’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 12
اگلی صبح عنصر جاگا تو ماسٹر حمید سکول جا چکے تھے۔ دوا کے زیراثر وہ خاصی دیر تک سویا رہا تھا۔ البتہ نیند پوری ہونے کی وجہ سے وہ خود کو ہلکاپھلکا اور ہشاش بشاش محسوس کر رہا تھا۔ رات کی بارش کی وجہ سے موسم بھی بے حد خوش گوار تھا۔
ہلکی ہلکی ٹھنڈی ہوا دِل کو مسرور کر رہی تھی۔ عنصر نے ناشتا کیا اور گاﺅں کے اکلوتے بازار کی طرف چل پڑا جہاں ریاست کی دکان تھی۔ وہ دکان میں ہی موجود تھا۔ اس کی طبیعت کافی حد تک بہتر ہو چکی تھی۔ دُکان کا سارا کام کاج اس کے ملازم نے سنبھالا ہوا تھا۔
عنصر سلام کر کے دکان کے اندر داخل ہوا اور ریاست کی کرسی کے ساتھ پڑے بنچ پر بیٹھ گیا۔ حال احوال پوچھنے کے بعد عنصر نے ریاست کو گزشتہ رات اماں کا بتایا ایک ایک لفظ سنا دیا۔ ریاست حیرت زدہ اُس کی باتیں سنتا رہا۔
”میری بات کا تو تجھے یقین آیا نہیں تھا۔ اُمید ہے اب اماں کی باتیں سن کر کان کھل گئے ہوں گے۔“ ریاست نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”یقین آ گیا ہے یار۔ بہت اچھی طرح یقین آ گیا ہے۔“
’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 11 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
عنصر نے سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔
”نہیں۔ مت کر یقین۔ ایک بار اور جا کر مل آ اپنی خالہ نیک بخت سے۔“
ریاست نے اسے چڑاتے ہوئے کہا۔
”اچھا تو پھر تیار رہنا۔ آج رات کو دوبارہ چلتے ہیں۔“
عنصر نے مصنوعی غصے سے کہا۔
”بھائی تو نے جانا ہے تو جا شوق سے۔ مجھے معافی دے۔“
ریاست نے گھبرا کر کہا۔
اسے اندیشہ تھا کہ اگر عنصر نے ارادہ کر لیا تو وہ دوبارہ نیلی حویلی کی طرف جانے سے نہیں چُوکے گا۔
”مذاق کر رہا ہوں جانی۔“
عنصر نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
”میری توبہ۔ میں تو مذاق میں بھی ایسی بات نہ کروں۔“
ریاست نے بدستور گھبرائی ہوئی آواز میں کہا۔
دونوں باتیں کر رہے تھے کہ دُکان پر گاہکوں کی آمدورفت شروع ہو گئی۔ ریاست بھی ملازم کے ساتھ گاہکوں کی طرف متوجہ ہو گیا۔
اسے مصروف دیکھ کر عنصر نے اسے شام کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی۔ ریاست کے ہامی بھرنے پر وہ دکان سے نکلا اور گھر کی راہ لی۔ اس کی دکان سے نکل کر ابھی عنصر چند قدم ہی چلا تھا کہ بارشی پانی کا کیچڑ اڑاتی ایک ڈالہ گاڑی تیزی سے گزری۔
عنصر نے خود کو کیچڑ سے بچانے کی کوشش کی جو بے سود رہی۔ اچھا خاصا کیچڑ اس کے کپڑوں پر آ گرا۔ اُس کی پینٹ کیچڑ سے لتھڑ چکی تھی اور شرٹ پر بھی کافی چھینٹے پڑے تھے۔ غصے سے اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ اور تو کچھ نہ سوجھا اس نے ڈالے پر زوردار مکا جڑ دیا۔
