بحری سفر کے شوقین سیاح بالائی مصر اور ابو سمبل کے یادگاری مجسمے دیکھنے کیلئے اسی راستے کو اپناتے ہیں اور دلکش نظاروں سے محظوظ ہوتے ہیں
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط:89
اس ڈیم کی تعمیر سے بیک وقت کئی فائدے ہوئے۔ سب سے بڑا تو یہ کہ فالتو سیلابی پانی کو ملحقہ جھیل میں ذخیرہ کر لیا جاتااور اس سے فصلوں کو جو نقصان پہنچتا تھا وہ ختم ہوگیا۔ دوسری طرف جن برسوں میں بارشیں نہیں ہوتی تھیں یا کم ہوتی تھیں تو نشیبی مصر میں قحط کا ساسماں پیدا ہو جاتا تھا۔تب یہاں سے طے شدہ پروگرام اور ضرورت کے مطابق پانی کا اخراج ہوتا رہتا تھا اور یوں زراعت کے لئے پانی کی کمی محسوس نہ ہوتی تھی۔ دوسرے ڈیموں کی طرح یہاں ایک بہت بڑا بجلی گھر بھی تعمیر کیا گیا،جس سے بالائی اور وسطی مصر کی بجلی کی ضروریات پوری ہوسکتی تھیں۔ نیشل گرڈ اسٹیشن میں منسلک ہونے کی وجہ سے اس کا فائدہ سارے ملک کو ہوتا ہے۔
یہ ڈیم دریائے نیل پر اسوان شہر کے پاس اوپر کی طرف بنایا گیا ہے جہاں سے اس کی جھیل،جسے جھیل ناصر کا نام دیا گیا ہے، بالائی مصر کی طرف ابو سمبل نامی قصبے سے بھی آگے گزر کر سوڈان کے اندرتک چلی گئی ہے۔اسوان شہر اس ڈیم کے شمال میں نشیبی سمت واقع ہے۔
ہمیں لے جا کر پہلے ڈیم پر چڑھا کر نزدیک سے دکھایا گیا۔ یہ بلاشبہ ایک بہت بڑا ڈیم ہے۔ اس کی عظمت اور وسعت کا اندازہ اس مقام پر کھڑے ہو کر ہی کیا جاسکتا ہے۔ یہاں بڑے مواصلاتی اور سیاحتی جہازوں کے لئے 2بندرگاہیں ہیں۔ ایک تو وہ جو ڈیم کے نیچے ہے، جو یہاں سے نشیبی علاقوں کی طرف جانے کے لئے ہے اور جہاں سے ہر وقت جہاز اسوان شہر کے پہلو سے گزرتے ہوئے الأقصر اور قاہرہ کی طرف چلے جاتے ہیں۔ جبکہ ڈیم کے دوسری طرف اوپر جھیل میں چلنے والے جہاز مصر کے بالائی علاقوں ابوسمبل وغیرہ سے ہوتے ہوئے سوڈان کی بندرگاہ وادی حلفہ تک چلے جاتے ہیں۔
بحری سفر کے شوقین اکثر غیر ملکی سیاح بھی یہاں سے بالائی مصر اور خصوصاً ابو سمبل کے یادگاری مجسمے دیکھنے کے لئے اسی راستے کو اپناتے ہیں اور خوبصورت جھیل کے دلکش نظاروں سے محظوظ ہوتے ہوئے اپنا سفرجاری رکھتے ہوئے وہاں پہنچ جاتے ہیں۔
اس کے بعد گائیڈ ہمیں ڈیم کی سیڑھیوں سے اتار کر پن بجلی گھر لے گیا اور اس کے بارے میں تکنیکی اور تاریخی معلومات بیان کیں۔ اس وقت وہ فخر و غرور کے جذبات سے سرشار تھا۔ ٹربائینوں سے انتہائی دباؤ اور شور کے ساتھ پانی اچھل کر باہر آ رہا تھا،جس کے شور میں اس کی آواز دب سی گئی تھی اور اسے بہت زور لگا کر بولنا پڑ رہا تھا۔ ویسے بھی مغرب سے آئے ہوئے سیاحوں کو بھلا ایسی باتوں سے کیا لینا دینا تھا۔ وہ وہاں کھڑے مسکراتے ہوئے اس نوجوان لڑکے کو دیکھ رہے تھے۔ جو پوری ایمانداری سے ڈیم کی تکنیکی وضاحتیں کر رہا تھا۔
لارڈکچنر گارڈن
تقریباً ایک گھنٹہ اسوان ڈیم پر گزار کر ہم اپنی بس میں واپس آگئے۔ وہاں سے باہر نکلے تو گائیڈ نے کہا کہ اب ہم کچھ دریائی سفر کے لئے تیار ہو جائیں۔ اس کے اگلے پروگرام کے مطابق اس نے ہمیں دریائے نیل میں موجود کچھ انتہائی خوبصورت جزیروں کی سیر کروانا تھی۔ جہاں سے فارغ ہو کر ہمیں دریا کے اس پار اترنا تھا جہاں ریت کے بڑے بڑے ٹیلوں کے علاوہ آغا خان کا مقبرہ بھی تھا۔
دریا کنارے مقررہ مقام پر گاڑی رکی اور سارے سیاح ایک موٹر بوٹ میں سوار ہوگئے اور یوں دریائے نیل کے ایک خوبصورت اور یادگار سفر کا آغاز ہوا۔(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں