بحرہند کی ملٹرائزیشن
اگست 1945ء تک ماسوائے امریکہ، کسی بھی اور ملک کے پاس وہ ہتھیار نہیں تھا جس کی تباہی کے سکیل کے بارے میں کسی نے تصور تک بھی کیا ہو۔ جاپان کے دو شہروں پر 6 اور 9اگست 1945ء کو جو دو بم پھینکے گئے ان کو ایٹم بم کا نام دیا گیا ۔
ایک حقیر سے ایٹم یعنی ذرے سے پیدا ہونے والے اس تباہ کن ملٹری ویپن کا کسی کو سامان گمان بھی نہ تھا۔ چنانچہ 6اگست کو جب یہ خبر آئی کہ امریکہ نے یہ عجوبہ ء روزگار ہتھیار بنا لیا ہے اور استعمال بھی کیا ہے تواس لمحے سے لے کر آج تک امریکہ دنیا کی پہلی سپرپاور کہلاتا چلا آ رہا ہے۔
دوسرا ملک جس نے چار سال بعد اس ایٹم بم کا کامیاب تجربہ کیا وہ سوویٹ یونین تھا، اس لئے وہ بھی اس ’’بم‘‘ کی ’’برکت‘‘ سے دنیا کی دوسری سپرپاور بن گیا۔
لیکن جب امریکہ کی اولیت کا یہ خصوصی اعزاز روس نے چھین لیا تو ظاہر ہے امریکی انتظامیہ کو یہ بات ہضم نہ ہوسکی۔
دوسری عالمی جنگ میں روس اور امریکہ دوست (اتحادی) تھے اور جرمنی اور جاپان ان اتحادیوں کے دشمن تھے۔
لیکن یہ جنگ جب بحرالکاہل کے پانیوں میں 14ستمبر 1945ء کو بالآخر ختم ہو گئی اور جاپان نے بھی جرمنی کے بعد ہتھیار ڈال دیئے تو اگلے ہی روز یعنی 15ستمبر 1945ء کو، روس، اتحادیوں کا دشمن تصور کیا جانے لگا۔
اس جنگ میں سب سے بڑی تباہی تو روس کی ہوئی تھی جس پر ہٹلر کی نازی افواج نے 22جون 1941ء کو ایک بڑا حملہ کر دیا تھا جس کو تاریخ میں آپریشن بار بروسہ کہا جاتا ہے۔
جرمن افواج نے جتنی تباہی اس جنگ کے خاتمے تک چار برسوں(1941ء تا 1945ء) میں روس پر وارد کی، وہ ایک ریکارڈ ہے۔ جرمنی اگرچہ ماسکو فتح نہ کر سکا لیکن روس کے دوسرے بڑے بڑے شہروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی۔
مجھے اس تاریخ کو دہرانا مقصود نہیں، بتانا یہ ہے کہ دوسری عالمی جنگ میں جتنا جانی، مالی اور مادی نقصان روس کا ہوا وہ آج تک ایک ریکارڈ چلا آ رہا ہے۔اور جب یہ جنگ ان اتحادیوں نے جیت لی تھی تو روس بھی ان فاتحین میں شامل تھا۔
جنگ کے فوراً بعد اتحادیوں کے دو دھڑے بن گئے۔ ایک کا سربراہ روس تھا اور دوسرے کا امریکہ۔۔۔ روس کے ساتھ کوئی بھی ایسی دوسری قوت نہیں تھی جس کا ماضی عسکری حوالے سے قابل ذکر ہوتا، جبکہ امریکہ کے ساتھ برطانیہ اور فرانس دو ایسی قوتیں تھیں جو اس جنگ سے پہلے کئی برس تک دنیا کے ایک بڑے حصے پر حکومت کرتی رہی تھیں اور ان کی گراؤنڈ اور نیول فورسز عالمی شہرت کی حامل تھیں ۔
چنانچہ امریکہ نے روس کے ایٹمی تجربے کے بعد اپنے ان دو اتحادیوں (برطانیہ اور روس) کو بھی ایٹمی راز منتقل کر دیئے وگرنہ ایک شکست خوردہ برطانیہ اور ایک تباہ حال فرانس یکایک دنیا کی تیسری اور چوتھی ایٹمی قوت کیسے بن سکتے تھے؟ امریکہ کی سٹرٹیجک سوچ یہ تھی کہ چونکہ روس کا ایک بڑا حصہ اور دارالحکومت ماسکو بھی براعظم یورپ میں واقع ہے اور فرانس اور برطانیہ بھی اسی براعظم میں ہیں اس لئے کل کلاں اگر روس کا مقابلہ کرنے کا وقت آیا تو یہ دونوں یورپی قوتیں روسی یلغار کے آگے بند باندھ سکیں گی۔