”اندھے ہو کیا ؟“
عنصر پوری قوت سے چلایا۔
اس کا جی چاہ رہا تھا کہ ڈرائیور کو اس کی اس حرکت پر اچھی طرح سبق سکھا دے۔ مکے کی ضرب پڑنے سے ڈالہ رک گیا۔ اگلے ہی لمحے اس میں سے چار ہٹے کٹے آدمی چھلانگیں مار کر اُترے اور عنصر کی جانب بڑھنے لگے۔ ریاست دکان کے اندر کھڑا یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا۔ وہ بھاگم بھاگ باہر آیا اور عنصر اور ان آدمیوں کے درمیان حائل ہو گیا۔
”چھوڑیں جناب! ایسے واقعات ہمارے بازار میں روز ہوتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر لڑنا ویسے بھی اچھی بات نہیں ہے۔“
ریاست نے ذرا مودب ہو کر کہا۔
عنصر کو ریاست کے رویے پر شدید غصہ آیا۔ ان لوگوں نے ایک تو اس کے کپڑوں کو کیچڑ سے آلودہ کر دیا تھا اُوپر سے ریاست اُن سے ادب سے بات کر رہا تھا۔
”ریاست تم پرے ہو جاﺅ۔ ان لوگوں کو اس بدتمیزی کی معافی مانگنی پڑے گی۔“
عنصر نے ریاست کو ایک طرف دھکیلتے ہوئے غصے سے کہا۔
عنصر کی بات سن کر اُن چاروں کے چہروں پر غصے کے آثار نمودار ہو گئے۔ عنصر بھی پوری طرح لڑنے بھڑنے کیلئے تیار تھا۔ وہ چاروں اس کی جانب ایک بار پھر بڑھنے لگے ۔
”رُکو۔“
فضا میں ایک رعب دار آواز گونجی۔
آواز سن کر چاروں آدمی پیچھے مڑ کر ڈالے کی فرنٹ سیٹ کی طرف دیکھنے لگے۔ گاڑی کا دروازہ کھلا تو سفید کرتے میں ملبوس‘ کالا چشمہ پہنے بڑی بڑی مونچھوں والا ایک شخص اترا۔
عنصر کو اسے پہچاننے میں دیر نہ لگی۔ وہ چوہدری عمردراز تھا۔ باوقار انداز سے چلتے ہوئے وہ اس کے قریب آ کر رک گیا۔ چوہدری عمردرازکی نظریں اس کے چہرے پر جمی تھیں۔ اس نے اپنا چشمہ اتار دیا۔ اتنی دیر میں ڈرائیور بھی گاڑی بند کر کے آ گیا۔ یہ وہی شخص تھا جس کے بارے میں مشہور تھا کہ اس کا کان بدروح نے چبایا ہے۔
چوہدری عمردراز نے پہلے عنصر کے کپڑوں پر لگی کیچڑ کو دیکھا اور پھر اس کے چہرے کی طرف ایسے دیکھنے لگا جیسے اسے پہچاننے کی کوشش کر رہا ہو۔
”کون ہے یہ لڑکا؟“
وہ عنصر کو پہچان نہیں پایا تھا حالانکہ وہ اکثر اماں کے ساتھ اس کی حویلی میں جایا کرتا تھا۔ اس وقت وہ کم عمر تھا جبکہ اب جوان ہو چکا تھا۔
”یہ ماسٹر حمید کا بیٹا ہے چوہدری صاحب۔“
ریاست نے فوراً جواب دیا۔
”اوہ ! ماسٹر جی کا بیٹا۔“ چوہدری عمردراز نے طنزیہ انداز میں کہا۔
”پھر تو اس کا ادب ہم پر واجب ہے۔“
”چوہدری صاحب! یہ بازار ہے کوئی فارمولا ون ریس کا میدان نہیں جہاں آپ کا ڈرائیور اندھادھند گاڑی بھگاتا پھرے۔ اسے اس بدتمیزی کی معافی مانگنا پڑے گی۔“
عنصر نے سخت لہجے میں کہا۔
عنصر کی بات سن کر چوہدری عمردراز کے چہرے پر سختی کے آثار ابھر آئے۔
”اب تُو ہمیں سکھائے گا گاڑی چلانے کا طریقہ۔ بات تو ایسے کر رہے ہو جیسے یہ سڑک تیرے باپ کی ملکیت ہے۔“
معافی کا مطالبہ سن کر چوہدری عمردراز کو اپنی توہین محسوس ہو رہی تھی۔ عنصر اس کے مقام اور مرتبے کا لحاظ کئے بغیر بھرے بازار میں سینہ تان کر اس کے سامنے کھڑا تھا۔ آج تک کسی کو ایسا کرنے کی جرات نہیں ہوئی تھی۔ اوپر سے معافی کا مطالبہ اس کو غصہ دلانے کے لیے کافی تھا۔ اس لیے وہ اتنا سخت جملہ بولنے پر مجبور ہو گیا۔
”جہاں تک میرا خیال ہے یہ سڑک کسی کے بھی باپ کی نہیں ہے چوہدری صاحب۔“
عنصر نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا۔
”اس لیے سب کو یہاں تمیز کے دائرے میں رہ کر گاڑی چلانا چاہیے۔“
عنصر کے منہ سے اتنے الفاظ نکلنے کی دیر تھی کہ چوہدری عمردراز کے آدمی ایک بار پھر اس کی جانب لپکے مگر چوہدری عمردراز نے ہاتھ کا اشارہ کر کے انہیں روک دیا۔
چوہدری عمردراز کی آنکھیں شعلے برسا رہی تھیں۔ اس سے اتنی بےباکی سے آج تک کسی نے بات نہیں کی تھی اس لیے اس کے آدمی بھی دانت کچکچا رہے تھے۔ خود چوہدری عمردراز اسے خونخوار نظروں سے گھور رہا تھا مگر نجانے کیوں وہ اس سے مارکٹائی سے گریز کر رہا تھا۔
”بڑی گرمی ہے تیرے خون میں لڑکے۔ بالکل اپنے باپ پر گئے ہو۔“
چوہدری عمردراز نے مونچھوں کو تاﺅ دیتے ہوئے کہا۔
اس کا ایک آدمی آگے بڑھا اور چوہدری عمردراز کے کان میں سرگوشی کی۔
”چوہدری صاحب یہ وہی لڑکا ہے جو پرسوں رات نیلی حویلی کی طرف گیا تھا۔“
”ہونہہ۔“
چوہدری عمردراز کے چہرے پر طنزیہ مسکراہٹ در آئی۔
”گاﺅں کے حالات ٹھیک نہیں ہیں لڑکے۔ سنبھل کر چلا کر اور باتیں ہوش میں کیا کر ورنہ اس گاﺅں میں کب کیا ہو جائے کچھ پتا نہیں چلتا۔“
عنصر کو پہلے ہی اس کی باتوں پر غصہ آ رہا تھا۔ اس نے جواب دینے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ ریاست نے اس کا ہاتھ زور سے دبا دیا۔ یہ اس بات کا اشارہ تھا کہ وہ خاموش رہے۔
عنصر ہونٹ بھینچ کر رہ گیا۔
”یہ لڑکا شاید مجھے اچھی طرح سے جانتا نہیں ہے۔“
چوہدری عمردراز کی آواز گونجی۔
”ورنہ میرے آگے زبان چلانے کی جرات نہ کرتا۔ یہ گاﺅں میرا ہے اور اس کی ہر چیز بھی میری ہے۔ یہ بات اپنے ذہن میں بٹھا لو لڑکے۔“
”جی چوہدری صاحب ! یہ یونان سے دس برس بعد واپس آیا ہے۔ اس لیے آپ سے اچھی طرح واقف نہیں۔ میں سمجھا دیتا ہوں اسے۔“
عنصر کے بولنے سے پہلے ہی ریاست نے جواب دیدیا۔
اس نے بدستور عنصر کا ہاتھ پکڑ دبا رکھا تھا۔ اس کی پوری کوشش تھی کہ کسی قسم کا لڑائی جھگڑا نہ ہو جائے۔
”ہونہہ۔ اچھی طرح سمجھا دینا۔“
چوہدری عمردراز نے اپنی موچھوں کو تاو¿ دیا اور گاڑی میں جا کر بیٹھ گیا۔
”کمینہ کہیں کا۔“
عنصر نے چوہدری عمردراز کی گاڑی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”ریاست تم مجھے نہ روکتے تو میں ان کے دانت توڑ دیتا۔“
عنصر ابھی تک غصے میں بھڑک رہا تھا۔
گاڑی چلی گئی تو انہیں احساس ہوا اُن کے اردگرد کافی لوگ جمع ہو چکے تھے۔ وہ عنصر کو حیرت سے دیکھ رہے تھے کیونکہ آج تک چوہدری عمردراز سے کسی نے ایسے لہجے میں بات نہیں کی تھی۔
عنصر وہاں سے گھر چلا گیا۔ اس نے نہادھو کر کپڑے تبدیل کیے۔ چارپائی پر لیٹا تو سارا واقعہ اس کے دماغ میں گھوم رہا تھا۔
اسے چوہدری عمردراز پر بے حد غصہ آ رہا تھا۔ اماں نے بھی اس کے بگڑے ہوئے موڈ کو محسوس کیا اور وجہ پوچھی مگر وہ ٹال گیا۔ عنصر نہیں چاہتا تھا کہ اماں کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔
شام کو ریاست اس کے گھر آیا تو وہ گھوڑے بیچ کر سو رہا تھا۔ اس نے زور سے جھنجھوڑ کر عنصر کو جگایا۔ وہ آنکھیں ملتے ملتے اُٹھا تو ریاست کافی گھبرایا ہوا لگ رہا تھا۔
”عنصر یار بہت بُرا واقعہ ہوا ہے۔ وہ اپنا چاچا فرمان ہے نا۔ اس کی جوان بیٹی پروین اچانک غائب ہو گئی ہے۔ پرسوں اس کی شادی ہے۔“
ریاست نے پریشانی کے عالم میں کہا۔
”چاچا فرمان جو تیری گلی میں رہتا ہے۔“
عنصر نے چونک کر پوچھا۔
”ہاں یار وہی۔ وہ گلی میں ہی اپنی سہیلی کو ملنے گئی لیکن واپس نہیں آئی۔“
ریاست نے گھبرائی ہوئی آواز میں کہا۔
”جس دن ہم نیلی حویلی کی طرف گئے تھے۔ یہ اس سے اگلے دن کی بات ہے۔ گھر والوں نے میری طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے مجھ سے یہ بات چھپا لی۔ اب پتہ چلنے پر میں چاچے فرمان سے مل کر آ رہا ہوں۔ دونوں میاں بیوی کی حالت بہت خراب ہے یار۔ پروین ان کی اکلوتی بیٹی اور میری منہ بولی بہن ہے۔“
ریاست نے پریشانی کے عالم میں کہا۔
”اللہ نے چاہا تو وہ جلد ہی مل جائے گی۔ پریشان مت ہو۔“
عنصر نے اسے دلاسہ دیتے ہوئے کہا۔
”پریشانی ہی کی تو بات ہے عنصر۔ آج تک گاو¿ں سے جو بھی اغوا ہے اس کا کبھی سراغ نہیں ملا۔“ ریاست نے تشویشناک لہجے میں کہا۔
”کیا مطلب؟“
اس کی بات سن کر عنصر حیران ہو گیا۔
”تم میرے ساتھ تھانے چلو۔ وہاں جا کر تمہیں سب پتا چل جائے گا۔ “
عنصر نے فوراً ریاست کی تجویز مان لی۔ دونوں پکی سڑک سے ہوتے ہوئے موٹرسائیکل پر تھانے جا پہنچے۔ تھانیدار احسان اللہ اپنے کمرے میں ہی موجود تھا۔ عنصر نے اندر داخل ہو کر اسے سلام کیا تو اس نے خندہ پیشانی سے جواب دیا اور آمد کی وجہ پوچھی۔ چاچے فرمان کی بیٹی کی گمشدگی کا سن کر وہ بھی فکرمند ہو گیا۔
