ڈالر سستا ہو بھی گیا تو کیا؟
ڈالر سستا ہونا یقینا خوش آئند ہے لیکن کیا اس کا فائدہ عوام کو بھی ہو گا؟ اگر ہاں تو کیا؟پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں ڈالر مہنگا ہویا پٹرولیم مصنوعات مہنگی ہوں، ہر دو صورتوں میں عوام کی زندگی مزید مشکل ہو جاتی ہے۔مجھے نہیں معلوم کہ پٹرول یا ڈالر سستا ہونے کا فائدہ کیا ہے؟ شاید معاشی ماہرین کی کئی ایک تھیوریاں بھی موجود ہوں جن میں اس بات کے فضائل بتائے جاتے ہوں لیکن زمینی حقائق اس سے مختلف ہیں اور مجھے آج تک اپنی زندگی میں ان دو چیزوں کے مہنگا ہونے کے اثرات ضرور سہنا پڑے ہیں لیکن ان کے سستا ہونے کا مجھے ایک ٹکا فائدہ نہیں ہوا۔پاکستان میں ہر دو ہفتے بعد اوگرا نامی ایک ”ایذارہ“ ایسا چن چڑھاتا ہے جس کا عوام کو آج تک کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ کسی ایک ادارے پر کیا بات کرنی، مجھے یہی لگتا ہے کہ پاکستان کا ہر ادارہ صرف امرا کی آسانی یا ان کی خوشنودی کے لیے بنایا گیا ہے۔آپ بھی اپنی سابقہ زندگی پر ایک نظر دوڑائیں اور جن جن اداروں سے آپ کا واسطہ پڑا ہے، اپنے مشاہدے کی بنیاد پر بتائیے کہ کیا وہ ادارے آپ کے لیے بنائے گئے ہیں؟کیا وہاں قانون یا انصاف یا مساوات کی عملداری ہے؟بہرحال بات کسی اور طرف نکل گئی، میں صرف دو حوالوں سے بات کر رہا تھا۔
پہلی بات یہ کہ عوام کو ڈیزل پٹرول وغیرہ مہنگا ہونے کا نقصان ہوتا ہے لیکن سستا ہونے کا کوئی فائدہ نہیں۔
دور کیا جانا ابھی حالیہ سال کی مثال ہی دیے دیتا ہوں۔ ڈیزل پٹرول جب تقریباً اڑھائی سو روپے لٹر تھا تو مثلاً ایک چیز کی قیمت سو روپے تھی۔ ڈیزل پٹرول مہنگا ہوا اور مختلف روٹ لیتا ہوا دو سو نوے تک جا پہنچا۔ جس چیز کی قیمت سو روپے تھی، اس کی قیمت بھی ساتھ ساتھ بڑھتی رہی اور وہ چیز ایک سو پچاس روپے کی ہو گئی۔ پھر ہمارے کرم فرماؤں نے ڈیزل پٹرول کو سستا کرنا شروع کیا اور قیمتیں واپس اڑھائی سو روپے فی لٹر پر پہنچیں لیکن جس کی قیمت سو روپے سے بڑھ کر ایک سو پچاس ہوئی تھی، وہ وہیں کی وہیں رہی۔ ہمارے ”ہک مرانوں“ نے ایک بار مرتبہ پھر ریلیف کو پمپ مارا اور ڈیزل پٹرول نے اپنی سپرہٹ نمائشی اڑان بھرنی شروع کی اور ایک بار مرتبہ پھر اپنی پرانی چوکی دو سو نوے پر آن کھڑا ہوا۔ اس دوران سو روپے والی جس کی قیمت ڈیڑھ سو روپے تھی وہ دو سو روپے کی ہو گئی۔