امریکہ چونکہ ایک الگ تھلگ براعظم تھا (اور ہے) اور اس کے اور یورپ کے درمیان ہزارہا میل عریض بحراوقیانوس حائل ہے اس لئے اگر کسی وقت روس نے امریکہ کا رخ کیا بھی تو اسے پہلے فرانس اور برطانیہ کو فتح (یابرباد) کرنا پڑے گا۔
اورچونکہ جرمنی دوسری عالمی جنگ کے سارے اتحادیوں کا دشمن تھا اس لئے اس کا ایک ایک شہر اور ایک ایک قصبہ اس جنگ کے آخری برسوں میں اتحادیوں کی یلغاروں نے برباد کرکے رکھ دیا ۔اول اول امریکی پلان یہ بھی تھا کہ برطانیہ اور فرانس کے علاوہ جرمنی کو بھی ایٹمی راز دے کر ایٹمی قوت بنا دیا جائے۔
لیکن چونکہ جرمنی اور روس کی زمینی سرحدیں آپس میں ملتی تھیں اس لئے امریکیوں کو اندیشہ تھا کہ اگر جرمنی کو ایٹمی راز دے دیئے جائیں اور اس نے ایٹم بم بنا لئے تو وہ آئندہ کسی بھی جنگ میں سب سے پہلے روسیوں کے ہاتھ آئیں گے۔
دوسری عالمی جنگ کے اختتامی ایام میں بھی ہٹلر کے بنکر اور دارالحکومت برلن پر سب سے پہلے روسیوں نے ہی قبضہ کیا تھا۔ امریکہ اور برطانیہ کی افواج تو بعد میں پہنچی تھیں۔
میں نے یہ طویل تمہید اس لئے باندھی ہے کہ یہ نکتہ واضح کر سکوں کہ آج تک دنیا بھر کے جتنے ملکوں کے پاس ایٹمی ہتھیار ہیں، ان میں کوئی بھی ایسے دو ممالک شامل نہیں جن کی زمینی سرحدیں آپس میں ملتی ہوں اور وہ دونوں ایک دوسرے کے دشمن بھی ہوں ماسوائے ایک استثنا کے۔۔۔۔ امریکہ، روس، چین، فرانس، برطانیہ، پاکستان، بھارت، اسرائیل اور شمالی کوریا آج دنیا کی نو (9) ایٹمی قوتیں ہیں۔
ان میں صرف چین اور شمالی کوریا اور پاکستان اور بھارت کی زمینی سرحدات آپس میں ملتی ہیں۔ لیکن چین اور شمالی کوریا تو آپس میں دوست بھی ہیں اور ایک دوسرے کے اتحادی بھی۔
لیکن پاکستان اور بھارت وہ دوسری جوڑی ہے جو ایک دوسرے کے خون کی پیاسی ہے اور جس کی باہمی سرحدیں آپس میں ملتی ہیں اور سینکڑوں میلوں تک پھیلی ہوئی ہیں۔
اس لئے اگر کبھی تیسری عالمی جنگ شروع ہوئی تو زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ یہ دونوں ہمسائے جو ایک دوسرے کے ازلی دشمن ہیں ان سے ہی اس ایٹمی جنگ کی ابتدا ہوگی۔
یہی خدشہ دنیا کے اکثر ممالک کو بھی ہے۔ دونوں کے ایٹمی ہتھیار اور میزائل سٹوروں اور گوداموں میں رکھنے کے لئے نہیں بنائے گئے بلکہ کسی بھی آل آؤٹ وار میں استعمال کرنے کے لئے بنائے گئے ہیں اور دونوں کی افواج میں باقاعدہ انڈکٹ کئے جا چکے ہیں یعنی افواج کا باقاعدہ اسی طرح کا حصہ ہیں جیسے ٹینک، توپیں، طیارے، بکتر بند گاڑیاں وغیرہ ہوتی ہیں۔۔۔ مزید برآں حال ہی میں دونوں ممالک میں ایسی پیشرفتیں ہوئی ہیں جو دونوں کے درمیان ایٹمی / جوہری جنگ کو قریب تر لے آئی ہیں۔۔۔
یہ نئی پیشرفت بحرہند کو ملٹرائز (Militarize) کرنی کی ہے۔ دنیا کے تین بڑے بحروں میں بحراوقیانوس اور بحرالکاہل تو پہلے ہی ایک عرصے سے ملٹرائز ہو چکے ہیں۔بلکہ اس ملٹرائزیشن میں نیو کلیئرائزیشن بھی شامل ہے۔
بحرہند جو پہلے کبھی جنگی ہتھیاروں کی آماجگاہ نہیں بنا تھا وہ اب مستقبل قریب میں بننے جا رہا ہے۔ ان جنگی ہتھیاروں میں جوہری ہتھیار بھی شامل ہوں گے۔۔۔۔ اور اس کی شروعات بھارت کرے گا، پاکستان نہیں۔
دیکھا جائے تو یہ کوئی نئی پیشرفت نہیں کیونکہ انڈیا ایک طویل عرصے سے جوہری آبدوزوں پر تجربات کررہا ہے۔ اس نے کئی سال پہلے روس سے ایک جوہری آبدوز لیز پر لی تھی تاکہ اپنے عملے کو اس پر ٹریننگ دے سکے۔۔۔ آبدوزیں دو قسم کی ہوتی ہیں۔
ایک کو ڈیزل الیکٹرک آبدوز کہتے ہیں اور دوسرے کو نیوکلیئر یا جوہری آبدوز کا نام دیا جاتا ہے۔ ڈیزل آبدوز زیادہ عرصے تک زیرآب نہیں رہ سکتی۔
اس کی بیٹریوں کو چلانے کے لئے تازہ ہوا اور آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے جو سطحِ سمندر پر ابھر کر ہی لی جا سکتی ہے۔ اس لئے یہ آبدوز زیادہ سے زیادہ دس بارہ روز تک زیر آب رہ سکتی ہے۔
اس کے مقابلے میں جوہری آبدوز چونکہ جوہری ایندھن سے چلتی ہے اس لئے اس کو کسی بیٹری یا آکسیجن کی ضرورت نہیں ہوتی۔ وہ لامحدود مدت تک زیر آب رہ سکتی ہے اور صرف اس وقت ہی سطحِ آب پر ابھرتی ہے جب اس کے عملے کو تازہ خوراک اور پانی کی ضرورت ہو۔
ڈبہ بند خوراک اور تازہ پانی کا ذخیرہ اگر کسی جوہری آبدوز میں ذخیرہ کیا جا سکے تو اس آبدوز کو 25برس تک سطحِ آب پر آنے کی ضرورت نہیں اور وہ سمندر کے پانیوں کے نیچے ہی رواں دواں رہے گی! چونکہ سمندروں کے درمیان کوئی دیوار نہیں ہوتی اس لئے وہ دنیا کے تینوں بڑے سمندروں میں آ جا سکتی ہے اور ان کے علاوہ درجنوں چھوٹے سمندروں مثلاً بحیرۂ روم، بحیرۂ عرب، بحیرۂ بالٹک، بحیرۂ چین اور خلیج بنگال وغیرہ میں بھی بلا روک ٹوک گشت کر سکتی ہے۔ ان چھوٹے سمندروں اور بڑے تینوں بحروں (بحرالکاہل، بحراوقیانوس اور بحر ہند) کے درمیان بھی کوئی دیوار نہیں اور ان کے پانی آپس میں ملے ہوئے ہیں۔
جوہری آبدوز کی دوسری اہلیت جو بہت خطرناک ہے وہ یہ ہے کہ وہ اس میں ایسے میزائل نصب کئے جا سکتے ہیں جن پر جوہری بم (وارہیڈز) رکھے ہوتے ہیں۔
یہ آبدوز جہاں بھی چاہے، پانی کے اندر سے ہی یہ میزائل فائر کر سکتی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی نے انسان کو اس قابل بنا دیا ہے کہ وہ زیرِ آب رہ کر بھی روئے زمین کے کسی بھی حصے پر ایٹم بموں کی بارش کر سکتا ہے۔
