سرخرو ہونا ہے یا ناکام؟

       سرخرو ہونا ہے یا ناکام؟
       سرخرو ہونا ہے یا ناکام؟

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

  پشاور ہائیکورٹ کے دو رکنی بنچ نے تحریک انصاف کو انتخابی نشان بلا دینے کا حکم جاری کر دیا۔ انتخابی نشان کے حوالے سے الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔ اس سے پہلے پشاور ہائیکورٹ کے سنگل بنچ نے الیکشن کمیشن کا فیصلہ معطل کر دیا تھا جس کے خلاف الیکشن کمیشن نے اپیل کی جس پر دونوں طرف کے دلائل سننے کے بعد ڈبل بنچ نے یہ حکم جاری کیا۔ سب حیران ہیں کہ الیکشن کمیشن سب کام چھوڑ کر تحریک انصاف سے بلے کا نشان چھیننے کے پیچھے کیوں پڑا ہوا ہے۔ تحریک انصاف کوئی کالعدم جماعت نہیں، الیکشن لڑنے کی اہل بھی ہے۔ الیکشن سر پر آ چکے ہیں، انتخابی نشان الاٹ کرنے کا مرحلہ بھی ایک دن کی دوری پر ہے، پھر عدالت کے حکم کو مان کر آگے بڑھنے میں کیا حرج ہے۔الیکشن کمیشن کی اس معاملے میں حد درجہ دلچسپی سے شکوک و شبہات بھی ابھر رہے ہیں اور کئی سوالات بھی جنم لے رہے ہیں۔ سب سے بُرا تاثر یہ پیدا ہو رہا ہے کہ الیکشن کمیشن،تحریک انصاف کے خلاف ذاتی مخاصمت پر اتر آیا ہے۔ صاف و شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے لئے اس تاثر کا ختم ہونا ضروری ہے وگرنہ انتخابی نتائج پر بعدازاں بڑے الزامات لگیں گے۔ انتخابی نشان ہر سیاسی جماعت کی شناخت ہوتا ہے۔ خاص طور پر وہ سیاسی جماعتیں تو کئی انتخابات میں حصہ لے چکی ہیں ان کا نشان ووٹرز کو یاد ہوجاتا ہے۔ پیپلزپارٹی تیر اور مسلم لیگ(ن) شیر کے نشان سے پہچانی جاتی ہیں۔ ملک میں خواندگی کا تناسب کم ہونے کی وجہ سے بھی زیادہ تر ووٹرز انتخابی نشان سے اپنے امیدوار کو پہچانتے ہیں۔ انتخابی نشان کی عدم موجودگی میں پارٹی کو ملنے والی مخصوص نشستیں بھی حاصل نہیں ہوں گی جو ایک بڑا نقصان ہے۔ اس لئے ہر سیاسی جماعت ایک ہی انتخابی نشان کے تحت انتخابات میں حصہ لینا چاہتی ہے۔ ایک ایسے موقع پر ملک کی بڑی سیاسی جماعت کو اس معاملے میں اُلجھا کر نہ صرف اس سیاسی جماعت کے لئے مشکلات کھڑی کرنا مقصود ہے بلکہ اس کی وجہ سے الیکشن کے عمل اور الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری پر بھی انگلیاں اٹھتی ہیں۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ الیکشن کمیشن کو ایسے کام الیکشن کے عین قریب جا کر ہی کیوں یاد آئے۔ پہلے حلقہ بندیوں کے معاملے پر انتخابات میں تاخیر ہوئی اور اب ایک بڑی سیاسی جماعت کو انتخابی نشان میں الجھا کر ملک میں انتخابی عمل کا ٹمپو نہیں بننے دیا جا رہا حالانکہ انتخابی عمل کے لئے سازگار ماحول پیدا کرنا الیکشن کمیشن کی اساسی ذمہ داری ہے۔

