انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 15

انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 15
انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 15

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

13 سالہ نیپالی میرا نے بتایا کہ اسے ممبئی میں گھر میں کام کرنے کے لئے لایا گیا لیکن وہ اس شہر کے فاک لینڈ روڈ پر واقع قحبہ خانے میں پہنچ گئی جہاں ہزاروں جوان لڑکیاں قطاروں میں اس طرح کھڑی تھیں جیسے چڑیا گھر میں پنجروں میں بند جانور کھڑے ہوتے ہیں۔ اس کے والد کو ایک سمگلر نے باتوں میں لا کر میرا کو اپنے ساتھ لیا اور قحبہ خانے پہنچ گئے۔ قحبہ خانے میں جب میرا نے اجنبی مرد کے ساتھ ’’ملنے‘‘ سے انکار کیا تو اسے گھسیٹ کر ایک چھوٹے سے تاریک کمرے میں لے جایاگیا جہاں نئی لڑکیوں کو ان کا ’’مستقبل‘‘ بتایا جاتا ہے۔ میرا کو بھی اس تنگ اور بغیر کھڑکی کے کمرے میں بند کر دیا گیا جہاں اسے بغیر کچھ کھائے پیئے تین دنوں تک بند رکھا گیا۔چوتھے دن قحبہ خانے کی نائیکہ کے غنڈے نے کمرے میں آکر اسے فرش پر گرا دیا۔ اس غنڈے نے میرا کا سر کنکریٹ کی دیوار کے ساتھ پٹخنا شروع کیا اور وہ بے ہوش ہو گئی۔ بعد ازاں اس غنڈے نے اس کے ساتھ زبردستی جنسی زیادتی کی۔ اس کے بعد میرا نے ان کے تمام مطالبات پر عمل کرنا شروع کر دیا۔ قحبہ خانے کی انچارج نے اسے بتایا کہ وہ 50 ہزار روپے میں فروخت ہوئی تھی۔ اس لئے اسے رقم (50 ہزار) کی ادائیگی تک وہاں کام کرنا پڑے گا۔ میرا کو پھر ایک شخص کے ہاں فروخت کر دیا گیا جو اس کا دلال بن گیا۔
1982ء میں کھٹمنڈو سے اغواء ہونے والی 13 سالہ تُلاسہ کو ممبئی میں فروخت کر دیا گیا۔ اسے یورپی لباس پہنا کر لگژری ہوٹلوں میں عرب مہمانوں کو پیش کیا جاتا تھا۔ ایک دن ہوٹل کے منیجر نے پولیس کو فون کر کے اسے گرفتار کروا دیا۔ پولیس نے اس کا طبی معائنہ کروایا تو معلوم ہوا کہ اسے تین قسم کی وبائی امراض اور ٹی بی لاحق ہو چکی ہیں۔ یاد رہے کہ انسانی سمگلنگ کے یو این کنونشن جس میں جنسی استحصال، غلامی کے خاتمے، غلاموں کی تجارت اور اس کے اداروں کے خاتمے کے لئے سارک ممالک کی اکثریت نے دستخط کئے ہوئے ہیں ان میں بنگلہ دیش، انڈیا، پاکستان اور سری لنکا شامل ہیں۔ اس کے باوجود انڈیا میں غلامی اور عورتوں کا جنسی استحصال جاری ہے۔

انسانی سمگلنگ ۔۔۔ خوفناک حقائق ... قسط نمبر 14پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں
جسم فروشی ، غیر سرکاری تنظیموں کا کردار اور حکومتی اقدامات
’’کر ناٹک اسٹیٹ کمیشن برائے خواتین ‘‘نے انسانی سمگلنگ کے ایک بہت بڑے نیٹ ورک کا کھوج لگایا جو پسماندہ اور غریب اضلاع سے 12 سے 18سال کی لڑکیاں سمگل کرکے گو وہ کے قحبہ خانوں کے ہا ں فروخت کرتا تھا۔ قحبہ خانوں کے ایجنٹ لڑکیوں کے والدین کو غلط ایڈریس بتاکر ان کو ممبئی اور کولکتہ لے جاتے ہیں ۔ خصوصاً نیپالی لڑکیوں کا استحصال کبھی ختم نہیں ہوتا ۔ تا ہم کچھ کے لیے یہ آسانی سے پیسے کمانے کا دھندہ ہے او ر کچھ کے لیے سوائے اس کے انسداد کی ترغیب دینے کے کچھ بھی نہیں۔ ’ ’ نیشنل نیٹ ورک گروپس اینٹی ٹرفیکنگ ‘‘ کی چیئر پرسن درگاغیمائر کا کہنا ہے کہ’’اب انسانی سمگلنگ کے نیٹ ور کس کو مانیٹر کیا جاسکتاہے اور اس کے حجم کو کم کیا جاسکتا ہے ۔ وہ مزید کہتی ہیں کہ خواتین کی کم شرح خواندگی اور نیپال میں لڑکی کو کم درجے کی اولاد سمجھنے کی روایت کے انسداد سے ہی اس مسئلے کو حل کیاجاسکتا ہے۔ بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک مر کز کے کارکن گوری پردھان کا کہنا ہے کہ دونو ں (نیپال اور انڈیا )حکومتوں کو اس مسئلہ پرقابو پانے کے لیے مل بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ (نیپال میں )کھٹمنڈومیں بہت سی غیر سرکاری تنظیمیں انسانی سمگلنگ کے خلاف اور انڈین ا یجنٹو ں کے ہاتھ لگنے سے بچ جانے والی لڑکیوں کے تحفظ اور بحالی کے لیے کام کررہی ہیں۔یہ کوئی آسان کام نہیں، ایجنٹوں سے بچ جانے والی لڑکیوں کے سر پر ست اور رشتہ دار عام طو ر پر ان کو واپس نہیں لانا چاہتے جبکہ نیپالی حکومت ان کے ذریعے پھیلنے والے ایچ آئی وی ایڈز کے وائرس سے پریشان ہے ۔ کیونکہ انڈیا میں غلامی کی زندگی گذارنے والی لاتعداد عورتوں کو ایڈز کا سامنا ہے۔ اس وقت انڈیا میں تقریباً 1 کروڑ(10 ملین )جسم فروش عورتیں ہیں۔ ان میں سے ایشیاء کے سب سے بڑے مر کز ممبئی میں ایک لاکھ سے زائد ایسی عورتیں اذیت ناک زندگی گذاررہی ہیں ۔ صرف گووہ میں ’’با ینا‘‘کے ساحل کے ساتھ ساتھ قحبہ خانوں میں 20ہزار سے زائد عورتیں جسم فروشی کے ذریعے سیاحوں کی تفریح کو دوبالا کرنے میں مصروف ہیں ۔ 23 اگست 1997کی ’’روز نامہ لند ن‘‘کی ایک رپورٹ کے مطابق انڈیا میں جسم فروشی میں5لاکھ بچے ملوث ہیں ۔ اسی طرح ’’نیپال انڈیا نیوز‘‘کے 27 جنوری 1997 کے ایڈیشن میں ’’نیپال کی گمشدہ لڑکیاں اور انڈیا کا ٹھوس مال ‘‘کے عنوان سے شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ’’جو مر د ا س با ت پر یقین رکھتے ہیں کہ کنواری اور کمسن لڑکی کے ساتھ جنسی عمل کرنے سے ایڈز اور دیگر و بائی امراض کا علاج کیا جا سکتا ہے وہ درااصل چھوٹی لڑکیوں کو سیکس انڈسٹری میں لانے پر مجبوکر تے ہیں ۔ ‘‘اس خوفنا ک صورتحال کا اندازہ لگانے کے لیے مذکورہ بالا حوالہ ایک مستند ذریعہ سمجھا جاتاہے۔ سات سال کی لڑکیوں کا اس انڈسٹری میں شامل ہونا حیران کن تصور نہیں کیا جاتا اور نہ ہی ان کو کم عمر خیا ل کیا جاتاہے ۔ ممبئی میں2لاکھ لڑکیا ں ایسی ہیں جن کی عمر یں 18سال سے کم ہیں ۔ یہ تعداد کل جسم فروش عورتوں کی 20 فیصد کے برابر ہے ۔ہر روز 200لڑکیا ں صرف ممبئی میں قحبہ خانوں کی زینت بنتی ہیں۔ ان میں سے80فیصد کو ان کی مرضی کے خلاف یہاں لایا جاتاہے۔
