میرے بچوں، جوانوں کو بچاؤ
بچے کسی بھی قوم کا مستقبل ہوتے ہیں اگر آج ہم اپنے بچوں کی حفاظت کریں گے، ان کی بہتر تربیت کریں گے، ان کو بہتر تعلیم فراہم کریں گے، انہیں نظم و ضبط سکھائیں گے اور ایک اچھا شہری بنائیں گے تو کل ہمارا معاشرہ ہماری ان کوششوں کی وجہ سے ایک ایسا معاشرہ بن پائے گا جہاں " آئین و قانون " کی پابندی کرنے والے شہری بستے ہوں گے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ آج " ہمارے ہی ہاتھوں " ہمارے اپنے " بچے اور جوان " محفوظ نہیں ہیں۔ خیر یہ " ہمارے ہاتھ " کہنا اچھا نہیں لگ رہا کیونکہ جو بچوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں بلکہ جو بچوں کو نقصان اور جوانوں کو اس دنیا سے رخصت کر رہے ہیں وہ ہم میں سے نہیں ہو سکتے۔ بچوں کو پیدا ہوتے ہی " مستقبل کی بڑی بڑی بیماریوں " سے محفوظ رکھنے کے لیے کچھ ٹیکے لگوانا لازم ہوتا ہے جس میں ایک دوا پولیو کے قطرے بھی ہیں۔ لیکن یہ پولیو کے قطرے پلانا کچھ لوگوں نے پاکستان کے لیے دوسرا " کالا باغ ڈیم " بنا دیا ہے جس طرح ہمارے پختون اور سندھی بھائیوں کے ذہن میں یہ راسخ کر دیا گیا ہے کہ کالا باغ ڈیم ان کے مفاد میں نہیں ہے اور اس کی تعمیر کا مقصد صرف اور صرف پنجاب کو فائدہ پہنچانا ہے خیر یہ جملہ معترضہ تھا۔ لیکن پولیو کوئی " کالا باغ ڈیم " تو نہیں جو سندھ کا پانی روک لے گا اور خیبرپختونخوا کو ڈبو دے گا یہ تو ایک ایسا " ڈیم یا بند " ہے جو بچوں کو معذوری اور بیماریوں سے بچانے کے لیے باندھا جاتا ہے لیکن " کچھ لوگوں کو " خدا جانے کیوں اس بند کو باندھنے پر اس بند کی تعمیر پر اعتراض ہے۔ ہم اپنے ان بچوں کو محفوظ رکھنے کیلئے جن جوانوں کو " میدان " میں اتارتے ہیں یا جو جوان " دوسروں کے بچوں " کو پولیو سے محفوظ رکھنے کیلیے نکلتے ہیں نہیں سرعام گولیوں کا نشانہ بنا دیا جاتا ہے۔ " قاتل " یہ بھی نہیں سوچتے کہ " یہ لوگ " ہمارے بچوں کو ایک ایسے مستقبل سے بچانے کے لیے آئے ہیں کہ جس میں بچہ زندگی کی دوڑ میں حصہ لینے کے قابل نہیں رہتا۔ دوڑنا کیا صحیح طرح چلنے کے قابل نہیں رہتا۔ بیساکھی پر چلتا ایک بچہ یا نوجوان کیا مقابلہ کرے گا، کیا لڑے گا لیکن ہمیں یہ سمجھ ہی نہیں اتی " ہم " ہیں کہ اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے " سخت گرمی سخت سردی " میں پولیو ویکسین کے قطروں کا بیگ اٹھا کر نکلنے والے نوجوان لڑکے لڑکیوں اور ان کی حفاظت پر مامور پولیس اہلکاروں کو گولیوں کا نشانہ بناتے ہیں پتہ نہیں ہمیں خون کا سرخ رنگ کیوں اتنا پسند ہے۔ پاکستان میں " سرخوں " کو ہمیشہ برا بھلا کہا جاتا تھا اور ہے۔ انہیں کمیونسٹ نہیں کہا جاتا سوشلسٹ نہیں کہا جاتا تھا بلکہ سرخے کہا جاتا تھا کیونکہ ہم خود مسلمان تھے اور " سبز " تھے۔ سرحدی گاندھی جناب عبدالغفار خان، ان کے صاحبزادے عبدالولی خان، ان کے صاحبزادیاسفندیار ولی خان اور ان کے صاحبزادے ایمل ولی خان کی پارٹی سرخ پوش پارٹی کہلاتی ہے (اور یہ پشتون بھی ہیں)۔ یہ سب لوگ سرخ رنگ کی ٹوپی استعمال کرتے ہیں یہ پاکستان کے " بچے کھچے سرخے" ہیں ورنہ ایک زمانے میں تو جناب فیض احمد فیض، جناب شیخ رشید (پیپلز پارٹی والے) جناب معراج محمد خان, جناب مختار رانا، جناب جے اے رحیم اور " دیگر سرخے " یعنی کمیونسٹ رہنما پاکستان میں " سرگرم " رہے۔ ان نامور شخصیات کی " سرخیاں " اب کمیونسٹ اور سوشلزم کی سرخی کی بجائے ہمارے " بچوں اور نوجوانوں " کے خون کی سرخی میں بدل چکی ہیں. وہ خون جو گلیوں بازاروں میں اسلئے بہایا جاتا ہے تاکہ کل کو ہماری آنے والی نسل لولی لنگڑی ہو، زمین پر قدم جما کر کھڑی نہ ہو سکتی ہو، زندگی کی دوڑ میں دوڑنے کے قابل نہ ہو۔ 100 میٹر کیا چند میٹر بھی چل نہ سکتی ہو اور اس مقصد کیلئے ہمارے بچوں کو پولیو کے قطروں سے محروم رکھنے کے لیے پولیو ٹیموں پر گولیوں کی بارش کی جاتی ہے۔