حالانکہ اصولاً اس چیز کی قیمت نہیں بڑھنی چاہیے تھی کیونکہ جب پہلی بار ڈیزل پٹرول مہنگا ہوا تھا تب اس کی قیمت بڑھی تھی لیکن جب ڈیزل پٹرول سستا ہوتا ہوا اپنی پہلی پوزیشن پر آیا تھا تو اس چیز کی قیمت اپنی پہلی پوزیشن پر واپس نہیں گئی تھی بلکہ وہیں قائم رہی تھی۔اب جب ڈیزل پٹرول دوبارہ مہنگا ہونا شروع ہوا تھا تو اس چیز کی قیمت پھر بڑھنا شروع ہوئی حالانکہ اس کی قیمت پہلے ہی سو سو نوے کے اعتبار سے طے ہو چکی تھی۔حالیہ دنوں میں جب ڈیزل پٹرول دوسونوے کی چوکی فتح کرتا ہوا پوزیشن نمبر تین سو پانچ پر گیا تو دو سو والی وہی چیز دو سوتیس روپے کی ہو گئی۔اگر ڈیزل پٹرول کی قیمتیں دو سو نوے پر ہی کھڑی رہتیں تو اس چیز کی قیمت بھی ڈیڑھ سو روپے کی رہتی۔یہ صرف ایک مثال ہے جو ہر میدان میں متماثل صورت حال کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ کرائے ہی دیکھ لیں کہ ڈیزل پٹرول کے مہنگا ہونے سے وہ جس رفتار سے بڑھتے ہیں کیا سستا ہونے سے اسی رفتار سے کم ہوتے ہیں؟ اس لیے میں کہتا ہوں کہ اس ملک میں ڈیزل پٹرول کا سستا ہونا عوام کو مزید مہنگا پڑتا ہے اور جب ڈیزل پٹرول ذرا پیچھے جاتے ہیں تو وہ ریلیف کے لیے نہیں جاتے بلکہ فاسٹ باؤلر کی طرح سٹارٹ لینے جاتے ہیں تاکہ عوام کی وکٹیں اڑائی جا سکیں۔
یہی حال ڈالر کا بھی ہے۔ڈالر مہنگا ہوتا ہے تو ہر چیز مہنگی ہو جاتی ہے لیکن اس کے سستا ہونے سے عوام کو کسی قسم کا ریلیف نہیں ملتا۔حالیہ دنوں میں دیکھ لیں کہ جب ڈالر تین سو تیس کو بھی کراس کر گیا تو کئی ایک چیزیں عوام کی پہنچ سے کراس کر گئیں یا اگر پہنچ میں تھیں بھی تو ان کی مقدار پاؤ سے رتی ماشے پر آ گئی۔ لیکن ڈنڈے کی مرید اس قوم کو جب ڈنڈا دکھایا تو کونوں کھدروں سے ڈالر برآمد ہونے لگے اور ڈالر واپس تین سو روپے پر آ گیا لیکن ایمان سے بتائیں کہ کیا اس کے سستا ہونے کا عوام کو فائدہ ہوا؟جو چیزیں اس کے تین سو تین سو تیس پر جانے سے جس قدر مہنگی ہوئی تھیں، کیا ان کی قیمت واپس اپنی پرانی پوزیشن پر آئی؟اگر نہیں تو کیوں نہیں؟اس ملک کا المیہ یہ ہے کہ ایک چیز ہی کو فوکس کیا جاتا ہے لیکن اس کے اثرات کو فوکس کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان اثرات کو ریورس کرنے کا کوئی اہتمام موجود ہے۔یہ ملک پہلے بھی کمزور تھا اور مافیا اس ملک سے طاقت ور تھے لیکن نیازی صاحب کے آنے کے بعد یہ ملک، ملک رہا نہیں بلکہ ایک راجواڑا بن گیا ہے جس میں ایک خونی کھیل جاری ہے اور عوام کی ضرورت فقط اس قدر اور اس وقت تک ہی ہے جب تک کہ اسے شیر کے سامنے نہیں ڈال دیا جاتا تاکہ ملک کے ”ٹھیکدار“ لطف اندوز ہو سکیں۔