تحریک انصاف کو بلے کا نشان تو واپس مل گیا ہے تاہم اس کی مشکلات ابھی کم نہیں ہوئیں، سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ بانی چیئرمین عمران خان نہ صرف ایڈیالہ جیل میں بند ہیں بلکہ انتخابات میں حصہ لینے کے اہل بھی نہیں رہے کہ ریٹرننگ افسروں اور الیکشن ٹربیونلز نے ان کے کاغذات مسترد کر دیئے ہیں۔ تحریک انصاف یقینا ان کی ریلیف کے لئے اعلیٰ عدلیہ سے بھی رجوع کرے گی۔ ممکن ہے کہیں سے ریلیف مل جائے۔ ایسا نہ ہونے کی صورت میں تحریک انصاف کو ان کے بغیر ہی میدان میں اترنا پڑے گا۔ اس کے باوجود تحریک انصاف کی عوامی مقبولیت برقرار ہے۔ کاغذات نامزدگی کا مرحلہ شروع ہوا تو پکڑ دھکڑ اور کاغذات جمع کرانے میں رکاوٹوں کا ذکر اتنے تواتر سے ہوا یہ تاثر اُبھرا کہ شاید قومی و صوبائی اسمبلی کے حلقوں میں تحریک انصاف کو امیدوار ہی نہ ملیں مگر پی ٹی آئی کے چیئرمین اعجاز گوہر کا کہنا ہے ہم کوئی حلقہ خالی نہیں چھوڑیں گے اور ہر حلقے میں امیدوار کھڑا کریں گے۔ اس حوالے سے ایک دو دن میں صورتِ حال واضح ہو جائے گی۔ الیکشن اور اپیلٹ ٹربیونلز سے تحریک انصاف کے بڑے رہنماؤں کو بھی الیکشن لڑنے کی اجازت مل چکی ہے۔ شروع دن سے سنجیدہ قومی حلقوں کی یہی رائے رہی ہے کہ انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں کو حصہ لینے کے یکساں مواقع میسرآنا چاہئیں۔ یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ انتخابی نتائج کو ہمارے ہاں عمومی طور پر تسلیم نہیں کیا جاتا۔ اگر پہلے ہی سے یہ تاثر جنم لے چکا ہو کہ ایک سیاسی جماعت کو امتیازی سلوک کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو نتائج اسی تناظر میں دیکھے جاتے ہیں۔

 اس حقیقت کو ہر سیاسی جماعت تسلیم کرے کہ ملک میں تمام سیاسی جماعتوں کا ووٹ بینک بھی موجود ہے اور سیاسی حمایت بھی، کوئی جماعت بھی کلی طور پر یہ دعویٰ نہیں کر سکتی کہ اسے بلاشرکت و غیرے پورے ملک کی حمایت حاصل ہے۔ الیکشن کمیشن کا کردار ایک ریفری ایک ایمپائر کا ہے۔ہر قیمت پر اپنی غیر جانبداری برقرار رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن کو عام انتخابات کے مرحلے سے گزرنے کا عزم کرنا چاہیے۔ ویسے تو الیکشن کمیشن ایک آئینی ادارہ ہونے کے ناتے اپنے لئے بے پناہ خود مختاری مانگتا ہے۔ حالانکہ اس کی سب سے بڑی خود مختاری یہ ہے وہ اپنے کردار کو کسی بھی طرح آلودہ نہ ہونے دے، ہماری انتخابی تاریخ کوئی اتنی شاندار نہیں رہی۔ نتائج نہیں مانے جاتے اور تحریکیں بھی چلتی رہی ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اس روایت کو جوں کا توں جاری رکھیں اسے توڑنا اور آگے بڑھنا ہماری قومی ضرورت ہے۔ اس کے لئے نہ صرف الیکشن کمیشن بلکہ ہماری اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی جماعتوں کو بھی ایک پیج پر آنا ہوگا۔ بظاہر یہ کڑوا گھونٹ لگتا ہے تاہم اسے پئے بغیر ہم جمہوریت کے ثمرات سے بہرہ مند نہیں ہو سکتے۔ لیول پلئینگ فیلڈ کی اصطلاح اس بار ہی استعمال ہوئی ہے۔ ایسا کیوں ہوا اور اس میں کتنی حقیقت ہے اس کا فیصلہ نہیں ہو سکا، اگرچہ یہ کیس سپریم کورٹ تک گیا۔وہاں بھی تحریک انصاف اور الیکشن کمیشن آمنے سامنے کھڑے تھے، انتخابی نشان کے حوالے سے بھی دونوں کے درمیان ون او ون ٹکراؤ رہا ہے، اس سے پہلے آر اوز کی تعیناتی کے مسئلے پر بھی دونوں میں اختلافات دیکھنے میں آئے۔ الیکشن کمیشن اپنی توہین کا کیس بھی عمران خان کے خلاف سن رہا ہے۔ سوال یہ ہے اس سارے معاملے کو سمجھ بوجھ کے ساتھ دونوں فریقوں نے نمٹایا کیوں نہیں،پہلے عمران خان نے چیف الیکشن کمشنر پر الزامات لگائے اور اس کے بعد انہوں نے بھی محاذ کھول دیا۔ نقصان اس سارے عمل میں کس کا ہوا، اس کا فیصلہ تاریخ کرے گی جب انتخابات کی شفافیت کے سوالات اٹھیں گے۔

