کراچی واقعے کی انکوائری رپورٹ

کراچی واقعے کی انکوائری رپورٹ

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ہدایت پر ہونے والی انکوائری کے نتیجے میں آئی ایس آئی اور رینجرز کے متعلقہ افسر ہٹا دیئے گئے ہیں،جن کے طرزِ عمل سے ریاست کے دو اداروں میں غلط فہمیاں پیدا ہوئیں،ناپسندیدہ صورتِ حال سے گریز کرنا چاہئے تھا، مزید کارروائی جی ایچ کیو میں ہو گی۔آئی ایس پی آر کے مطابق ان افسروں نے جذباتی ردعمل کا مظاہرہ کیا،متعلقہ افسروں نے تیزی سے بدلتی ہوئی کشیدہ صورتِ حال کے پیش نظر سندھ پولیس کے طرزِ عمل کو اپنی دانست میں ناکافی اور سست روی کا شکار پایا۔سندھ رینجرز اور آئی ایس آئی کے افسر مزار قائد کی بے حرمتی کے نتیجے میں شدید عوامی ردعمل سے پیدا صورتِ حال سے نپٹنے میں مصروف تھے۔افسروں پر مزارِ قائد کی بے حرمتی پر قانون کے مطابق بروقت کارروائی کے لئے شدید دباؤ تھا۔پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے کراچی میں مزار قائداعظمؒ پر ہونے والے واقعہ کے بعد جس کا مقدمہ کیپٹن(ر) صفدر اور دوسرے مسلم لیگی رہنماؤں کے خلاف درج کیا گیا تھا،ایک پریس کانفرنس کے دوران مطالبہ کیا تھاکہ آرمی چیف واقعے کی انکوائری کرائیں،جس پر انہوں نے بلاول کو ٹیلی فون کر کے انکوائری کی یقین دہانی کرائی تھی۔اس کے نتیجے میں ذمے دار افسروں کو اُن کی ڈیوٹیوں سے ہٹا دیا گیا۔
کیپٹن(ر) صفدر اور دوسرے مسلم لیگی رہنماؤں پر الزام تھا کہ وہ مزار قائد پر نعرے لگا کر مزار کی بے حرمتی کے مرتکب ہوئے،جس پر اُن کے خلاف مقدمہ درج ہوا،مبینہ طور پر آئی جی سندھ کو اغوا کر کے اُن سے کیپٹن(ر) صفدر کی گرفتاری کے احکامات حاصل کئے گئے اور بعد میں اُنہیں اُن کے ہوٹل سے گرفتار کیا گیا، اس کے بعد آئی جی سندھ اور بہت سے دوسرے سینئر افسروں نے چھٹی کی درخواستیں دے دی تھیں جو انکوائری کے حکم کے بعد واپس لے لی گئیں۔تین ہفتوں کے بعد اب جب رپورٹ منظر عام پر آئی ہے تو بلاول بھٹو زرداری نے آرمی چیف کے اقدام کی تعریف کی ہے اور کہا ہے کہ غلطی کا اعتراف جمہوری طریقہ ہے،ایسے اقدامات سے وقار میں اضافہ ہوتا ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا ہے کہ اب سندھ حکومت بھی اپنی ذمے داری پوری کرے اور ڈیوٹی چھوڑنے کا اعلان کرنے والے پولیس افسروں کے خلاف کارروائی کرے،انہوں نے انکوائری رپورٹ کو منظر عام پر لانے کی تحسین کی۔
18اکتوبر کو اس واقعے کے فوری بعد وفاقی اور سندھ حکومت کے درمیان الفاظ کی ایک ناخوشگوار جنگ شروع ہو گئی تھی،جس میں ایک دوسرے پر الزام  تراشیاں کی جا رہی تھیں۔ وفاقی حکومت مبینہ اغوا کے واقعہ کو سرے سے ڈرامہ قرار دے رہی تھی اور سندھ حکومت اس کی تمام تر ذمے داری گورنر سندھ اور کراچی سے تعلق رکھنے والے ایک وفاقی وزیر پر ڈال رہی تھی۔ایسی صورت میں آرمی چیف نے بروقت اقدام کر کے انکوائری کا اعلان کیا اور ایک ناخوشگوار صورتِ حال مزید خراب ہونے سے بچ گئی،تاہم انکوائری کی جو تفصیلات آئی ایس پی آر کی جانب سے منظر عام پر لائی گئی ہیں اُن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان افسروں نے جو کچھ کیا  جذباتی ہو کر کیا اور اس ضمن میں کسی ہدایت کی ضرورت محسوس نہ کی، حالانکہ بظاہر یہ بات فوج کی روشن روایات سے مطابقت نہیں رکھتی،کیونکہ وہاں چین آف کمانڈ کے تحت ہی ساری کارروائیاں ہوتی ہیں،افسر ضابطوں کے پابند ہوتے اور اپنے سے بالاتر افسروں کی ہدایات کی روشنی ہی میں کوئی قدم اٹھاتے ہیں،لیکن جیسا کہ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ زیر بحث افسروں نے خود ہی جذباتی طور پر فیصلہ کر لیا، باالفاظ دیگر اپنے سے بالاتر افسروں کی کسی ہدایت کی ضرورت محسوس نہ کی، اگر انہوں نے اپنے طور پر بھی اتنا بڑا فیصلہ کر لیا تھا تو پھر انہیں اپنے تئیں یہ یقین بھی ہو گا کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں عوامی جذبات کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھ کر کر رہے ہیں۔