کینال ویو UBL اور میَں (قسط چہارم)
سوسائٹی کی شہرت آہستہ آہستہ پھیلنی شروع ہو گئی۔ ایک تو یہ کہ پہلی پرائیویٹ ہاؤسنگ سوسائٹی کوآپریٹو شکل میں تھی UBLکے نام سے جڑی ہوئی تھی، UBLسے قرض ملنے کی بھی پیشکش تھی۔ اعلیٰ سرکاری اَفسر، ہائی کورٹ کے ججزاور خاص طور پر پنجاب یونیورسٹی کے وائس چا نسلر اور سینئر پروفیسر صاحبان کینال ویو کے اوّلین ممبران میں سے تھے۔ ڈاکٹرخیرات، پروفیسر مریم حبیب، پروفیسر رفیق احمد، جسٹس نسیم حسن شاہ، جسٹس گوندل (پورا نام یاد نہیں)خواجہ طارق رحیم(جو بعد میں پنجاب کے گورنر بنے)شاہنواز خان صاحب چیرمین واپڈا، راجہ سلمان اکرم کے والد ایڈوکیٹ راجہ محمد اکرم، جسٹس امیر عالم اور بہت سے اعلیٰ اُفسر۔ اِن میں سے خواجہ طارق رحیم ضرور حیات ہیں۔ UBLکے لیگل ایڈوائزرز بھی رہے ہیں۔ لاہور سٹاک ایکسچینج کے بڑے بروکر حضرات کی بھی نظر پڑ گئی کینال ویو پر۔ محمد اکرم (مرحوم)،بریگیڈیر طاہر حسن، دستور جی، حاجی امین اسلم (سیٹھ عابد کے بھائی) یہ تمام لوگ لاہور سٹاک ایکسچینج کے معتبروں میں سے تھے۔ سوسائٹی کا ٹاؤن پلان اور انفراسٹرکچر میَں نے LDAسے ہی معاوضہ دے کر تیار کروایا۔ اُس وقت LDAمعاوضے پر ٹیکنیکل سپورٹ دیا کرتی تھی۔ شیخ محمد اکرم سوسائٹی کے صدر تھے۔ اُن کی اپنی ذاتی انجینئرنگ اور architectکمپنی بھی تھی جو اُن کی بڑی بیٹی چلا رہی تھی لیکن شیخ اکرم نے اپنی کمپنی کو کام دینے کا مجھے کبھی نہیں کہا۔ سلطان صاحب سے زیادہ میرا ٹیلیفون مصروف رہتا تھا۔اُس وقت موبائل فون تو ہوتے نہیں تھے۔ دفتر میں تو میرا PA فون سُن کر مجھے پیغام گھر بھی پہنچا دیتا تھا، لیکن اَب فون گھر پر بھی آنے شروع ہو گئے۔ کینال ویو جہاں میرے لیے باعثِ عزت اور شہرت بنتی جا رہی تھی، وہاں میرے حاسد بھی پیدا ہو رہے تھے۔ زیادہ تر میرے اپنے بینک کے ہی ساتھی تھے۔ میرے بینک کے وہ صدور جو قومیائے جانے کے بعد آئے اور ریجنل ہیڈ ز میرے حاسد بن گئے۔ آغا حسن عابدی صاحب جو UBLکے پہلے سربراہ تھے بینک چھوڑنے سے پہلے ہی1992ء میں BCCI، لندن میں رجسٹرڈ کروا چکے تھے۔ اُنہوں نے PPP کی حکومت بنتے ہی یہ بھانپ لیا تھا کہ بینکوں اور چھوٹی بڑی صنعتوں کو قومیا لیا جائے گا چونکہ پیپلز پارٹی کے پاس تربیت یافتہ نظریاتی Cadre نہیں تھے اس لئے اکانومی بیٹھ جائے گی اسی سوچ کے تحت آغا صاحب نے پیش بندی کر لی تھی۔آغا صاحب کی جگہ MCB کے جنرل منیجر جناب مشتاق احمد یوسفی (معروف مزاح نگار) UBLکے صدر کی حیثیت سے تعینات ہو گئے۔ MCB اُس وقت آدم جی خاندان کا بینک تھا۔ بڑا”بیبا“سا بینک تھا۔ بڑے ہاتھیوں کی لڑائی سے دُور ہی رہتا تھا۔ خراماں خراماں چلنے والا بینک تھا۔ پاکستان بننے سے پہلے دو بڑے بینک مسلمانوں کے بن چکے تھے۔ حبیب بینک بمبئی میں قائم ہوا 1941 میں اور مسلم کمرشل بینک کلکتے میں آدم جی خاندان نے جولائی 1947 میں رینررو بینک آف انڈیا سے رجسٹر کروا لیا تھا۔ پاکستان قائم ہونے سے قبل ایک بینک لاہور کے مسلمانوں نے بھی 1942 میں بنایا تھا آسٹریلیشیا بینک کے نام سے۔ یہ ہی بینک بعد میں الائیڈ بینک بنا جو اَب پاکستان کے 5بڑے بینکوں میں شمار ہوتا ہے۔