اس وقت پوری قوم کی نظریں 8فروری پر لگی ہوئی ہیں یہ تاریخ اب لوگوں کے حافظ میں محفوظ ہو چکی ہے۔ وہ بے تابی سے انتخابات کے انعقاد کا انتظار کررہے ہیں۔ شفاف اور غیر جانبدارانہ الزامات کی ضرورت ہر دور میں رہی ہے تاہم اس بار کچھ زیادہ ہی ہے۔ ماحول خاصا گرم ہے۔ ٹرن آؤٹ زیادہ ہونے کی امید ظاہر کی جا رہی ہے۔ اچھی خبر یہ ہے نوازشریف بھی پندرہ جنوری سے میدان میں اتر رہے ہیں مقابلے کی فضا اسی وقت جنم لے گی جب پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف بھی اتنے ہی بڑے پیمانے اور آزادی کے ساتھ الیکشن مہم شروع کرے، جتنی نوازشریف کریں گے۔ نوازشریف میدان میں نکلیں گے تو دیکھتے ہیں وہ کیا بیانیہ سامنے لاتے ہیں۔ انہوں نے جتنی محنت سے ٹکٹوں کی تقسیم کے لئے ہوم ورک کیا ہے، یقینا ان کے امیدوار اپنے حلقوں میں مضبوط اور موثر ہوں گے۔ وہ بہت زیادہ سیٹیں نکال بھی سکتے ہیں  تاہم ان کی جیت اسی صورت میں اپنا رنگ جما سکے گی جب ملک میں سبھی سیاسی جماعتوں بشمول تحریک انصاف کو الیکشن مہم چلانے کا پورا موقع فراہم کیا جائے گا۔ نوازشریف جیسے بڑے لیڈر کے لئے بذات خود یہ بات قابلِ فخر نہیں کہ انہیں فری ہینڈ دیا جائے اور مخالفین کے ہاتھ باندھ دیئے جائیں۔ وقت بڑی تیزی سے گزر رہا ہے۔ الیکشن کمیشن کے پاس اِدھر اُدھر کے چھوٹے معاملات پر توجہ دینے کے بجائے سارا فوکس انتخابات کے پرامن اور غیر جانبدارانہ، منصفانہ انتخابات پر رکھنا چاہیے۔ دنیا ہماری طرف دیکھ رہی ہے اور تاریخ کی نظر بھی ہم پر ہے۔ اب یہ فیلہ کرنا ہمارا کام ہے، سرخرو ہونا ہے یا ناکام رہنا ہے۔

مزید :

رائے -کالم -