دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر44

دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر44
دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر44

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

پھر جب نینی تال میں ’’نیا دور‘‘ کی شوٹنگ شروع ہوئی تو میں اپنی لائنیں دیکر وجنتی سے یہ سین کرانے میں کامیاب ہوگیا ۔وسن بہت خوش ہوئے ۔انہیں خوشی اس بات کی تھی میں نے انکے سکرپٹ میں خوبصورتی پیدا کردی تھی اور کوئی اضافی معاوضہ نہیں لیاتھا۔
اس دوران مجھے کئی فلموں کی آفرز ہوئیں۔گھر کے مسائل بھی ابھرے۔اب تو چھوٹا بھائی ناصر بھی فلموں میں آگیا تھا۔اور رومانس بھی فرماچکا تھا ۔ زندگی یونہی شب و روز میں گزرتی چلی گئی،بالوں میں سفیدی اترنے لگی۔میری فلم گنگا جمنا نے میرے خواب پورے کئے اور اسے عالمی سطح پر نمائش میں بڑا نام ملا۔
اب میںآپ کو سائرہ بانو کی طر ف لئے چلتا ہوں۔یہ نسیم بانوپری چہرہ کی بیٹی ہیں۔نسیم بیگم کی والدہ شمشاد بیگم چھمن بائی کے نام سے اپنے دور کی بڑی گائیکہ تھیں ۔نسیم بانو سائرہ بانو کو فلمی دنیا سے الگ رکھنا چاہتی تھیں،اس لئے انہوں نے اسے لندن پڑھنے بھیج دیا ۔لیکن جب وہ واپس آئیں تو ا نہوں نے فلموں میں کام کرنے کا ارادہ ظاہر کردیا۔یہ نسیم بانو کے لئے مشکل مرحلہ تھا۔

دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر43 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
ایس مکھر جی اس خاندان کے قریب تھے ،انہیں معلوم ہوا کہ سائرہ بانو نے ضد پکڑ لی ہے اور وہ چاہتی ہے کہ اسے دلیپ کمار کے ساتھ ہیروئن لیا جائے تو وہ خفا ہوئے۔وہ تو اسکے فلموں میں آنے کے حق میں نہیں تھے۔
یہ انیس سو ساٹھ کی بات ہے۔ہم محبوب خان کے گھر میں فلم ’’دل دیا درد لیا‘‘ کی پارٹی کررہے تھے ،ایس مکھر جی نے اس موقع پر مجھے کہا’’ یوسف یہ نوجوان لڑکی تمہارے ساتھ کام کرنے کے لئے دیوانی ہوچلی ہے‘‘


میں ہنس دیا،وہ دبلی پتی اور دراز قامت لڑکی تھی۔ میں نے اپنے سر میں ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا’’ سائرہ تم دیکھ رہی ہو میرے سر کے بال سفید ہوچکے ہیں،میں تو سور کی طرح پلا ہوا ہوں کیا تمہارے ساتھ ہیرو آتا ہوا اچھا لگوں گا‘‘
وہ دلربائی سے مسکرائی اورشائستگی سے بولی’’یہ سفید بال تو آپ کو دوسروں سے بہت زیادہ گریس فل بناتے ہیں ‘‘
میں اسکا یہ جملہ کبھی نہیں بھول پایا۔


میں نے بھی سائرہ کو فلموں سے دور رہنے کا مشورہ دیا لیکن وہ کہاں سننے والی تھی۔اس وقت اسکی عمر سولہ سال تھی جب اسکو شمی کپور کے ساتھ فلم ’’جنگلی ‘‘میں کاسٹ کرلیا گیا۔اس کی فلم نے دھوم مچادی ۔اتفاق دیکھئے ،ایک طرف ’’جنگلی‘‘ کا چرچا تھااور دوسری جانب ’’گنگا جمنا ‘‘ سپر ہٹ ہوئی ۔دونوں ایک وقت میں ریلیز ہوئی تھی۔اس فلم کے بعد سائرہ نے پلٹ کر نہیں دیکھا ۔اسکی ڈیمانڈ بڑھ گئی۔اس نے تمام بڑے ہیروزراج کپور،شمی کپور،سنیل دت،راجندر کمار،دیوآنند،منوج کے ساتھ کام کیا سوائے میرے۔۔
اس دوران وحیدہ رحمن کی فلمیں بھی مارکیٹ میں آنے لگی تھیں ،سائرہ چاہتی تھی کہ وہ میرے ساتھ کاسٹ کی جائے ۔اس نے خود بھی اور کئی اور ذرائع سے کوششیں کی،پیغامات بھجوائے کہ اسے دلیپ کمار کے ساتھ کاسٹ کرنے کا موقع دیا جائے۔فلم بین بھی یہی چاہتے تھے کہ سائرہ بانو جیسی نٹ کھٹ کو دلیپ کمار کے ساتھ ہونا چاہئے۔میں اسکی فلموں کے مہورت پر جاتا اور دیکھتا رہا کہ اب وہ مزید جاذب نظر خاتون بن چکی ہے اور میری عمر کے ہیروز راج کپور اور دیو آنند کے ساتھ کام بھی کرچکی ہے لیکن میں سمجھتا تھا کہ میرا اور سائرہ بانو کا بطور ہیرو ہیرئن جوڑ نہیں بنتا۔وہ دبلی پتلی،دراز قامت ،حسین آنکھوں والی نوجوان لڑکی تھی جبکہ میں پختہ خواتین کے ساتھ ہی فلمیں کرتا تھا ۔