بیلگوائم ، بیجاپور ، اور کو لہا پور کے اضلاع سے عورتوں کو یا توسمگلنگ کے منظم نیٹ ورک کے ذریعے یا سماجی و معاشی عوامل کے ہاتھوں مجبو ر ہو کر شہروں کی طرف ہجرت کرنا پڑ تی ہے۔ بنگلور ان پانچ بڑے شہروں میں سے ایک ہے جہا ں انڈیا کے جسم فروش بچوں کی 80فیصد تعداد پائی جاتی ہے۔ ’’دی نیشن ،18 اپریل 1996کے مضمون انڈیا کی بدنامی ‘‘ کے تحت رابرٹ، فرائیڈمین ’’جنسی غلامی اور سیاسی بد عنوانی ایڈز کے آشوب کا پیش خیمہ ‘‘میں یوں اقمطراز ہیں کہ ممبئی میں قیام پذیر ایک لاکھ جسم فروش عورتوں میں سے 90فیصد کو موسیقی کا فن سکھانے کے بہانے شاگردی کے معاہدے کے تحت رکھا جاتاہے۔ اسی طرح رائٹرز 29جولائی 1998میں ’’قانونی مرتبے کے مطالبے کے لیے ایشیا ئی جسم فروشوں کا اجتماع ‘‘کے عنوان سے شائع ہونے والی رپورٹ میں درج ہے کہ انڈیا جہاں ایڈز کے پھیلاؤ کے سائے خوفناک حدتک بڑھتے جارہے ہیں اور چھوٹی لڑکیوں کو اغواکرکے جسم فروشی پر مجبو رکیا جاتا ہے ،میں یہ ’’کاروبار ‘‘ترقی کر رہاہے۔ ان لڑکیوں کو جبری قرضوں کے حصول کے لیے 15سال تک قحبہ خانوں میں روک کر رکھا جاتا ہے ۔ یعنی ان کی آزادی کو خرید لیا جاتا ہے ۔ ان جسم فروش عورتوں کے بچوں کے ساتھ بھی جنسی زیادتی کی جاتی ہے ۔ بچوں کو مردوں کے لیے ڈانس کرنے،گانے اور جنسی ’خدمات ‘ فراہم کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ’’ایشیاء پسیفک ‘‘1997ء میں’’عورتوں کی جسم فروشی اور سمگلنگ ‘‘کے عنوان سے شائع ہونے والے مضمون میں لکھا ہے کہ ’’انڈیا کے ایک ہزار ریڈ اضلاع میں بند پنجروں میں قید جسم فروشوں میں اکثریت کم عمروں کی ہے جن کا تعلق نیپال اور بنگلہ دیش سے ہے۔‘‘ممبئی میں جسم فروش عورتوں کے بچوں کی 90فیصد تعداد اس ’’کاروبار‘‘میں لگی ہوئی ہے۔ایسے ہی ایک بچے کو جو کئی با ر فروخت ہو اور اسے جنسی بد سلوکی کا سامنا کرنا پڑا تو اس نے خواجہ سرا بننے کا فیصلہ کر لیا ۔ اس کی ماں کے خریدارنے بھی متعدد با ر اس سے جنسی بد فعلی کا ارتکاب کیا تھا ۔ اس کے لیے یہی سب کچھ زندگی تھا ۔ اسے مذہبی رسم کے طور پر خصی (نا مرد) کردیاگیا ۔ انڈیا میں عورتوں کو جسم فروشی میں لانے کے تین ذریعے اہم ہیں (۱) دھوکہ (۲) دیوداسی سے منسوب کرنا اور (۳) عورتوں سے جعلی طریقے سے شادیا ں کرنا۔ کچھ عورتوں کو شادی کے بعد اس قدر تشدداو ر سوائی کا سامنا کرنا پڑا کہ وہ شادی شدہ زندگی پر جسم فروشی کو ترجیح دینے لگیں ۔کچھ کو ان کے خاوند یا والدین نے اس ’’جاب ‘‘سے متعارف کروایا ۔ بہت سے والدین جانتے تھے کہ ان عور توں کو کیا کرنا پڑتا تھا لیکن انہوں نے مالی فوائد کے حصول کے لیے اسے نظر انداز کیے رکھا ۔ ممبئی کے ریڈاضلاع اس ’’کاروبار‘‘ سے سالانہ 40کروڑامریکی ڈالر (4سو ملین ) کا ر یونیوجمع کرتے ہیں ۔ یعنی ایک لاکھ عورتیں 365دن مردوں کی ’’خدمت ‘‘کرتی ہیں اور ہر ایک سے 2امریکی ڈالر وصول کرتی ہیں ۔ ہر عورت کو اوسطاً6گاہک روزانہ ملتے ہیں ۔ دنیا کا شاید سب سے بڑا ریڈ ضلع ممبئی میں واقع فا لک روڈ کا کما تھی پور کا علاقہ ہے ۔ جسے 1997 ء میں نمائش ہونے والی فلم ’’معصوموں کی فرو خت ‘‘میں بھی دکھا یا گیا ۔ کماتھی پور کے علاقہ میں 70ہزار سے زائد لڑکیاں اور عورتیں جسم فروشی میں مبتلاہیں ۔ ان میں سے ہر ایک کے پاس روزانہ تین مر دگاہک بن کر آتے ہیں ۔ یہاں سے فرار کے راستے بہت کم ہیں ۔
اس کے علاوہ حید ر آباد ہائی وے کے ساتھ ساتھ بہت سے ڈھابا طرزکے چھوٹے قحبہ خانے بھی موجود ہیں جو ٹر ک اور موٹر گاڑیوں کے ڈرائیور ز کو کم عمر لڑکیا ں اضافی ’’خدمت ‘‘کے طو ر پر پیش کرتے ہیں ۔ ان ڈھا با میں سے ایک کی مالکن عورت پہلے خود جسم فروش تھی ۔ اب اس نے ایک شیڈ (Shed) میں دوچار پائیاں اور قریبی دیہات سے لڑکیا ں لاکر رکھی ہوئی ہیں اور اس قحبہ خانے کی مالکن بنی ہوئی ہے ۔ اس نے ’’دی ہندو‘‘کے نمائندے کو 27 جولائی 1997کو بتایا کہ ’’اس نے ایک ماہ قبل ایک ہزار روپے کرایہ پر یہ جگہ حاصل کی ۔ وہ ہر ایک لڑکی سے فی گاہک 20 روپے وصول کرتی ہے ۔‘‘حید ر آباد اور سو لاپور ہائی پر واقع ایک قحبہ خانے کے مالک نے مذکورہ بالا اخبار کو بتایا کہ عورت کی جسم فروشی ایک منافع بخش’’ کاروبا ‘‘ہے۔ اس کے پاس 10 سے 12لڑکیا ں ہیں ۔ وہ ہر ماہ پولیس کو 6ہزار روپے رشوت دیتا ہے۔ ایک بڑے نیٹ ور ک کا حوالہ دیتے ہوئے اس نے کہا کہ وہ لڑکیوں اور عورتوں کو ممبئی سے لاتا ہے۔ اسی ہائی وے پر واقع ایک دوسرے قحبہ خانے کے مالک کا کہنا تھا کہ اس کے پاس دو عورتیں ہیں۔ وہ ہر گاہک سے 15 روپے کمیشن لیتا ہے ۔ یہ ایک غیر قانونی کاروبار ہے اس لیے وہ قریبی تھانے میں ماہانہ ’’ہفتہ‘‘(رشوت ) دیتا ہے ۔ اگر کوئی لڑکی خوبصورت ہو تو اس کے پاس ہر روز 10 گاہک بھی آسکتے ہیں ۔ مالک کی ایک ماہ کی آمدنی 4 سے 5ہزار تک پہنچ جاتی ہے ۔ اس ہائی وے پر واقع ڈھابا ہوٹلوں میں جسم فروش عورتوں اور لڑکیو ں کو خوفزدہ کرکے مردوں کی ’’خدمت‘‘کرنے اور غنڈوں کو من مانی کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے ۔ ان کو مردوں اور پولیس کو مفت جسم پیش کرنے کے لیے تشدد کا نشانہ بنایا جاتاہے۔ مقامی کسان بھی ان عورتوں سے بد سلوکی کرتے ہیں ۔ پولیس ان پر ہونے والے جنسی اور جسمانی حملوں کے مقدما ت درج نہیں کرتی ۔ ایک دفعہ ایک عورت جوانجانے کھیتوں میں پولیس کے خوف سے اندھیرے میں بھاگ رہی تھی ایک کنوے میں جاگری اور وہیں اس نے دم توڑ دیا ۔ بعض اوقات ایسی عورتوں کی جنگلی جانور وں کی کھائی ہوئی ، آدھی لاشیں بھی قریبی کھیتوں سے ملی ہیں جو اس دلدل سے نکلنا چاہتی تھیں لیکن وہ راستوں سے واقف نہ تھیں ۔ایک دوسری عورت کی لاش بھی ملی جس کے کان کٹے ہوئے تھے ۔ اسے لوٹنے کے بعد قتل کرکے لاپر واہی سے سڑ ک پر پھینک دیا گیا ۔ 8 اپریل 1996 ء ؁ کو شائع ہونے والے اخبار ’’دی نیشن ‘‘کی ایک رپورٹ کے مطابق ممبئی میں عبادت گذاری کے لیے خصی مردوں کی 2ہزار تعداد ایک مخصوص علاقے میں موجود تھی جو ان کے نام سے ہی منسوب ہے ۔ ان ہیجڑوں یا نا مردوں کی ہندو ازم میں بہت گہری مذہبی جڑیں پائی جاتی ہیں ۔ بھر پور جوان لڑکے جن کو ان کے گھروالوں نے قحبہ خانوں میں چھوڑ دیا یا فروخت کر دیا ہو کو جنگل میں لایا جاتا ہے جہاں ایک ہندو راہب’’ نہروانا‘‘کی تقریب منعقد کرکے ان کے’’ عضو خاص‘‘کاٹ دیتا ہے۔ اس دوران راہب گوشت کی رسی کو فولڈ کرکے ایک مصنوعی شرمگاہ(عورت کی )بناتا ہے ۔
اعلی درجے کے سیکس سے لطف اندوز ہونے کے لیے ایسے ہیجڑے یا نامرد، عورتوں کی نسبت عموماًآسانی سے دستیاب ہوجاتے ہیں۔ کچھ ہندوستانی مردوں کو یقین ہے کہ ایسے افراد سے ملاپ کرنے سے ایچ آئی وی ایڈز کے لاحق ہونے کا خطرہ باقی نہیں رہتا ہے۔ ایشیاء پسیفک کی ایک سروے رپورٹ میں ایسی وجوہات کا کھوج لگایا گیا جوان عورتوں اور ہیجڑوں کے اس ’’کاروبا ر ‘‘میں لگے رہنے کا باعث ہیں ۔ ان میں غربت ،بے روزگار ی، تنظیم سازی کی مناسب سہو لیات کا فقدان ، امکانات کی کمی ، رسوائی اور معکوس سماجی رویہ ، خاندان کی توقعات اور دباؤ اور اس طرز زندگی کا عادی ہوجانا قابل ذکر ہیں۔
قحبہ خانوں اور سیاحت کے شعبے میں کام کرنے والوں کی صحت اور فلاح کا جائزہ لیا جائے توان کے حالات سے مایوس کن آگاہی حاصل ہونے کے ساتھ ان کی زندہ لاشوں کی تصویر یں بھی ،آنکھوں میں گھومنے لگتی ہیں ۔ ان کا علاج کرنے والو ں کے پاس لائنس تک نہیں ہوتے ،ایک رپورٹ میں جسم فروش عورتوں کی بیما ریوں اور علاج و معالجے کی چشم کشا صورتحال کو یوں بیان کیا گیا ہے۔ ’’قحبہ خانے کی مالک بیمار عورتوں کو ریڈ لائٹ اضلاع میں 2سو بغیر لائنس کے ڈاکٹروں میں سے ایک کے پاس لے جاتی ہے جو ان عورتوں کی متلون مز اجی کو بلند کرنے کی دوادیتے ہیں ، ان کورنگدار پانی اور طبی جڑی بوٹیوں کی ڈرپس لگائی جاتی ہیں ۔ ان کو اس ’’علاج ‘‘کے لیے ڈاکٹرکو پیسے ہر صورت میں اداکرنا ہوتے ہیں جو وہ ادھار لے کر آتی ہیں۔ ممبئی میں موجود مافیا ڈاکٹروں سے اپنا ’’حصہ ‘‘وصول کرتا ہے ۔ ممبئی میں ریڈ لائٹ اضلاع کی جسم فروش عورتوں کی 60فیصد تعداد ایڈز اور دیگر وبائی امراض میں مبتلا ہیں۔ ممبئی کی ایک لاکھ ایسی عورتوں کی 50فیصد تعداد ایچ آئی وی کے وائرس اپنے اند ر اٹھائے پھرتی ہے۔ ‘‘ ممبئی سے ایک میگزین کے پبللشر کا کہنا تھا کہ ایڈز سے ملک کو فائدہ ہوگا کیونکہ اس سے نچلے طبقے کی ایک بڑ ی آبادی سے چھٹکارا مل جائے گا۔ دوعشرے قبل مقامی آبادی کے سر کردہ افراد نے ایک فلاحی گروپ ’’ساوہاورن ‘‘کو جنوبی انڈیا کی 7سو جسم فروش عورتوں کو مدر اس واپس بھجنے کی اجازت دی جن کی اکثریت میں ایچ آئی وی مثبت پایا گیا ۔ ایچ آئی وی زدہ لڑکیوں سے نجات کا یہ سستا ترین طریقہ دریافت کیا گیا ہے ۔ جسم فروشی کے فعل کی وجہ سے بیمارہونیوالی ہزاروں عورتیں گلیوں میں پڑی ہوئی ہیں ۔ سرکاری ہسپتال ایسی عورتوں کا علاج ہر گز نہیں کرتے جن میں ایچ آئی وی مثبت پایا جاتا ہو یا ایڈز کی مرض بڑھتی جارہی ہو۔ ممبئی کے جے جے ہسپتال میں ایک ایسی عورت کو داخل کرنے سے انکار کر دیا گیا جس کا خون بہہ رہا تھا اور اس کی زند گی کو خطرہ تھا ۔ اس عورت نے قحبہ خانے میں ایک بچے کو جنم دیا تھا۔
اس طرح ایک دوسری رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ 90کی دہائی کے آغاز میں ممبئی کی ایک لاکھ جسم فروش عورتیں روزانہ 6لاکھ مردو ں سے ملتی تھیں ۔ اس وقت ان کی 30 فیصد تعداد میں ایچ آئی وی مثبت پایا گیا ۔ اس کے پھیلنے کے امکانا ت 0.1 فیصد تھے ۔ اس حوالے سے اگر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر روز 2سو گاہک ایچ آئی وی میں مبتلا ہو رہے تھے اور ہر ماہ 6 ہزا ر مرد اس بیماری کا شکار ہوئے ۔
انڈیا سمیت پوری دنیا میں سیاحت کے ساتھ جسم فروشی جڑی ہوئی ہے ۔ انڈیا میں پوری دنیا سے غیر ملکی سیاح نرم ملکی قانون سے فائدہ اٹھا نے کے لیے بڑی تعداد میں آتے ہیں ۔ ان سیاحوں کو یہا ں آسانی سے کم عمر کے لڑکے اور لڑکیاں مل جاتے ہیں ۔ ایسے غیر ملکیوں میں ایک غلط تصور پایاجاتاہے کہ انڈیا میں ایڈزکے بہت کم امکانات پائے جاتے ہیں۔امریکہ اور یورپ کے لو طی سیا حوں کے لیے انڈیا پسندیدہ مقامات میں سے ایک ہے۔بین الا قوامی ٹورز آپریٹر ز ، کمپنیاں ، ہوٹل ، ائیر لائنز اور ٹریول ایجنسیا ں گووہ( انڈیا) کے لیے سیا حت کے شعبے کو اپنے اپنے ایجنڈے میں خاصی اہمیت دے رہے ہیں ۔ تاہم وہ ایسا کر تے ہوئے میزبان طبقات کو نظر انداز کردیتے ہیں ۔ اس صور تحال کی وضاحت کے لیے ذیل میں چند ایک مثالیں بیان کی گئی ہیں ۔ 14فروری 1998ء کو انڈین اخبار ’’دی ہند و ‘‘میں ایک رپورٹ شائع ہوئی جس میں ایک 9 سالہ انڈین لڑکی کا 45 سالہ سوئس شہری کے ساتھ مسلسل 9ماہ سے رہنے کا حوالہ دیاگیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق دسمبر 1997ء کو پو نا کی ایک 9سالہ لڑکی گو وہ کے ایک ہوٹل میں 45سالہ سو ئس شہری کے ساتھ 9ماہ سے رہ رہی تھی ۔ ایک مقامی غیر سرکار ی تنظیم نے پولیس کی مدد سے اعلیٰ حکام کو شکایت کی اور لڑکی کو ایک ’نگرانی گھر ‘میں بھیج دیا گیا ۔ جب اس کے والد سے رابطہ کیا گیا تو اس نے کہا ’’لڑکی اپنی مرضی سے مذکو رہ شخص کے ساتھ رہ رہی تھی ۔ ایک مختصر تفتیش کے بعد سوئس باشندے کو بھی چھوڑدیا گیا ۔ گووہ پولیس کے انسپکٹر جنرل مسٹر پی ، آر ، ایس کا کہناتھا کہ’ لو طی فعل‘ محض ایک دیومالائی داستان ہے ، اس کا اب کوئی وجود نہیں ۔ ’’قومی کمیشن برائے خواتین ‘‘کی چیر پر سن مسز موہنی گیری نے اس لڑکی سے ملاقات کرنے کے بعد بتایا کہ اس کے ساتھ جنسی بد سلو کی کا ارتکاب کیا گیاتھا۔
(جاری ہے۔۔۔ اگلی قسط پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں)