ایک کاروباری شخص کی زندگی بہت زیادہ دباؤ کا شکار ہوتی ہے

ایک کاروباری شخص کی زندگی بہت زیادہ دباؤ کا شکار ہوتی ہے

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


ملوں کو قومی تحویل میں لیناسارے پاکستان کے لئے تکلیف دہ تھا: طارق سعید سیگل
کوہ نور میپل لیف گروپ کے چیئرمین طارق سعید سیگل فخر پاکستان ہیں اور ان کا خاندان قیام پاکستان کے وقت سے صنعت و تجارت کے محاذ پر پاکستان کی خدمت کر رہا ہے ۔ 1972سے 1977کے دوران ان کے خاندان کو کاروبار مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور وہ پاکستان سے سعودی عرب چلے گئے جہاں انہوں کاروباری سرگرمیوں کو جاری رکھا ۔
سیگل فیملی نے پاکستان میں ٹیکسٹائل کی صنعت کی بنیاد رکھی اور بعد ازاں یہ فیملی فنانشل سیکٹر، کیمیکلز، سنتھیٹک فائبرز، شوگر، آئل، سول انجنئیرنگ، کنسٹرکشن، سیمنٹ اور انرجی کے شعبوں میں بھی کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکی ہے۔
طارق سعید سیگل نے ابتدائی تعلیم ایچی سن کالج سے حاصل کی اور گورنمنٹ کالج لاہور سے گریجوایشن کے بعد یونیورسٹی لاء کالج لاہور سے قانون کی ڈگری حاصل کی۔خاندانی کاروبار میں شمولیت انہوں نے 1968میں کالا شاہ کاکو کے مقام پر کوہ نور گروپ کے کیمیکل کمپلیکس کی باگ ڈور سنبھال کر کیا۔ 1976میں جب یہ گروپ تین حصوں میں تقسیم ہوا تو وہ کوہ نور ٹیکسٹائل ملز لمیٹڈ راولپنڈی کے چیف ایگزیکٹو مقرر ہو گئے جبکہ 1984سے وہ کوہ نور میپل لیف گروپ کے چیئرمین ہیں اور ٹیکسٹائل کے علاوہ انرجی اور سیمنٹ مینوفیکچرنگ کے شعبے سے بھی وابستہ ہیں۔
1992سے 1994کے درمیانی عرصے میں طارق سعید سیگل آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین رہے۔ 1995سے 1997کے درمیان وہ لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر رہے اور 2003سے 2006کے درمیان آل پاکستان سیمنٹ مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے چیئرمین رہے ہیں۔
طارق سعید سیگل وفاقی ایکسپورٹ پروموشن بیورو اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مرکزی بورڈوں کے ممبر بھی رہے ہیں۔ ممبر اکناملک ایڈوائزری کمیٹی رہنے کے علاوہ وہ مختلف معاملات پر حکومت کی جانب سے بننے والے کمیشن اور کمیٹیوں کے رکن کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے ہیں جن میں برآمدات کے فروغ، واپڈا اور ایکسپورٹ پروموشن بیورو کی تنظیم نو، ریاستی کارپوریشنوں میں رائٹ سائزنگ اور ریسورس موبلائزیشن جیسے معاملات شامل ہیں۔ انہوں نے ٹیکسٹائل وژن 2005بھی تحریر کیا جسے وفاقی حکومت نے 2000میں نافذ العمل کیا ۔
انہوں نے پاکستان میں تعلیم کے فروغ میں بھی گہری دلچسپی لی ہے۔ وہ لمز یعنی لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ سائنسز کے بورڈ آف گورنر کا حصہ ہیں ، چاند باغ فاؤنڈیشن کے فاؤنڈر چیئرمین ہیں، ٹیکسٹائل یونیورسٹی کے فاؤنڈر ٹرسٹی ہیں، یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کے سنڈیکیٹ ممبر ہیں اور ایچی سن کالج کے بورڈ آف گورنر ز میں شامل ہیں۔ انہیں 2006میں صدر پاکستان کی جانب سے ستارہ امتیاز سے نوازا گیا تھا۔
طارق سعید سیگل گالف کے بہترین کھلاڑی ہیں اور 1967میں سری لنکا میں گالف چمپئین شپ میں پاکستان کی نمائندگی کر چکے ہیں۔
سیگل فیملی کے تاریخی پس منظر پر نظر دوڑائیے تو پتہ چلتا ہے کہ اس فیملی کے جد امجد امین سیگل تھے جو ضلع جہلم کے قریب ایک گاؤں کھوتیاں، جس کانام اب بدل کر سیگل آباد رکھ دیا گیا ہے، میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1890میں کلکتہ ہجرت کی جہاں انہوں نے جوتوں کی دکان کھولی اورکاروباری سرگرمیوں کا آغاز کیا ،1938میں بہارر بڑ ورکس کے نام سے کاروبار کو بڑھاوا دیا جو بعد ازاں کوہ نورر بڑ ورکس کے نام سے مشہور ہوا۔ امین سیگل کے چار بیٹے تھے جن کے نام یوسف سیگل، بشیر سیگل، سعید سیگل اور اور گل سیگل تھا۔ 1947 میں یوسف، بشیر اور سعید پاکستان آگئے جبکہ یوسف سیگل بھارت میں رہے اور کاروبار کی دیکھ بھال کرتے رہے تاہم 1965کی جنگ میں ان کی فیکٹری کو ہندوستانی حکومت نے دشمن کی جائیداد ڈکلیئر کردیا۔ پاکستان میں سیگل فیملی وطن عزیز کی نشوونما کے ساتھ ترقی کی اور ہر بڑے شعبے میں فیکٹری کے بعد فیکٹری اور انڈسٹری کے بعد انڈسٹری لگتی چلی گئی۔ سیگل فیملی نے 1959میں یونائٹڈ بینک کی بنیاد رکھی اور 1974میں جب یہ بینک قومیایا گیا تو اس وقت اس کی 668مقامی اور 31بین الاقوامی شاخیں رو بہ عمل تھیں۔ اس سے قبل 1971میں کالا شاہ کاکو میں قائم پانچوں یونٹ بھی بھٹو حکومت کی جانب سے قومیائے گئے تھے۔ سیگل فیملی کے مطابق بھٹو کی نیشلائزیشن کی پالیسی کی وجہ سے ان کے 70فیصد کاروباری اثاثے ضائع ہو گئے تھے۔صرف ٹیکسٹائل ملوں کا شعبہ ایسا تھا جو اس خوردبرد سے محفوظ رہا ۔ البتہ چونکہ پیپلز پارٹی کے منشور میں بڑے ٹیکسٹائل یونٹ نیشنلائز کرنے کی بات بھی کی گئی تھی اس لئے فیملی نے بھٹو کے چھ سالہ دور حکومت میں مزید سرمایہ کاری نہیں کی۔کاروباری اثاثوں کو بچانے کے لئے 1976میں سیگل فیملی نے بڑوں کے اثاثوں کو پندرہ وارثان میں تقسیم کرلیا تاکہ وہ ادارے قومیائے جانے سے محفوظ رہ سکیں۔
اس وقت کو یاد کرتے ہوئے طارق سعید سیگل کہتے ہیں بھٹو کی جانب سے ملوں کو قومی تحویل میں لینے کا عمل سارے پاکستان کے لئے بہت تکلیف دہ تھا، خاص طور پر سیگل فیملی کے لئے جنھیں اپنے بعض اثاثہ جات چھوڑنا پڑے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے جب کاروبار میں قدم رکھا تو اس شرط پر کہ وہ اس سیٹھ کلچر کا حصہ نہیں بنیں گے جو عمومی طور پر اس وقت کا عام چلن تھا۔ اس لئے جب انہوں نے آفس جوائن کیا تو کمپنی کے جی ایم کی جانب سے انہیں تاخیر سے پہنچنے پر نوٹس ملا کرتے تھے۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ ایک کاروباری شخص کی زندگی بہت زیادہ دباؤ کا شکار ہوتی ہے ۔ 43برس کی عمر میں انہیں جب پہلا اٹیک ہوا تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ آسان زندگی بسر کریں گے۔ تاہم بزنس کمیونٹی کی خدمت ان کی اولین ترجیح رہی ہے ۔ اسی لئے ان کے علاوہ کوئی اور بزنس مین آج تک دوبار لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کا صدر منتخب نہیں ہوا۔
وہ کہتے ہیں کہ اکنامک ایڈوائزری کونسل کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ کسی حکومتی یا کاروباری عہدے کو قبول نہیں کریں گے۔ ان کا یہ بھی ماننا ہے کہ 2013میں نواز شریف کے انتخاب سے لوگوں میں امید پیدا ہوئی تھی کیونکہ اس وقت ملک کے حالات انتہائی دگرگوں تھے۔ البتہ 2018کے انتخابات کے حوالے سے وہ کہتے ہیں کہ صورت حال کافی دلچسپ ہوگی۔ 2013میں لوگوں کا مینڈیٹ بہت واضح تھا کہ وہ معاملات کی مینجمنٹ چاہتے تھے کیونکہ ان سے پہلے والوں نے پرفارم نہیں کیا تھا۔
طارق سعید سیگل کہتے ہیں کہ اپنے آپ پر اعتماد، بھرپور کمٹمنٹ اور کچھ کر گزرنے کی دھن انسان سے بہت کچھ کرواتی ہے اور کسی بھی کامیابی کا مرکزی نقطہ ہوتی ہے اور یہ فارمولہ کسی بھی صورت حال میں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

مزید :

ایڈیشن 2 -