ایک سوال جس کا جواب نہیں مل رہا!

کیا ہم نے ترقی کی ہے؟ اِس سوال پر ایک سے زائد آراء سامنے آئی ہیں،جو یہ کہتے ہیں ہاں بہت زیادہ ترقی کی ہے،اُن کے پاس بھی اپنے دلائل ہیں اور جو کہتے ہیں نہیں ہم ترقی نہیں کر سکے وہ بھی اپنے دلائل رکھتے ہیں۔ اِس سوال کا حقیقی جواب تبھی مل سکتا ہے جب یہ طے ہو جائے کہ ہم ترقی کہتے کسے ہیں،کہنے کو تو ہم نے آبادی بڑھانے میں بھی بہت ترقی کی ہے۔ دو گنا، تین گنا اور چار گنا ہو چکی ہے۔اب اسے اگر ترقی کا پیمانہ سمجھ لیا جائے تو واقعی ہم دنیا کے بیشتر ممالک سے بڑی تیزی کے ساتھ آگے نکل گئے ہیں، بلکہ اِس حوالے سے ہمارا شمار اب دنیا کے چند بڑے ممالک میں ہونے لگا ہے۔اب دوسری رائے یہ ہے کہ اسے ترقی نہیں ترقی دشمنی کہا جا سکتا ہے۔ اس بے مہابا آبادی کے اضافے نے ہماری ہر منصوبہ بندی کو تہس نہس کیا ہے،جو منصوبے ایک خاص آبادی کے لئے بنائے جاتے ہیں،جب وہ مکمل ہوتے ہیں تو آبادی کئی گنا بڑھ چکی ہوتی ہے اور وہی منصوبے وبال جان بن جاتے ہیں۔ آبادی کا اژدھا ہمارے منصوبوں کو نگل جاتا ہے۔ خیر یہ معاملہ بھی اپنی جگہ ایک بڑا مسئلہ ہے،لیکن اس کے باوجود بظاہر یوں لگتا ہے ہم پھر بھی ترقی کر رہے ہیں۔ ہمارے شہر پھیل رہے ہیں،سہولتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ترقی کے عوامل بڑھتے جا رہے ہیں،لوگوں کا معیارِ زندگی پہلے سے بہتر ہوا ہے۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ حقائق ہیں،مگر پھر بھی ہمیں یہ کیوں لگتا ہے کہ ہم ترقی کی دوڑ میں اُن ممالک سے پیچھے رہ گئے ہیں،جو ہمارے ساتھ یا ہمارے بعد آزاد ہوئے،ہمارے عمرانیات کے ماہرین ایک نئی تھیوری پیش کرتے ہیں اُن کے نزدیک جس طرح ایک پری میچور پیدا ہونے والا بچہ اُس رفتار سے پرورش نہیں پاتا،جس رفتار سے عام بچہ پاتا ہے،اُسی طرح پاکستان کے ساتھ ہوا ہے۔پاکستان معرض وجود میں آیا تو جس رفتار سے اس کا انتظامی ڈھانچہ بننا چاہئے تھا، نہیں بن سکا، بہت سے معاملات لٹک گئے۔ بانی ئ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی صرف ایک سال بعد وفات بھی ایک بڑا عنصر ہے جس سے نوزائیدہ مملکت کو پاؤں پر کھڑا نہیں ہونے دیا،جو ممالک ہمارے ساتھ آزاد ہوئے اُن میں یہ بنیای کمی نہیں رہ گئی تھی۔انہوں نے اپنا ایک نظام ترتیب دیا اور آگے کا سفر شروع کر دیا۔اُن کی نظر میں پاکستان کے پری میچور ہونے کی بڑی نشانی یہی ہے کہ اس میں تجربات شروع ہو گئے ہیں،مفادات کی کشمکش نے جنم لیا۔ طاقتوروں نے اپنی دنیا بسا لی اور اُس کے مطابق اِس مملکت کو ڈھالنے کی کوشش کی۔سب سے بنیادی چیز آئین ہوتا ہے اس پر ربع صدی تک اتفاق رائے نہ ہو سکا۔کوئی بھی ادارہ، ملک یا جمہوریت ایک مضبوط آئین کے بغیر مستحکم نہیں ہو سکتی۔اس شعبے میں پیچھے رہ جانے کے بعد ہم ہر شعبے میں اُسی رفتار سے ترقی نہ کر سکے جس رفتار سے دیگر ممالک نے کی۔ پالیسیاں کسی ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، ہماری پالیسیاں ایڈہاک بنیادوں پر چلتی رہیں۔ ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ ہم اس شعبے میں پیچھے رہ گئے تو پھر آگے بڑھنے کے تمام راستے مسدود ہوتے چلے گئے۔