ایسی آبدوز جوہری بھی ہو سکتی ہے اور ڈیزل الیکٹرک بھی۔ ان کے علاوہ سطحِ آب پر چلنے والے بحری جنگی جہازوں سے بھی یہ بم بردار میزائل چلائے جا سکتے ہیں۔
یہ آبدوزیں ایٹمی/ جوہری بموں کو فائر کرنے والا تیسرا وسیلہ ہیں۔ باقی دو وسیلے زمین پر ہیں۔ یعنی کسی بھی زمینی لانچنگ پیڈ سے یا کسی جنگی طیارے سے ان کو فائر کیا جا سکتا ہے۔
ان تینوں وسائل میں سب سے خطرناک وسیلہ آبدوز ہے۔ زمینی وسیلوں پر تو جوابی وار کرکے ان کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے لیکن ایٹم بم بردار آبدوز کا پتہ چلانا اور اس کو ٹارگٹ کرنا ہنوز ممکن نہیں۔
شائد مستقبل میں ایسی ٹیکنالوجی انسان کے ہاتھ آ جائے جو کسی بھی زیر آب جہاز(آبدوز وغیرہ) کو ٹریک کر سکے،لیکن اب تک انسان اس میں کامیاب نہیں ہو سکا،چنانچہ اگر کسی جوہری ملک کے زمینی وسیلے (لانچنگ پیڈ اور طیارے) برباد بھی کر دیئے جائیں تو اگر اس کے پاس ایٹم بم ہو اور میزائلوں والی آبدوز ہے تو وہ اس کے کام آ سکتی ہے۔
اس زیر آب وسیلے کو اسی لئے سیکنڈ سٹرائیک اہلیت کہا جاتا ہے۔ دُنیا کے باقی جوہری ممالک کے پاس یہ سیکنڈ سٹرائیک اہلیت ایک عرصے سے موجود ہے ۔
اسی لئے انڈیا اس کوشش میں رہا ہے کہ اس کے ہاتھ بھی یہ وسیلہ آ جائے اور اسے بھی ’’ثانوی جوہری حملہ‘ کرنے کی اہلیت حاصل ہو سکے۔
انڈیا2016ء میں یہ صلاحیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے اور پاکستان کو بھی از راہِ مجبوری یہ اہلیت حاصل کرنی پڑی ہے۔ پاکستان نے بھی جنوری2017ء میں یہ اہلیت حاصل کر لی ہے۔
اس کی تینوں فرانس ساختہ آگسٹا90- بی ڈیزل الیکٹرک آبدوزں سے ایسے میزائل فائر کئے جا سکتے ہیں جن میں ایٹم یا ہائیڈروجن بم لدے ہوئے ہوں۔
پاکستان نے ابابیل نامی میزائل کا کامیاب تجربہ پچھلے برس کر لیا تھا۔ آبدوز سے نکلنے والا یہ میزائل، کروز میزائل تھا۔ یعنی وہ کسی ساحلی یا بحری جہاز کے راڈار پر نظر نہیںآتا کیونکہ وہ سطح سمندر سے کچھ ہی اوپر تیرتا جاتا ہے اور جا کر مطلوبہ ہدف کو برباد کر دیتا ہے۔
یہ ہدف خواہ پانی پر تیرتا کوئی جنگی جہاز ہو یا کوئی زمینی/ساحلی تنصیب ہو وہ یکساں اس کروز میزائل کی زد پر ہو گی۔ اس کے بعد بھی حال ہی میں پاکستان نے ایک اور کامیاب تجریہ کیا ہے جو بابر کروز میزائل کا تجربہ ہے اور جس کی مار450کلو میٹر تک ہے۔۔۔۔ اس پر میں چند روز پہلے کالم لکھ چکا ہوں۔
یہ پیشرفت بحر ہند کو ملٹرائز اور نیو کلیئرائز کرنے کی ابتدا ہے۔ اب بہت جلد دُنیا کے دوسرے ممالک کی آبدوزیں اور بالائے آب بحری جہاز بھی جوہری وار ہیڈز سے مسلح میزائلوں کو اپنے دامن میں بھر کر انڈونیشیا سے افریقہ کے مشرقی ساحل پر واقع ممالک کو بلا روک ٹوک نشانہ بنا سکیں گے۔۔۔ اس کی مزید تفصیل آئندہ کالم میں۔۔۔!