”دیکھیں جناب! فرمان علی کی بیٹی کے اغوا کا مقدمہ درج ہو چکا ہے۔ ہماری تفتیش ابھی جاری ہے۔ امید ہے وہ جلد ہی مل جائے گی۔ “
تھانیدار احسان اللہ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا۔
”تھانیدار صاحب! تین دن ہو گئے ہیں اس بات کو۔ اور آپ کو ابھی تک یہی پتا نہیں چلا کہ لڑکی کہاں ہے۔ “
عنصر نے چبھتا ہوا سوال کیا۔
”دیکھیں جناب! میں نے پورے کیریئر میں اتنا عجیب گاﺅں نہیں دیکھا۔ جہاں وارداتیہ تو دور واردات کا سراغ بھی نہیں ملتا۔ “
تھانیدار احسان اللہ نے پریشانی سے کہا۔
”آپ کے کہنے کامطلب ہے یہ کام کوئی سلیمانی ٹوپی پہن کر کرتا ہے۔ سڑک پر آپ کی چوکی ہے جہاں سے آپ کی مرضی کے بغیر کوئی گزر نہیں سکتا۔ اگر ملزم یہاں سے لڑکی کو لے کر نہیں گزرا تو یقینا گاو¿ں میں ہی ہو گا۔ پھر بھی آپ کو پتا نہیں وہ کہاں ہے۔“
عنصر کو اس کی بات سن کر غصہ آ گیا۔
اس کی حیرت کی وجہ بھی نہایت معقول تھی کیونکہ تھانہ گاﺅں کی پکی سڑک پر واقع تھا جس کے باہر پولیس چوکی بنی تھی۔ چوکی میں تعینات پولیس اہلکاروں کو ہر آنے جانے والے کی خبر ہوتی تھی۔ یہ ممکن نہیں تھا کہ کوئی یہاں سے جائے اور پولیس چوکی پر کسی کو علم نہ ہو۔ ریاست کے بقول گاﺅں سے اس سے پہلے بھی کچھ بچے غائب ہوئے اور ان سب کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہوا تھا۔ اس لیے سوچنے کی بات یہی تھی کہ اغوا کار اگر پولیس چوکی سے نہیں گزرتے تو پھر وہ انہیں لے کر کہاں سے جاتے ہیں جس کی پولیس کو بھی خبر نہیں۔
”آپ ٹھیک کہتے ہیں جناب! مگر ہم بھی انسان ہیں اور انسانوں کی طرح ہی سوچتے ہیں۔ ہمارے اہلکار پوری طرح چوکس ہو کر ڈیوٹی دے رہے ہیں۔ ہماری اطلاع کے مطابق ابھی تک کوئی بھی فرمان علی کی بیٹی کو لے کر یہاں سے نہیں گزرا اور گاو¿ں میں لڑکی کی تلاش جاری ہے۔ اگر وہ گاو¿ں میں ہی ہے تو جلد ہی مل جائے گی۔“
اگرچہ عنصر نے اس سے کچھ تلخ لہجے میں بات کی تھی لیکن تھانیدار احسان اللہ نے نہایت تحمل سے اسے جواب دیا۔
”آپ کی تمام باتیں درست ہیں تھانیدار صاحب لیکن ہمارے گاو¿ں سے آج تک جو بھی غائب ہوا ہے کبھی نہیں ملا۔ اسے آسمان کھا جاتا ہے یا زمین نگل جاتی ہے۔ کسی کو کچھ پتا نہیں۔ آپ ہماری پریشانی سمجھنے کی کوشش کریں۔ پروین چاچے فرمان کی اکلوتی بیٹی ہے۔ پرسوں اس کی شادی ہے۔ آپ نہیں جانتے وہ کس تکلیف سے گزر رہے ہیں۔“
اس بار ریاست بولا۔
تھانیدار احسان اللہ اس کی باتیں سن کر خاموش ہو گیا۔ اس کے پاس ریاست کی باتوں کا کوئی جواب نہیں تھا۔
”آپ نے کبھی چوہدری عمردراز کی حویلی جا کر دیکھا ہے۔“