ہم نے ترقی ضرور کی ہے،مگر وہ صرف سطحی ہے۔ انفراسٹرکچر بہتر بنا لیا ہے۔موٹرویز بن گئی ہیں، ٹیکنالوجی میں پیش رفت کی۔ایٹمی ملک بھی بن گئے ہیں۔ لوگوں نے معاشی حوالے سے اپنی زندگی کو بہتر بھی بنایا ہے، شہروں کی ترقی اور چکا چوند میں بھی اضافہ ہوا ہے۔تعلیم و صحت کی سہولتوں میں بھی بہتری آ چکی ہے۔شرح خواندگی بھی بڑھ رہی ہے۔کوئی قیام پاکستان کے وقت کی تصویریں نکالتا ہے اور ماضی و حال کے لاہور یا کراچی کا موازنہ کرتا ہے تو زمین آسمان کا فرق نظر آتا ہے۔مجھے اپنے ہوش کی باتیں یاد ہیں کہ شام کے وقت باری سٹوڈیو ملتان روڈ سے آگے جانا خطرے سے خالی نہیں سمجھا جاتا تھا کہ ہر سو ویرانی ہوتی تھی۔اگر سنگ و خشت کی ترقی کو ترقی کہا جا سکتا ہے، تو ہم نے واقعی بہت ترقی کی ہے،لیکن اگر ترقی سے مراد کچھ اور ہے،معاشرے کا رہن سہن اور رویہ ہے،اُس میں موجود وہ مثبت رویے اور تقاضے ہیں جو معاشروں کو حقیقی معنوں میں ترقی یافتہ بناتے ہیں تو ہم اتنی آسانی سے یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ ہم نے ترقی کی ہے۔ہم اس لحاظ سے کچھوے کی طرح بھی نہیں رینگے،آگے نہیں بڑھے، بلکہ اُلٹا پیچھے کی طرف کھسک گئے ہیں،تہذیب و شائستگی، تحمل، برداشت، معاشرتی اقدار کا احترام،ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری،قانون پر عملداری،حقوق و فرائض کا شعور غرض بہت سی باتیں ہیں جو اِسی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ ہم نے ترقی نہیں کی،بلکہ ترقی ئ معکوس کا سفر کیا ہے۔ایسا کیوں ہوا ہے؟اسے سمجھنے کے لئے کسی بہت بڑی ذہنی صلاحیت کی ضرورت نہیں، سادہ سی بات ہے ہمارے نظام کی باتیں جس طبقے کے ہاتھوں میں رہی ہیں،اُس نے ایسے رویوں کو فروغ دیا ہے،ایسی مثالیں قائم کی ہیں کہ جو ہر اُس کام پر ابھارتی ہیں، جو ہماری آئینی،قانونی اور اخلاقی قدروں سے لگا نہیں کھاتا۔آج بھی معاشرہ دو انتہاؤں میں بٹا ہوا ہے۔ ایک طرف بالادست طبقے ہیں اور دوسری طرف بے دست و پا مخلوق ہے،جب کسی معاشرے میں یہ تاثر گہرا ہو جائے کہ قانون کی نظر میں سب برابر نہیں تو وہ ترقی نہیں کرتا، تنزلی کی طرف سفر کرنا شروع کر دیتا ہے۔
آپ کسی پرانے زمانے کے بزرگ سے ملیں تو اُس کی باتیں سن کر حیران رہ جائیں گے یہ کس زمانے کے لوگ تھے،ان میں جھوٹ،منافقت، کینا پروری،دولت کی ہوس اور دوسروں کو نقصان پہنچانے کی سوچ ہی نہیں تھی،یہ برائیاں تو ہم میں گذشتہ چند دہائیوں میں آئی ہیں اور ان میں ہم نے اتنی ترقی کر لی ہے کہ ہر دوسرا شخص یہ شکوہ کرتا نظر آتا ہے کہ معاشرہ بہت بددیانت اور مفاد پرست ہو گیا ہے۔آج کے دور کا سکہ رائج الوقت یہ ہے کہ ہم نے دولت کو اپنا امام مان لیا ہے۔اس کے لئے ہر چیز داؤ پر لگانے کی ٹھان رکھی ہے۔آپ کسی جاننے والے کے پاس یہ سوچ کر جائیں کہ وہ رعایت کرے گا یا اچھا مال دے گا تو بعد میں احساس ہو گا۔سب سے زیادہ اسی نے لوٹا ہے۔ آج ترقی کی علامتیں اور بھی بہت سی نظر آتی ہیں، لیکن ملک ہے کہ آگے نہیں بڑھ رہا۔ انسانی حقوق کی صورت حال ہو یا عدل و انصاف کی، جمہوری آزادی کی باتیں ہوں یا آئین کی بالادستی کے دعوے سب خام لگتے ہیں کہ زمینی حقائق ہمارے زوال کا منہ چڑا رہے ہوتے ہیں ایسے میں اس سوال کا جواب ڈھونڈنا آسان نہیں کہ کیا ہم نے ترقی کی ہے؟
٭٭٭٭٭