میں یہ بھی سوچتا تھا کہ اس قدر بد اخلاقی کا مظاہرہ بھی نہیں کرنا چاہئے لہذا میں نے ایس مکھر جی اور سائرہ بانو کے بھائی سلطان سے کہا کہ میں سائرہ کے لئے الگ سے ایک تھیم تیار کررہا ہوں ۔یہ تھیم ’’سانگ آف دی ویلی‘‘ کے نام سے تیار کیا ۔ یہ کشمیر کے موضوع پر تھا اور سائرہ کے لئے بڑا منفرد کردار تھا۔
مجھے ا س پر کام کرتے ہوئے کافی وقت لگا اوریہ انتظار سائرہ بانو پر قیامت بن کر گزرا،وہ زخمی اور ناراض شیرنی بن گئی۔وہ جو مجھے دیکھ کر خوش ہوجایا کرتی تھی،اب دیکھتے ہی آنکھیں پھر کر گزرنے لگی۔حقیقت میں فلمی کہانی بننے لگی۔میں جب سٹوڈیو سے واپس جانے کے لئے نکلتا تو اس دوران ا گر سائرہ اپنی نانی کے ساتھ نظر آتی تو میں انہیں سلام کرنے کے لئے گاڑی سے اترتا لیکن سائرہ نظر انداز کرکے چلی جاتی۔میں سمجھ رہا تھا کہ حسن و جوانی کا ناراض ہونا بھی ادا ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح کسی کو گھائل کیا جاسکتا ہے۔
اس وقت جب ’’رام اور شیام ‘‘ کی کاسٹ شروع ہوئی تو میں نے اس میں سائرہ بانو کے ساتھ کام کرنے سے انکار کردیا اور اسکی جگہ ممتاز کو کاسٹ کرلیا گیا۔سائرہ نے اسکو اپنی توہین سمجھا اور پھر اس نے مجھے زچ کرنا شروع کردیا۔اس فلم کی تکمیل میں مصروف تھا جب آپا نسیم بانو کی جانب سے مجھے سائرہ کی سالگر میں شرکت کا دعوت نامہ ملا۔انہوں نے بصد اصرار تاکید کی۔
میں اس دن کو کیسے بھول سکتا ہوں ۔یہ 23 اگست 1966 کا نہایت سہانا دن تھا ۔میں مدراس میں تھا ،بہت بزی شیڈول تھا ۔میں نے بمبئی کے لئے فلائٹ پکڑی ۔آپا نسیم بانو نے بمبئی میں سائرہ کی سالگرہ کا بہت بڑا اہتمام کیا ہوا تھا۔میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ دن میری زندگی کا بہت اہم دن بن جائے گا ۔
ائرپورٹ پر میری گاڑی مجھے لینے آگئی ۔میں سائرہ کے گھر کی رواں ہوا،اس نے حال ہی میں ایک وسیع باغ کے پاس اپنا نیا گھر بنایا تھا ۔میں جب گاڑی انکے نئے گھر کے کوریڈور میں لے جا کر اترا تو میری نظر سامنے کھڑی حُسن کی دیوی پر جاٹکی۔سائرہ بانو بروکیڈ کی ساڑھی زیب تن کئے حسن کا لازوال نمونہ بنی برآمدے میں کھڑی تھی۔میں آنکھیں جھپکنا بھول گیا۔حیران و ششدرہوا اسے دیکھتا رہ گیا۔ایک لمحے میں مجھ پر ایسا اثر ہوا کہ میں اسکے پاس گیا۔وہ مسکرائی اور میں نے اسکی جانب ہاتھ بڑھایاتو اس نے میرا ہاتھ ریشمیں ہاتھوں میں تھا م لیااور اس لمحہ ہماری ناراضگی جاتی رہی۔وقت جیسے رک گیا۔وہ گہری آنکھوں سے میری جانب دیکھنے لگی۔وہ ایک مکمل عورت بن چکی تھی اور میرے گماں سے بھی زیادہ حسین دکھائی دے رہی تھی۔وہ لمحہ آج بھی میری مٹھی میں جگنو کی طرح بند ہے۔(جاری ہے )

دلیپ کمار کی کہانی انہی کی زبانی ۔ ۔ ۔ قسط نمبر45 پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں