سکندری طوطے
انگریزی زبان کے ایک اخبار میں آج ایک ایسی خبر نظر سے گزری جس نے میرے ماضی اور حال کے ادوار کو آپس میں گویا شیر و شکر کر دیا۔
خبر یہ تھی کہ ”پاکستان میں سکندری طوطوں کی نسل معدوم ہوتی جا رہی ہے“۔ اس خبر کے ساتھ میرا ماضی کارشتہ یہ ہے کہ پاک پتن کہ جو میرا مولد ہے اس کے اطراف میں دو نہریں بہتی ہیں۔ ایک نہر ساہیوال، دیپال پور اور عارف والا کی تینوں سڑکوں کو ملانے والے ایک بڑے چوراہے سے صرف 20گز دور بجانبِ شہر واقع ہے اور دوسری نہر پاک پتن شہر کے اختتام کے علاقے میں رواں دواں ہے۔ پہلی نہر کے پاس ہمارا ایک پرائمری سکول تھا جس کو نیلی بار پرائمری سکول اور ڈسٹرکٹ بورڈ پرائمری سکول کہا جاتا تھا۔ یہ سکول پراپر شہر سے تین کلومیٹر دور تھا اور اس کے نواح میں وہی نہر بہتی تھی جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔
اتوار کو سکول سے چھٹی ہوتی تو ہماری ”سیاحتی حِس“ کو مہمیز کر جاتی۔ ہم اپنے دوستوں کے ہمراہ کھیتوں کھلیانوں کو پھلانگتے ہوئے نہر کا رخ کرتے جس کے دونوں کناروں پر شیشم اور اُکاں کے درخت لہلہا رہے ہوتے تھے۔ شیشم کے درختوں پر طوطوں کے گھونسلے بنے ہوتے تھے۔ درخت کے تنے میں سوراخ کرکے نجانے یہ طوطے خود اپنا گھونسلہ بنا لیتے تھے یا یہ سوراخ پہلے سے موجود ہوتے تھے۔ ہم ان گھونسلوں کو ایک ایک کرکے کھنگالتے اور ان میں طوطوں کے بچوں کو نکال کر گھر لے آتے۔طوطے،ہمارے سروں پر شور مچاتے رہتے اور بعض اوقات سروں پر چونچیں مار مار کر ہمیں زخمی بھی کر دیتے لیکن طوطے پکڑنے کا شوق، ان زخموں وغیرہ سے بے پرواہ ہوتا تھا۔
ہمیں معلوم نہ تھا کہ ان طوطوں کا نام ”سکندری طوطے“ ہے۔ یہ تو بعد میں معلوم ہوا کہ سکندراعظم جب 323ق م میں واردِ ہندوستان ہوا تھا تو یہاں سے جو پرندے اس نے اپنے وطنِ مالوف (یونان) بھیجے تھے، ان میں یہ طوطے بھی تھے اور اسی نسبت سے ان طوطوں کو ”سکندری طوطے“ کہا جاتا ہے۔ اس کا پنجابی نام ”راطوطا“ ہے۔ اس کے پر آدھے سرخ ہوتے ہیں اور اس کے گلے پر بھی سرخ پروں کا ایک گھیرا سا بنا ہوتا ہے۔ ”را طوطے“ کی نشانی یہ ہے کہ یہ بعض انسانی آوازوں کی نقالی بھی کر لیتا ہے۔ شاید اسی صفت سے متاثر ہو کر سکندراعظم نے ان طوطوں کو یونان بھیجا تھا۔
سکندر کی ذہانتِ طبع کی داد دینی چاہیے کہ اس نے اڑھائی ہزار برس پہلے بعض ایسی باتیں کہی سُنی یاکی تھیں جو آج بھی حیران کن ہیں۔ مثلاً بچپن (یا شاید لڑکپن) میں ایک خود سر اور ضدی گھوڑے پر سواری کرنا…… اس کے باپ فیلقوس کے سامنے ایک گھوڑا پیش کیا گیا تھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ کسی انسان کو اپنے اوپر ”بیٹھنے“ کی اجازت نہیں دیتا۔ سکندر اپنے باپ کے ساتھ بیٹھا تھا کہ اس نے یہ دیکھا کہ ایک گھوڑا جو میدان میں نمائش کے لئے پیش کیا گیا ہے، وہ کسی بھی انسان کو اپنے اوپر سوار ہونے کی اجازت نہیں دیتا۔بدک کر اسے نیچے گرا دیتا ہے۔ سکندر باپ سے اجازت لے کر میدان میں آ گیا اور جھٹ گھوڑے پر سوار ہو گیا۔ واپس باپ کے پاس جا کر اس نے بتایا کہ یہ گھوڑا اپنے سائے سے ڈرتا ہے، اس لئے میں نے اس کا منہ سورج کی طرف کرکے اس پر سواری کی ہے۔
بعد میں سکندر اور پورس کا مشہور مکالمہ، ایران کے دارا کو شکست فاش دینا، اپنے جرنیلوں کے مشورے پر دریائے جہلم سے آگے بڑھنے کے ارادے کو ترک کرنا اور پھر واپس جاتے ہوئے ایران کے ایک شہر میں ایک حسینہ پر فدا ہونا، اس سے شادی کرنا اور پھر عین عالمِ شباب میں وفات پا جانا، سکندر کی زندگی کے عجیب واقعات ہیں۔
اخبار میں لکھا تھا کہ سکندری طوطے کی نسل پاکستان سے معدوم ہونے کی وجوہات یہ ہیں کہ شیشم کے درخت کہ جن کے تنوں میں طوطا، گھونسلے بنانے کا شوقین ہے، پاکستان سے رفتہ رفتہ ختم ہو رہے ہیں۔ اب آپ کو شیشم کا درخت بہت خال خال ملے گا۔ فرنیچر بنانے والوں نے اس درخت کو کاٹ کاٹ کر آج تقریباً معدوم کر دیا ہے۔
طوطے سے ہمارے ”حال“ کا تعلق اس طرح ہے کہ تقریباً 8،10سال پہلے کسی دوست نے میرے بیٹے کو ایک طوطا تحفے میں دیا تھا۔یہ جس انسانی آواز کی نقل کرتا ہے وہ یہ ہے: ”میاں مٹھو،چوری کھانی ہے“…… وہ آج بھی اسی صفائی سے یہ فقرہ بولتا ہے کہ سننے والا حیران ہو جاتا ہے۔ اس کی دوسری خوبی یہ ہے کہ وہ گھر کے ہر فرد کو پہچانتا ہے۔اس کو معلوم ہوتا ہے کہ کون سا بچہ، جوان، بوڑھا، مرد یا عورت اس کی کس طرح کی آواز کو پسند کرتا یا کرتی ہے۔ مثال کے طور پر مجھے دیکھتا ہے تو اپنے پنجرے کی سلاخوں سے سر نکال کر میرے سامنے آ جاتا ہے۔ میں اس کے سر اور اس کی چونچ کو سہلاتا ہوں تو وہ ہلکی ہلکی آوازیں نکال کر گویا میرا شکریہ ادا کرتا ہے۔ میرے نواسے یا نواسی کو دیکھتا ہے تو ”میاں مٹھو،چوری کھانی ہے؟“ کی آواز کی گردان اس تسلسل سے کرتا ہے کہ جب تک وہ بچے اسے چپ کرنے کا نہیں کہتے وہ یہ آواز نکالتا چلا جاتا ہے۔ گھر کے ہر فرد کوپہچانتا ہے، ہر ملازم کو شناخت کرتا ہے اور جب بھی کوئی مہمان گھر میں داخل ہوتا ہے تو اس کو دیکھ کر ایک عجیب طرح کی صدائی گردان شروع کر دیتا ہے……سورج مکھی کے بیج، پراٹھے کا ٹکڑا، امرود اور آلوبڑے شوق سے کھاتا ہے اور رات کو اس کے پنجرے پر جب تک کپڑا نہیں ڈالا جاتا تب تک وہ وقفے وقفے سے وہی گردان دہراتا رہتا ہے: ”میاں مٹھو، چوری کھانی ہے“۔
پاکستان میں اب اس طوطے کی نسل معدوم ہونے کے قریب ہے۔ اس کی تین وجوہات بتائی جاتی ہیں۔ ایک یہ کہ جس نباتات کو وہ پسند کرتا ہے (مثلاً شیشم اور اکاں کے درخت) وہ آہستہ آہستہ ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ پہلے یہ پرندہ پنجاب میں عام دیکھا جاتا تھا۔ فوج کی ملازمت کے دوران مجھے چاروں صوبوں میں نوکری کرنے کے مواقع میسر آئے۔ شمالی علاقہ جات میں بھی ایک مدت تک رہا۔ ان تمام مقامات میں ”سکندری طوطوں“ کی بہتات تھی۔ لیکن آج ایک تو ’طوطا فروشوں“ نے اس کو پکڑ کر مہنگے داموں بیچنا شروع کر دیا ہے، دوسرے شیشم کی جگہ جو درخت ہمارے ہاں دیہاتوں اور شہروں میں آج کل کاشت ہوتے ہیں مثلاً سفیدہ، وغیرہ ان میں طوطوں کے گھونسلے بنانے کے امکانات تقریباً نہ ہونے کے برابر ہیں۔ دوسرے آلودگی (Pollution) نے سارے پاکستان میں دھوم مچا رکھی ہے، اس سے بھی طوطے اور دوسرے کئی پرندے متاثر ہو کر شمالی علاقوں کا رخ کر گئے ہیں۔ لیکن وہاں کی سرد آب و ہوا سکندری طوطوں کو راس نہیں آتی۔آج طوطے، کبوتر اور چڑیاں کم ہوتی جا رہی ہیں اور ان کی جگہ کوے، چیلیں اور شارکیں (لالیاں) وغیرہ کثرت سے دیکھی جاتی ہیں۔ فاختائیں بھی بہت کم ہو گئی ہیں۔یہ انسان دوست پرندے تھے جن کو انسان نے خود معدوم ہو جانے کی دعوت دی ہے۔ طوطا فروشوں نے بھی ان کو پنجروں میں قید کرکے ان کی تعداد بڑھانے کی کوشش کی ہے لیکن جس طرح پاکستان میں جنگلی حیات کم ہوتی جا رہی ہے اسی طرح انسان دوست جنگلی پرندے بھی اب خال خال نظر آتے ہیں۔ مجھے لاہور میں رہتے ہوئے اب 25برس ہو چکے ہیں لیکن میں نے کبھی کسی طوطے کو کسی بھی درخت پر بیٹھے یا فضاؤں میں اڑتے ہوئے نہیں دیکھا۔ ان کوپنجروں میں بند کرکے ان کی گویا نسل کُشی کی جا رہی ہے۔ انسانی آواز کی نقالی کرنے والے طوطے آج کل ویسے بھی بہت مہنگے ہیں۔ لاہور میں ان کی قیمت معلوم کریں تو دس سے پندرہ ہزار سے کم نہیں بتائی جاتی۔
اس کو انسانی آواز سکھلانا آسان کام نہیں۔ یہ ایک فن ہے۔اس ”فن“ کے بارے میں مختلف طرح کی حکایات بیان کی جاتی ہیں۔ ایک حکایت یعنی سکھلائی کا طریقہ یہ ہے کہ ایک آدمی ایک بڑے سے آئینے کے پیچھے بیٹھ جاتا ہے اور دوسرا آدمی ایک طوطے کو لے کر آئینے کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ آئینے کے پیچھے بیٹھا شخص جو آواز نکالتا ہے،طوطا یہ سمجھتا ہے کہ یہ آواز اس کے سامنے آئینے میں بیٹھا ایک دوسرا ”طوطا“ نکال رہا ہے۔ وہ اپنے ہم جنس کے عکس کی تقلید میں وہی آوز نکالتا ہے جو دراصل آئینے کے پیچھے بیٹھے انسان کی آواز ہوتی ہے، طوطے کی نہیں۔ یہ ایک بہت مشکل اور صبر آزما فن ہے۔لیکن طوطے کی سکھلائی کا یہ سب سے معروف طریقہ ہے۔
مختلف شعراء نے طوطے کی اس عادت کے حوالے سے کئی روحانی مسائل بھی بیان کئے ہیں۔ مثلاً خواجہ حافظ شیرازی کا یہ شعر دیکھئے:
در پسِ آئینہ طوطی صفتم داشتہ اند
آنچہ استادِ ازل گفت، ہماں می گوئیم
(ترجمہ: میرے سامنے ایک آئینہ رکھا ہوا ہے جس کے پیچھے ایک استادِ ازل (خداوندِ کریم) بیٹھا ہوا ہے۔ جوکچھ وہ استادبولتا ہے، میں بھی وہی کچھ بولتا جاتا ہوں۔یعنی انسان کی آواز میں خود خدا بول رہا ہے)