کینال ویو سوسائٹی کی دلچسپ داستان سناتے سناتے میں اگر اِدھر اُدھر نکل جاؤں تو اِسے بھی داستان کا حصہ ہی سمجھیں کیونکہ اس سوسائٹی کے حوالے سے بہت سے کِردار اور واقعات سامنے آئیں گے جو نوجواں نسل کے لئے زیادہ معلوماتی ہونگے۔ کینال ویو لاہور کی پہلی منظم اور قابلِ اعتماد پرائیویٹ سیکٹر کی ہاؤسنگ سکیم تھی۔ 1974 سے قبل لاہور میں رہائشی سہولیات فراہم کرنا حکومت ِ پنجاب، لاہور امپرومٹ ٹرسٹ اور لاہور مونسپل کارپوریشن کا کام تھا۔ لاہور میں سب سے پہلے 1949/50ء میں سمن آباد بنایا گیا۔۔ اُس وقتTown Planning کا مضمون پاکستان کی کسی یونیورسٹی میں نہیں پڑھایا جاتا تھا۔ عموماً انجینئر اور تجربہ کار ڈرافٹسمین انفراسٹریکچر کی ڈیزائنگ کرتے تھے۔ مکانوں کے نقشے بھی وہی بناتے تھے۔ سمن آباد اپنے وقت کی پوش آبادی کہلاتی تھی۔ گلبرگ ابھی کاغذی پلاننگ کے مرحلوں میں تھی لیکن گلبرگ کی ساخت کا مرکزی خیال برطانوی راج کے زمانے کے بڑے بڑے بنگلوں اور GOR-I کے سرکاری رعب دارمکانات کی تعمیر سے لیا گیا تھا۔ اُس وقت لاہور کے بڑے سرکاری اَفسر ظفرالاحسن لاری اور عنایت اللہ صاحب (عطیہ عنایت اللہ فیم)لاہور کی ہاؤسنگ کی ضروریات کو اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق مہیا کرنے کے ذمے دار تھے۔ برطانوی اِداروں سے تربیت یافتہ یہ اَفسر عوامی ضروریات اور پاکستان کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے اثرات کا احاطہ ہی نہ کر سکے۔ جہازی سائز کے پلاٹ گلبرگ، شاہ جمال اور مسلم ٹاؤن میں بنا کر شہری قیمتی اراضی کوضائع کیا گیا۔ جب کہ ہندوستان نے 1950 میں ہی 20بڑے شہروں کے اَفسروں پر پابندی لگادی کہ 600گز سے بڑا رہائشی پلاٹ نہیں بنایا جائے گا۔ بلکہ بڑے شہروں میں فلیٹس والی رہائش کی ہمت افزائی کی گئی مثلاً فلیٹس مکینوں کے لئے ہاؤس ٹیکس کی 10سالہ چھوٹ، فلیٹس بنانے والے اور اُن کی انتظامی امور چلانے والی کمپنیوں کو کچھ سالوں کے لئے انکم ٹیکس کی چھوٹ۔پاکستان کے حکمرانوں کی کبھی بھی عوامی سوچ نہیں رہی۔ اگر یہ ہی مراعات ہمارا ملک بھی دیتا تو لاہور بھائی پھیرو تک نہ پھیلتا۔ ہمارے حکمرانوں اور خوشحال پاکستانیوں کی سوچ Thing Big & Live Big والی رہی، بڑے گھر، بڑے لان، بڑی گاڑیاں، بڑی پوزیشن۔ ہم نے لاکھوں ایکٹر اراضی کو بڑے پلاٹس کی شکل میں ضائع کر دیا۔1976 میں 1600 ایکٹر سکیم کا اعلان ہوا جس کو ہم علامہ اقبال ٹاؤن کہتے ہیں۔ اس سکیم میں البتہ چھوٹے پلاٹ زیادہ رکھے گئے۔
