پیپلزپارٹی بھی کبھی سیاسی جماعت تھی۔۔۔!!

پیپلزپارٹی بھی کبھی سیاسی جماعت تھی۔۔۔!!
 پیپلزپارٹی بھی کبھی سیاسی جماعت تھی۔۔۔!!

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

تمام تر خامیوں کے باوجود پاکستان پیپلز پارٹی کے بارے میں ایک بات وثوق سے کہی جاسکتی ہے کہ اس نے عوامی طاقت کی آغوش سے جنم لیا ۔ ملک کی تاریخ کی سیاسی جدوجہد میں پیپلز پارٹی کا کردار ہمیشہ عوامی رہا۔ بدقسمتی سے یہ واحد خوبی بھی اب پارٹی کا حصہ نہیں رہی۔ عوامی لیڈر بھٹو نے جب پارٹی کے منشور کے تانے بانے جوڑے تو ہر شکل میں عوام کو پارٹی کا روپ دیا ۔سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ پارٹی عوام سے مخلص تھی یا نہیں ؟ لیکن عوام ہمیشہ پارٹی سے مخلص رہے ۔جب بھی انتخابی بیلٹ پر پیپلز پارٹی کا نام آیا تو لوگوں نے نہ تو امیدوار دیکھا اور نہ ہی پارٹی کے کام !!بس بھٹو کا نعرہ لگایااور ووٹ پیپلز پارٹی کی جھولی میں ڈال دیا ۔ جنوبی ایشیا کی سیاست میں عوام نے بھٹو سے جس طرح محبت کی اس کی مثال نہیں ملتی ۔بھٹو کے دیوانے بھی اس خطے کی عجیب و غریب مخلوق نکلے۔ والہانہ عشق ایسا کہ جان خدا کی اور ووٹ بھٹو کا ۔کوئی طمع نہیں ۔کوئی مطالبہ نہیں !! بس نسل در نسل ووٹ پیپلز پارٹی کو دےئے جا تے رہے ۔لیڈر شپ لاکھ بری۔۔۔ ان سے ناراضگی اپنی جگہ ،لیکن ووٹ قائد عوام کا ۔ پیپلزپارٹی حکومت میں یا جدوجہد میں کارکن پارٹی کے لئے ماریں کھاتا رہا ۔یہ واحد پارٹی ہے کہ جس کے کارکنوں نے کوڑے کھائے ، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں ،لیکن پارٹی قیادت سے بے وفائی نہ کی ۔
المیہ یہ ہے کہ ملک کی سب سے بڑی عوامی جماعت آج عوام میں نہیں ۔سندھ میں حکومت کے باوجود انتخابی عمل کا حصہ نہیں !! ملک میں جہاں بھی ضمنی الیکشن ہوتا ہے، پارٹی غائب نظر آتی ہے ۔بیلٹ پیپر پر پیپلز پارٹی کا امیدوار ہی نہیں ۔اگر کسی الیکشن میں امیدوار ہے تو پارٹی قیادت کو پتہ ہی نہیں ،رزلٹ آتا ہے تو پارٹی آخری پوزیشن پر ہوتی ہے ۔کراچی جیسے شہر میں جہاں پیپلز پارٹی راج کر رہی ہے ایک بڑے انتخابی معرکے میں پیپلز پارٹی کا نام و نشان نہیں ۔نہ امیدوار ہے نہ سیاسی جلسہ حد تو یہ ہے کہ بیلٹ پیپر پر تیر کا نشان ہی نہیں ۔ان حالات میں بھٹو کا کوئی کارکن ساری مجبوریوں کے باوجود بھی اپنی پارٹی کو ووٹ دینا چاہتا ہے تو وہ ایسا نہیں کر سکتا ۔پارٹی نے کارکن سے اپنی محبت کے اظہار کا حق بھی چھین لیا ہے۔ کشمیر میں الیکشن ہو یا گلگت بلتستان میں انتخابی معرکے، پیپلز پارٹی مکمل طور پر منظر سے روپوش رہی ۔ن لیگ نے جلسے کئے ،کپتان چھایا رہا،لیکن بھٹو کے وارث کوئی ایک جلسہ بھی نہ کر سکے اور جب انتخابی رزلٹ آئے تو پارٹی کے حصے میں شرمندگی کے سوا کچھ نہیں آیا ۔ بلتستان میں حکومت کے باوجود حالیہ الیکشن میں پارٹی کا صفایا ہو گیا۔شکست اتنی بری کہ ان کا وزیراعلیٰ خود بھی ہار گیا،حالانکہ اس خطے میں پیپلز پارٹی نے اچھے کام بھی کئے خاص طور پر گندم پر سبسڈی اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام جیسے کئی فلاحی پروگرام بھی انجام دےئے ۔اس کے باوجود اتنی بڑی شکست ‘ پارٹی کے کرتے دھرتوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔


منڈی بہاؤ الدین کے ضمنی انتخاب میں بھی پارٹی کی تیسری پوزیشن شرمناک ہے حالانکہ ماضی میں وسطی پنجاب کے اضلاع پیپلز پارٹی کا گڑھ رہے ہیں اور ہمارا ذاتی مشاہدہ ہے کہ ان اضلاع میں پارٹی کے آج بھی بے شمار کارکن موجود ہیں ۔ہاں وہ مایوس ضرور ہیں، لیکن پارٹی سے بغاوت نہیں رکھتے ۔ بڑی سادہ سی بات ہے کہ سیاسی پارٹی وہی ہوتی ہے جو انتخابی عمل میں رہے ، جو پارٹی الیکشن سے باہر ہو جاتی ہے وہ خودبخود عوام سے دور ہو جاتی ہے ۔الیکشن میں ہارجیت بڑی بات ہے ۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ پارٹی نے الیکشن کا حصہ بننا ہی چھوڑ دیا ہے ۔ پنجاب میں جو پیپلز پارٹی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا اور آج بھی صوبہ پنجاب میں شاہد ہی کوئی ایسا انتخابی حلقہ ہو، جس میں پیپلز پارٹی کے کارکن بڑی تعداد میں نہ ہوں،لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ان حلقوں میں کوئی بھی ایسا امیدوار جو پیپلز پارٹی کی متحرک انداز میں ترجمانی کر سکے۔


لاہور جیسے شہر میں پیپلز پارٹی تقریباً اب نہ ہونے کے برابر ہے ۔پارٹی قیادت نے تو یہ بات سوچنا ہی چھوڑ دی ہے کہ وہ پاکستان کے دل سے کبھی کوئی سیٹ جیتنے میں کامیاب ہو سکیں گے۔ حالانکہ گیلانی صاحب کے دور کو دیکھا جائے تو اس میں بہت سارے اچھے کام بھی ہوئے۔ پارلیمنٹ کی بالادستی اور عوامی فلاح وبہبود کے لئے گیلانی دور کے کئی اقدامات انقلابی نوعیت کے تھے جو موجودہ دور حکومت میں بھی جاری ہیں،لیکن کیا وجوہ بنیں کہ پارٹی نے ان اچھی پالیسیوں کے نتائج سے فائدہ نہیں اٹھایااور پارٹی کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرنیوالے کامیاب ہوگئے۔ آج صورت حال یہ ہے کہ پارٹی میں تو زرداری صاحب سب پر بھاری ہیں لیکن عوام میں ہلکے ہو گئے ہیں ۔سیاسی دانشور صحیح کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کو اس کی قیادت نے ختم کر دیا ۔عوامی جماعت کو عوام کے لیڈروں نے عوام سے دور کر دیا ۔بلاول صاحب کبھی آتے ہیں، کبھی جاتے ہیں ،کبھی لگتا ہے کہ شکاری ہیں پھر لگتا ہے کہ اناڑی ہیں ۔ پارٹی کو لیڈ کون کرے گا اس حوالے سے ہر روز نئی خبریں سننے کو ملتی ہیں ۔اس ساری صورتحال میں پارٹی قیادت کو مل کر فیصلہ کرنا ہے کہ کیا عوام نے انہیں چھوڑا ہے یا انہوں نے عوام کو چھوڑ دیا ہے، کیونکہ گڑھی خدا بخش کی مٹی میں سوئے ہوئے پارٹی لیڈروں سے عوام آج بھی بے لوث عقیدت رکھتے ہیں۔ پارٹی قیادت کو اس تعلق کی لاج رکھنی ہے ۔

مزید :

کالم -