گھر کے سامنے قبرستان تھا، پرانے درختوں کے بارے میں طرح طرح کی کہانیاں مشہور تھیں،مغرب کی اذان کے بعد کوئی بھی قبرستان کا رخ نہ کرتا تھا
مصنف:شہزاد احمد حمید
قسط:48
میں کھیل میں بھی سرگرم تھا۔ فٹ بال کھیلتا تھا۔ کمپنی کا پرچیز افسر ہر ماہ لاہور جاتا تھا۔ ایک دفعہ ابا جی نے میرے لئے کرکٹ کا سامان منگوا کر دیا تو پھر کرکٹ ہی کھیلنے لگا۔ گوجرانوالہ جب آ ئے اور میرے ہم جماعتوں کو جب پتہ معلوم ہوا کہ میں شورکوٹ سے یہاں آیا ہوں تو وہ میرا مذاق اڑایا کرتے تھے کہ ”یہ کوٹ پہن کر شور کرتا تھا۔“ بچے بھی کیسی کیسی بات تراش لیتے تھے۔
قرآن کا پہلا درس؛
کندیاں میں مجھے ماسٹر عبداللطیف صاحب قرآن کریم پڑھاتے، اردو اور انگریزی کی لکھائی بھی سکھاتے تھے۔ اُن کی خوشخطی کمال تھی۔وہ چونڈہ(یہاں 65ء میں پاک بھارت جنگ کے دوران جنگ عظیم دوئم کے بعد ٹینکوں کی دوسری بڑی جنگ لڑی گئی تھی۔) ضلع سیالکوٹ کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے مجھے قرآن پڑھنا سکھایا۔ میری اردو اور انگریزی کی لکھائی ایسی کر دی کہ ہر کوئی میری طرح لکھنا چاہتا تھا۔ قرآن کریم کے خاتمہ پر میری بسم اللہ پر انہوں نے مجھ سے سورۃ الرحمان کی تلاوت کروائی تھی۔ انہوں نے مجھے خط نسخ لکھنا بھی سکھایا اور یہ میں اتنی نفاست سے لکھتا تھا کہ لگتا تھا کہ ٹائپ ہوا تھا۔ گوجرانوالہ پوسٹنگ کے دوران میں نے انہیں تلاش کرنے کی کوشش کی۔ وہ تو وفات پا چکے تھے البتہ ان کے صاحب زادے بنک چونڈہ کے منیجر سے ملاقات ہوئی۔ وہ بڑے خلوص سے ملے۔ لطیف سر بہت نیک اور بہترین انسان تھے۔قرآن کی دل میں اتر جانے والی قرآت کرتے تھے۔اللہ نے یقیناً انہیں اپنے جوار رحمت میں جگہ دی ہو گی۔
کندیاں قصبے میں میرے گھر کے سامنے چند قبروں کا قبرستان تھا۔ قبرستانوں اور پرانے درختوں کے بارے طرح طرح کی کہانیاں مشہور تھیں۔ ایک کہانی کے مطابق قبرستان سے رات کے وقت گزرنا خطرے سے خالی نہ تھا۔ گزرنے والے کو چڑیل، پچھل پیری(متھ کے مطابق اس کی شکل عورت کی جبکہ اس کے پاؤں پیچھے کو مڑے ہوتے ہیں) اگرسامنے آ جائے تو دیکھنے والا بے ہوش ہو جاتا تھا، کچھ کہتے یہ چٹریل ہوتی جو چمٹ جاتی تھی۔ کچھ کے مطابق قبروں سے مردہ ہی سامنے آ جاتا تھا۔ یہ کہانیاں خوفزدہ کر دیتی تھیں اور مغرب کی اذان کے بعد کوئی بھی شخص قبرستان کا رخ نہ کرتا تھا۔ ایک اور کہانی کے مطابق عامل حضرات رات کو کسی پرانی قبر میں بیٹھ کر عمل وغیرہ کرتے تھے۔ پرانے درختوں کے کھوکھلے تنوں پر پتھر مارنے سے عجیب سی آوازیں سنائی دیتی تھیں جن کے بارے مشہور تھا کہ ایسے درختوں میں جنا ت کے گھر ہوتے تھے اور پتھر مار نے کا مطلب انہیں ستانا تھا۔ پھر جنوں کی طرف سے شرارت کے خوف سے ہم گھر بھاگ جاتے تھے۔ پرانے لوگ یہ بھی کہتے تھے کہ یہ جن تنگ کرنے والوں کو نہیں چھوڑتے۔ گرمی کے دنوں میں ہم پانچ چھ لڑکے ان تنوں پر پتھر مار کے بھاگ جاتے کہ کہیں کوئی جن پکڑ نہ لے۔ ویسے وہ آج تک پکڑ نہیں سکے۔
نواب آف کالا باغ ملک امیر محمد خان کا قتل؛
کندیاں ہم تین سال رہے۔ اس دوران ۷۶۹۱ ء میں مجھے ابا جی کے ساتھ میانوالی جانے کا اتفاق ہوا۔ غالباً سردی کا موسم تھا۔ میں نے دریائے سندھ پہلی بار دیکھا اور کمپنی کے سٹیمر میں دریا کی سیر بھی کی تھی۔ مجھے میانوالی کے اس دورے کی اس سے زیادہ یاد باقی نہیں رہی۔ ہاں یہ یاد ہے جب واپسی کے لئے ہم ویگن میں سوار ہوئے تو یہ خبر ملی نواب ملک امیر محمد خاں کو ان کے بیٹے ملک اسداللہ خاں نے جائیداد کے تنازعے پر قتل کر دیا تھا۔ اس خبر نے ویگن میں سوار لوگوں کو افسردہ کر دیا تھا۔جائیداد انسان کی آنکھوں پر پٹی باندھ کر خون کی پہچان مٹا دیتی ہے۔ میرے پوچھنے پر ابا جی نے بتایا تھا کہ قتل ہونے والے مغربی پاکستان کے گورنر بھی رہے تھے، بڑے سخت انسان اور کالا باغ کے نواب بھی تھے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