ریڈرز ڈائجسٹ کا تعزیت نامہ 

    ریڈرز ڈائجسٹ کا تعزیت نامہ 
    ریڈرز ڈائجسٹ کا تعزیت نامہ 

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

گیارہ سال قبل امریکی جریدے نیوز وِیک نے ای ایڈیشن کے حق میں پرنٹ کا جامہء صد چاک اُتارا تو اِس پر قارئین کتابوں اور رسالوں کے مستقبل کے بارے میں شدید بے چینی کا شکار ہوئے تھے۔ اب 1922 ء میں جاری ہونے والے ریڈرز ڈائجسٹ کے برطانوی ایڈیشن کا ’دھیانت‘ اِس کالم نگار کے لیے ایک ذاتی صدمے سے کم نہیں۔ صدمہ یوں کہ ابتدائی بچپن میں اِس مقبول ماہنامے سے (صفحات پھاڑے بغیر) کھیلنے کی اجازت ملنے پر جو خوشی ہوئی وہ بیان سے باہر ہے۔ اِتنی سمجھ تو نہیں تھی کہ ’ہیومر اِن یونیفارم‘ اور ’لائف از لائیک دیٹ‘ کے مزاح کو پرکھ سکتے۔ ہاں، رنگین اور کھردرے اوراق کی خوشبو کا فرق واضح طور پر محسوس ہوا تھا اور تصویری خاکوں کے بھی کچھ خفیہ سے نام ایجاد کر لیے تھے، جیسے ’لم ڈھینگ، لالچی، ٹِنگ ٹار، جس جار‘ وغیرہ۔

 پھر کسی سرکاری کھاتے میں اردو کے تین، اور انگریزی کے چار روزنامے خود بخود گھر پہنچنے لگے۔ صبحدم ہاکر کی لمبی گھنٹی کے ساتھ، جو سائیکل کے اگلے پہیے میں نصب ہوتی، نوائے وقت، کوہستان اور روزنامہ تعمیر ملا کرتا جس کے نیوز ایجنٹ کی دکان پر لکھا تھا ’عبوری دارالحکومت کا سب سے قدیم اور مقبول عام اخبار‘۔ ساتھ ہی پاکستان ٹائمز آ جاتا جس کی راولپنڈی سے تازہ اشاعت جنرل ایوب خان کے کامیاب شب خون کا تحفہ تھی۔ بذریعہ ہوائی جہاز کراچی سے پہنچنے والے اخبار ات تھے مارننگ نیوز اور ڈان جس کے اداریہ کے اوپر درج ہوتا ’باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم‘۔ یاد نہیں کہ یہ شعر ایڈیٹر الطاف حسین کے وزیر صنعت بننے پر ترک کیا گیا یا اِس سے پہلے۔ پر میری زبان سے بغیر سوچے سمجھے نکلا کہ لگتا ہے اب اِنہوں نے باطل سے دبنا شروع کر دیا ہے۔

 دوپہر ڈھائی بجے ٹیبلائڈ سائز والا لاہور کا سول اینڈ ملٹری گزٹ بھی کھٹ سے دہلیز کے اِس طرف آ گرتا تھا۔ بیچ میں یہ اخبار چند مہینوں کے لیے معطل ہوا اور پھر مستقل بند ہو گیا۔ اس مرحلے پر ابا کی زبانی، جو مذکورہ روزنامہ کے بند ہو جانے پر مضطرب تھے، معروف برطانوی صحافی اور شاعر ریڈیارڈ کپلنگ کا نام سننے کو ملا۔ یہ بھی پتا چلا کہ یہ اخبار نوے سال سے زائد عرصہ تک شائع ہوتا رہا ہے۔ اُس وقت شعور نہیں تھا کہ روزانہ یا ہفتہ وار مطبوعات کی اشاعت کیوں روکی جاتی ہے۔ نہ یہ کہ سول اینڈ ملٹری گزٹ کا ’گل گھوٹو‘ کن مصلحتوں کے تابع ہے اور اِس سے پہلے پاکستان ٹائمز یا امروز سے کونسا جرم سر زد ہوا؟ 

 تب آئی فون، چیٹ جی پی ٹی یا جدید مصنوعی ذہانت کے نہ ہوتے ہوئے ہم بچہ لوگ فراغت میں ریڈیو سُنتے یا اخباروں کا موازنہ کرتے رہتے۔ پھر بھی ثانوی جماعتوں میں اساتذہ کے زیرِ نگرانی اسکول میگزین کے لیے پیلے کاغذوں کی کتابت چیک کرنے سے پہلے پُر اسرار کتب بینی کا ایک مرحلہ اور بھی آیا۔ یہ نہیں کہ کوئی ممنوعہ کتابیں ہاتھ لگ گئیں یا ایسا لٹریچر جس میں سونا بنانے کے کیمیائی نسخے درج تھے۔ نہیں، بس گرمی کی چھٹیوں میں سیالکوٹ والے اُس کمرے میں وقت گزارنے کا چسکا لگ گیا جس کی دیوار کے نیچے مقامی دیو مالا کے مطابق ایک ’بابا جی‘ قیام پذیر تھے۔ جمعرات کی شب کمرے میں موم بتی جلائی جاتی تو ہم اندر جانے کی ہمت نہ کرتے۔ ایک دوپہر البتہ بوریت دُور کرنے کے لیے مَیں نے پہلی بار بھائی کی مدد سے چار ٹانگوں پر کھڑی کالی الماری کے پٹ کھول دیے۔

 اب جو خانوں میں جھانکا تو پہلے ایک بڑا سا پرانے فیشن کا تین تین رسیوں والا ترازو برآمد ہوا۔ ساتھ ہی سیر، دو سیر، بیس سیر اور ایک ایک من کے سرکاری مہر والے باٹ، حجم کے پیمانے اور زرعی اوزار جنہیں شہر میں استعمال ہوتے نہیں دیکھا تھا۔ یہ ہے نچلی دراز۔ بالائی خانے ٹٹولے تو کچھ نہ پوچھیے کہ کیسے کیسے نوادرات نکلے ہیں۔ اول نمبر پر قیامِ پاکستان کے بعد تک کی نصابی کتاب ’سرمایہء اردو‘ پھر ’روحِ ادب‘، ’سخندانِ فارس‘، ’دربارِ اکبری‘، قرآن پاک کا محمد مرماڈیوک پکتھال والا ترجمہ، چند انگریزی ناول، شارٹ سٹوری کے مجموعے، ایک کتاب ’پریس، پیپل اینڈ پارلیمنٹ‘، کئی ڈکشنریاں اور دیگر ادبی مواد۔ فرحت اللہ بیگ کی جاڑا، گرمی اور برسات، پھر خواجہ سگ پرست کی کہانی، داروغہ جی کی پانچوں گھی میں، ’پطرس کے مضامین‘ اور جگنو میاں کی دم نے زیادہ مزا دیا۔ 

 چھٹیوں کے دوران کسی نے نہ سوچا کہ دونوں لڑکے نیلگوں ’بانگ درا‘ اور گہری سبز جلد والے ’مکاتیب غالب‘ میں ساری ساری دوپہر کیا ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ اقبال کے کئی شعر سمجھ میں نہ آتے، نہ پتا چلتا کہ ’ماخوذ از ایمرسن‘ یا ’ماخوذ از لانگ فیلو‘ سے کیا مراد ہے۔ پر وہ جو صوتی آہنگ کے مزے ہوا کرتے ہیں اور لفظوں سے تصویریں بنتی ہیں، یہ کھیل تو قاری اپنے ہی ذہن میں کھیلتا ہے۔ دیکھیے نا، اگر ’ایک آرزو‘ پڑھتے ہوئے ’نغمے کی شورشوں میں باجا سا بج رہا ہو‘ اور مغلیہ عہد کا واہ گارڈن اِس باجے کی لہروں پر ہولے ہولے آپ کے سامنے تھرکنے لگے تو اِس ’لائیو شو‘ کے بعد انسان کو اور کیا چاہیے۔ پھر، جس تیرتھ کو دیکھ کر ’نیا شوالہ‘ شعر کے افق پر طلوع ہوا ہوگا، اگر ’کالی الماری‘ سے اُس کی مسافت صرف چار سو قدم ہے تو الفاظ و معانی میں کتنا فاصلہ رہا؟

 جیسا کہ شخصی خاکوں کے مجموعے ’چاند چہرے‘ میں انکشاف کیا تھا، ہم نے علامہ کے ساتھ ایک چالاکی اور بھی کی۔ ’پرندے کی فریاد‘ اور ’ماں کا خواب‘ گُنگنانے میں آسان لگیں۔ ’بچے کی دعا‘ کے لیے، جسے سب ’لپّے آتی‘ کہتے‘ ریڈیو پاکستان کی موہنی حمید ہی کافی تھیں۔ ’تصویر درد‘ اور ’طلوع اسلام‘ میں ’نہیں منت کشِ تاب شنیدن‘ اور ’دلیل صبح روشن ہے‘ کا ترنم سیٹ کرنے میں حفیظ جالندھری کام آئے۔ اب آپ اِسے سرقہ، توارد یا پلیجر ازم کہہ لیں، لیکن چند نظموں کے لیے ہم نے محمد رفیع اور لتا منگیشکر سے براہِ راست رجوع کر لیا تھا۔ رمضان میں جگانے والے جس طرح فلمی دھنوں کو حلقہ بگوش اسلام کرتے ہیں، وہی کاپی پیسٹ تکنیک ہم نے اپنائی۔ سو ’ہمالہ‘ کے لیے ’آپ کی نظروں نے سمجھا‘ اور ’شمع اور شاعر‘ کے لیے ’مَیں نے چاند اور ستاروں کی تمنا کی تھی‘۔ 

 گیار ہ سال پہلے نیوز وِیک کا کاغذی پیرہن ادھڑنے اور اب ریڈرز ڈائجسٹ کے برطانوی ’کریا کرم‘ پر میڈیکل سائنس کی اصطلاح میں مجھے اخبارات، رسائل اور کتابوں کا ’پروگ نوسس‘ حوصلہ شکن دکھائی دیتا ہے۔ پھر سوچتا ہوں کہ ہماری نسل نے کلک کو چھوڑ کر موٹی اور پتلی نب والے ہولڈر تھامے۔ پھر فاؤنٹین پین پھینک کر بال پوائنٹ سے لکھنا شروع کر دیا۔ اب تیز ٹائپنگ کی خاطر اعراب سے چھٹکارا مِل گیا ہے اور ہم عربی دو زبر کی جگہ ’مثال کے طور پر‘، ’اصولی لحاظ سے‘ اور ’یقین ہے‘ لکھتے ہیں۔ ہے تو یہ ایک طرح سہولت۔ مگر کیا نئی ٹیکنالوجی میرے اسلوب کو محدود اور میری فکری آزادی کو مشروط نہیں کر رہی؟ اب قلم کے بعد کتاب کا نمبر ہے۔ چنانچہ یہی کرنا ہو گا کہ بابا جی کے کمرے میں جو پُر اسرار الماری کبھی زور لگا کر شوق سے کھولی تھی اُسے دوبارہ تالہ لگا دیا جائے۔ 

مزید :

رائے -کالم -