ کچھ رقم بھی لائے تھے جو اماں نے انہیں دی تھی۔ اماں نے کفایت شعاری سے یہ رقم محفوظ کر لی تھی۔ ایوب صاحب کو دیکھ کر مجھے بے حد سکون ملا اور میری آنکھیں بھر آئیں۔ وہ بھی اپنے آنسو نہ سنبھال سکا اور ہم دونوں بھائی ایک انجانے دکھ کے کرب سے گلے لگ کر آنسو بہاتے رہے۔
میں ایوب صاحب کو پارک میں لیکر بیٹھ گیا۔ سورج غروب ہو رہا تھا اور میرے اندر نیا اجالا پھوٹ رہا تھا۔ بھائی سے میں نے دل کی تمام باتیں کہہ دیں کہ میں کیونکر گھر سے بھاگا۔ دراصل آغا جان کا معاشی بوجھ کم کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ ایوب میاں حساس اور سمجھدار بھائی تھے۔ میں نے کہا کہ مجھے پیسوں کی ضرورت نہیں بلکہ میں خود بہت جلد اماں اور آغا جان کو رقم بھیجوں گا۔ اگلی صبح وہ بمبئی واپس چلا گیا۔ میں ریلوے اسٹیشن پر اسے چھوڑنے کے بعد واپس آگیا۔ اب میں بہت مطمئن اور سرشار تھا لیکن جیسے ہی کلب پہنچا وہاں میرے لیے ایک سرپرائز منتظر تھا۔ یہ کارپورل مارلو تھا میں اسے ڈیولالی سے جانتا تھا۔ اس کے ہاتھ میں جام تھا اور بار پر کھڑا تھا۔ حسب معمول وہ انتہائی خوفناک دکھائی دے رہا تھا۔(جاری ہے)