اگر واقعی ایسا تھا تو پھر یہ بھی معلوم کرنا چاہئے کہ عوام کے احساس و جذبات اُن تک کس ذریعے سے پہنچے،شاید ٹی وی چینلوں پر جو بحث مباحثہ برپا تھا اور جس میں دو حکومتوں کے نمائندے ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہے تھے،ان افسروں نے انہی مباحثوں کو سن کر کوئی نتیجہ نکالا اور اس کی روشنی میں اقدام کر ڈالا تاہم پھر بھی ضروری تھا کہ وہ عملی طور پر آگے بڑھنے سے پہلے اپنے اعلیٰ افسروں سے مشاورت کر لیتے اگر ایسا ہوتا تو شاید افسروں کے اقدام کی انکوائری کی ضرورت ہی نہ پڑتی اور اس ناخوشگوار صورتِ حال سے بھی بچا جا سکتا،جو بعد میں پیدا ہوئی۔
سندھ حکومت نے بھی اس واقعے کی تحقیقات کرانے کا اعلان کیا تھا اور ایک کمیٹی بھی بنائی تھی، لیکن اس کی کوئی رپورٹ تاحال سامنے نہیں آئی اس کمیٹی کو بھی چاہئے کہ وہ اپنی انکوائری جلد مکمل کرے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ ایک ہی ایونٹ کی دو علیحدہ علیحدہ انکوائریوں کا یکساں نتیجہ نکلا ہے یا اس میں کوئی اختلاف موجود ہے،اگر تو سندھ حکومت کی رپورٹ بھی آرمی کی انکوائری سے ملتی جلتی ہو، یا قریب ترین ہو تو اندازہ ہو جائے گا کہ واقعے کے بعد ٹیلی ویژن چینلوں پر الفاظ کی جو جنگ برپا تھی اور بڑھ بڑھ کر جو الزام تراشیاں کی جا رہی تھیں اُن کا بھی کوئی جواز نہیں تھا۔ مزار قائد کی توہین کے مقدمے کی جو تفتیش متعلقہ تفتیشی افسر نے کی ہے اس میں انہوں نے کیپٹن(ر) صفدر کو بعض الزامات سے بری الذمہ قرار دے دیا ہے اور یہ بھی کہا ہے کہ وہ املاک کو نقصان پہنچانے کے مرتکب نہیں ہوئے،کیپٹن(ر)صفدر پر مدعی کو دھمکیاں دینے کا الزام بھی عائد کیا گیا تھا۔ تفتیشی افسر اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ مقدمے کا مدعی اُس وقت مزار قائد کے احاطے کے اندر یا قریب ترین موجود نہیں تھا،نہ وہ کہیں اس فوٹیج میں نظر آتا ہے، جو مزار قائد کے اندر موجود لوگوں کو سامنے لاتی ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ مدعی کو بعد میں کہیں سے ”تلاش“ کر کے اسے مقدمے کا مدعی بنایا گیا، حالانکہ اگر مقدمے کو مضبوط بنانا مقصود تھا اور مدعی کے حامیوں کی خواہش تھی کہ مضبوط مقدمہ قائم کیا جائے تو مدعی کسی ایسے شخص کو بنایا جا سکتا تھا، جس نے مزار کی تقدیس کو مجروح ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ویسے تو اس مقدمے سے ہَوا اُسی وقت نکل گئی تھی، جب کیپٹن(ر) صفدر گرفتاری کے بعد اسی روز ضمانت پر رہا ہو گئے تھے اب رہی سہی کسر تفتیشی افسر کی تفتیش نے نکال دی ہے، انکوائری رپورٹ سے بھی پتہ چل گیا کہ فوجی افسروں کا اپنا ردعمل بھی جذباتی تھا،اب جبکہ ان افسروں کو اُن کی ڈیوٹیوں سے ہٹا دیا گیا ہے اور رپورٹ پر مجموعی طور پر اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے تو یہ ضروری ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان وہ بحث یا کج بحثی بھی ختم کی جائے،جو اِس واقعہ کے نتیجے میں شروع ہو گئی تھی،جو لوگ اسے ”مزاحیہ ڈرامہ“ کہہ رہے تھے اُنہیں بھی اپنی رائے سے رجوع کرنا چاہئے،کیونکہ اگر ایسا ہی ہوتا تو آرمی چیف کو انکوائری کا حکم دینے کی ضرورت نہ تھی۔انہوں نے اگر ایسا کیا تو اِس کا مطلب ہے کہ ایسا کچھ زمین  پر موجود تھا، جس کی انکوائری ہوئی اور جس کے نتیجے میں افسروں کو ہٹایا گیا۔

مزید :

رائے -اداریہ -