کینال ویو سوسائٹی کی ٹاؤن پلاننگ بیرون ملک تربیت یافتہ پاکستانی ماہرین نے کی جو LDA کے ہی اعلیٰ ملازم تھے۔ انفراسٹرکچر بھی اُن ہی سے ڈیزائن کروایا۔ باقاعدہ معاوضہ دیا گیا۔ اکرام اللہ خان نیازی (والد عمران خان)اپنی کنسٹرکشن کمپنی بنا چکے تھے۔ میری اُن سے یاد اللہ 1962 سے تھی۔ عمران خان اُس وقت (1962) میں 12/13 سال کا ہوگا لیکن 1975 میں وہ پاکستان کرکٹ ٹیم کا کھلاڑی بن چکا تھا۔ نیازی صاحب، شیخ اکرم(پہلے DGایل ڈی اے اور اَب کینال ویو کے صدر تھے) شاہنوازخان صاحب اُن دِنوں واپڈا کے چیر مین تھے، مردان کے تھے اور انجینئر تھے۔ ڈاکٹرمبشر حسن اور انجینئر شفقت قریشی(اُس وقت سیکرٹری ہاؤسنگ پنجاب) یہ پانچوں افراد 1947سے قبل انجینئرنگ کے طالب علم تھے اور گہرے دوست تھے۔ یہ پانچوں دوست پاکستان بننے کے بعد بڑے عہدوں پر آئے۔ اِن سے میری گہری دوستی ہو گئی کیونکہ شیخ اکرم اَب کینال ویو کے صدر تھے، ڈاکٹر مبشر حسن سے میری اچھی دوستی PPP کے زمانے سے پہلے کی تھی۔ نیازی صاحب میرے 1962 سے دوست تھے۔ اِن کی وجہ سے ہی میری دوستی چیرمین واپڈا شاہنواز خان سے اور سیکرٹری پنجاب ہاؤسنگ شفقت قریشی سے ہوئی۔ یہ دوستیاں کینال ویو کے بہت کام آئیں۔ کینال ویو کے نہر والے فرنٹ پر ابھی پکی سڑک تعمیر نہیں ہوئی تھی۔ جس طرح نہروں کے دونوں طرف عموماً کچی پٹری بنی ہوتی ہے، کینال ویو کے سامنے ابھی کچی سڑک ہی تھی۔ کینال ویو کے گیٹ نمبر 2 کے سامنے ابھی موجودہ پُل بھی نہ بنا تھا۔ کینال ویو مقبول تو ہو گئی تھی لیکن اکثر ممبران شکائتی لہجے میں کہتے کہ یہ سوسائٹی دور بہت ہے۔ اس کے چاروں طرف کھیت ہی کھیت ہیں، سٹرک بھی پکی نہیں ہے۔ کوئی پُل بھی نہیں ہے، رات کا اندھیرا ہوتے ہی ہُو کا عالم ہو جاتا ہے کیونکہ دُور دُور تک بجلی نہیں ہے۔ میَں کس کس کو مطمین کرتا۔ میَں اُن سے بڑے ادب سے کہتا کہ آبادیاں 10-15 سال لیتی ہیں رہائش کے قابل ہونے میں۔ اگر آپ اتنا انتظار نہیں کر سکتے تو اپنی رقم واپس لے سکتے ہیں۔ کچھ اعتراض کرنے والے ممبران گومگو کی حالت میں واپس چلے جاتے، لیکن کچھ لوگوں نے ریفنڈ بھی لیا۔ کینال ویو کے پُرانے ریکارڈ سے پتہ لگے کا کہ کم از کم 30 ممبران نے میرے زمانے میں ریفنڈ لیا۔ سوسائٹی کی پیمائش ہو گئی، نقشہ بن گیا۔ LDAکے دوسرے DGشاہد حامد جو ایک CSP اَفسر تھے، وہ بھی سوسائٹی کے لئے بہت مدد گار ثابت ہوئے۔غالباً1977-78میں جنرل انصاری DGایل ڈی اے بن گئے۔ اُس وقت تک PWD پنجاب کے اَفسروں سے رابطہ کر کے کینال ویو کے سامنے والی سڑک پختہ بنوادی گئی اور اُنہوں نے ہی غالباً نہر پر گیٹ نمبر2 کے سامنے والا پل بھی بنوادیا۔ اس کارنامے میں میری مدد شفقت قریشی اور مظہر منیر صاحب نے کی کیونکہ دونوں صاحبان نیازی صاحب اور شیخ اکرم کے انجینئرنگ کالج کے کلاس فیلو تھے۔ میرے زمانے میں کینال ویو کی بڑی سڑک جو نہر کے گیٹ نمبر 2 سے نکلتی ہے اور ملتان روڈ سے مل جاتی ہے اس روڈ پر کافی گہرا اور چوڑا کھلا ڈرین بنایا گیا تھا بارش کے پانی کے نکاس کے لئے۔ اَب یہ بھر دیا گیاہے۔ (جاری ہے)