اس سال اب تک صرف خیبرپختونخوا میں پولیو ٹیموں پر ہونے والے 15 حملوں میں 13 پولیس اہلکار شہید ہو چکے ہیں۔ بنوں میں پولیو ٹیموں پر 4، باجوڑ اور ٹانک میں 3۔ 3 قاتلانہ حملے ہو چکے ہیں۔ اکیلے باجوڑ ضلع میں نو شہید اور 30 زخمی ہوئے ہیں۔ گزشتہ سال مارچ میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ پاکستان میں اب تک 200 پولیو ورکر (جن میں پولیو قطرے پلانے والے اور پولیس اہلکار دونوں شامل ہیں) ان دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید کئے جا چکے ہیں جو پاکستانی قوم کے بچوں کو صحت مند توانا دیکھنا پسند نہیں کرتے۔ مارچ 2023 سے لے کر دسمبر تک یعنی نو مہینے میں اور کتنا خون بہا یہ الگ ہے۔ خون مسلم اتنا ارزاں کیوں ہوگیا۔ کیونکہ جس کا خون بہایا جا رہا ہے وہ بھی مسلمان ہے اور جو خون بہا رہا ہے وہ بھی مسلمان ہے۔ مرنے والا اور مارنے والا دونوں مسلمان ہیں۔
گورنمنٹ یہ کہتی ہے کہ پشتونوں میں یہ بات پھیلا دی گئی ہے کہ یہ قطرے ان کے بچے کے لیے " نقصان دہ " ہیں۔ کیسا ظلم ہے کہ بچے کو قطرے پلا دئیے جائیں تو اس کی زندگی محفوظ ہو جاتی ہے لیکن یہ قطرے نہ پلوا کے وہ بچہ دو یا تین سال میں ایک معذور اور معاشرے سے زیادہ اپنے گھر والوں پر بوجھ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ تو اس وقت یہ کسی کو نظر نہیں آتا کوئی نہیں سوچتا کہ یہ قطرے نہ پلوانے کا نتیجہ ہے کہ بچہ دوسرے بچوں سے پیچھے رہ گیا ہے۔ خدا جانے کون لوگ ہیں جن کے دماغ اور آنکھیں ایسے بند کر دی گئی ہیں کہ انہیں نہ نظر آتا نہ سمجھ آتی ہے۔ کہتے ہیں کہ پروپیگنڈا ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعے آپ ناممکن کو بھی ممکن بنا سکتے ہیں۔ پولیو کے خلاف چلائی دشمنوں کی یہ پروپیگنڈا مہم پراپیگنڈہ کی کامیابی کی بہترین مثال ہے کہ آج ہمارے پشتون بھائی یہ بات ماننے کو تیار نہیں کہ ان کے بچوں کے لیے یہ قطرے کتنے لازم ہیں۔ وہ یہ قطرے پلوانے سے انکار کر دیتے ہیں، دروازہ نہیں کھولتے، لڑ پڑتے ہیں۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں ہر گھر میں اسلحہ یعنی ریوالور اور بندوق نہیں بلکہ ڈھیروں اسلحہ ہوتا ہے وہاں کون کسی کے ساتھ زبردستی کر سکتا ہے۔ اس کے باوجود بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے روکنے کے لیے قطرے پلانے کے لیے جانے والے رضاکاروں کی زندگیاں چھین لی جاتی ہیں۔ حکومت ٹیلی ویڑن پر مہم چلاتی ہے کہ بچوں کو قطرے پلانا بہت ضروری ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ ہم اس مسئلہ پر ڈور ٹو ڈور مہم کیوں نہیں چلاتے۔ کیوں ہمارے معاشرے کے اچھے لوگ آگے بڑھ کے اس مہم کو سنبھال نہیں لیتے۔ ہر محلے میں کوئی نہ کوئی تو شریف اور سمجھدار بندہ ہوتا ہے جو اپنے ارد گرد کے رہنے والوں کو متاثر کرتا ہے۔ یہ بات ان کے دماغ میں بٹھا سکتا ہے کہ یہ قطرے ان کے بچوں کے مستقبل کیلئے کتنا ضروری ہیں۔ کاش یہ بات ہم جلدی سمجھ جائیں اور اپنے بچے بچا لیں۔ پھر یہ قطرے پلانے کی ڈور ٹو ڈور مہم چلانے کی ضرورت نہ رہے ماں باپ خود جا کر اپنے بچوں کو یہ قطرے ہسپتال یا ڈسپنسری سے پلوائیں کاش وہ وقت جلدی آجائے۔