عنصر کے اس اچانک سوال سے تھانیدار احسان اللہ اور ریاست دونوں ہی چونک پڑے۔ عنصر نے بلاسوچے سمجھے ہی اس کا نام لے لیا تھا۔ حالانکہ اپنے سوال کے بعد وہ خود سوچ میں پڑ گیا کہ اس نے کس بنیاد پر چوہدری عمردراز کا نام لیا ہے۔
”تھانے میں بھی چوہدری عمردراز ہی تمہارے اعصاب پر سوار ہے۔“
ریاست نے اس کے کان میں سرگوشی کی۔
”چوہدری عمردراز؟“
تھانیدار احسان اللہ نے چونک عنصر کی طرف دیکھا۔
”جب پروین کے اغوا کی اطلاع ملی تو اس وقت میں ان کی حویلی میں ہی ان کے ساتھ موجود تھا۔ اس کا اس واردات سے کیا تعلق؟“
”وہ .... میرے کہنے کا مطلب تھا کہ آپ تفتیش میں ان سے بھی مدد لیا کریں۔“
عنصر نے گڑبڑا کر کہا۔
”اس واقعے کی ہر پہلو سے تفتیش جاری ہے جناب۔ قانون کے ہاتھ بہت لمبے ہوتے ہیں۔ مجرم جو کوئی بھی ہے بچ نہیں پائے گا۔“
عنصر اور ریاست کو یہاں مزید ٹھہرنا مناسب محسوس نہ ہوا۔ انہوں نے تھانیدارسے مصافحہ کیا اور واپس جانے کے لیے مڑے۔ عین اسی لمحے تھانے کے صحن سے شوروغوغا بلند ہوا۔
ایک سپاہی بھاگم بھاگ کمرے میں داخل ہوا اور بولا۔
”تھانیدار صاحب ! ساتھ والے گاو¿ں سے دو بچے اغوا ہو گئے ہیں۔ ان کے گھر والے آپ سے ملنا چاہتے ہیں۔“
تھانیدار احسان اللہ نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا۔ ریاست اور عنصر بھی ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے۔ گھر کی طرف لوٹے تو راستے میں بھی ان کا موضوع سخن یہی تھا۔
”یہ تو بہت خوفناک صورت حال ہے یار عنصر۔“
ریاست نے پریشانی سے کہا۔
”تمہیں شاید معلوم نہیں دنیا بھر میں ہر سال بارہ لاکھ بچوں کی چائلڈ ٹریفکنگ کی جاتی ہے۔“
”بارہ لاکھ۔“
عنصر نے بتایا تو ریاست کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
”جی بارہ لاکھ۔ اور انسانی سمگلنگ سے جتنی دولت کمائی جاتی ہے اسے سن کر تمہارے ہوش اڑ جائیں گے۔ دنیا بھر میں ہر سال ہیومن ٹریفکنگ سے چالیس کھرب روپے سے زیادہ کمائے جاتے ہیں اور ہمارے ملک کا شمار اس حوالے سے بدترین ممالک میں ہوتا ہے۔ افسوسناک بات یہ بھی ہے کہ اندرون ملک بچوں کی سمگلنگ کے حوالے سے کوئی قانون بھی موجود نہیں ہے۔ “
عنصر دم لینے کے لیے رکا۔
”بلکہ ایک ہمارا ملک ہی کیا دنیا کے تہذیب یافتہ کہلانے والے ممالک بھی اسی صف میں کھڑے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کا اس حوالے سے ریکارڈ بہت برا ہے۔اغوا کے بعد ان بچوں کا جنسی استحصال کیا جاتا ہے، ان سے مزدور کا کام لیا جاتا ہے، ان کے اعضا کی تجارت کی جاتی ہے حتی کہ دہشت گرد انہیں اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔“
ریاست نے عنصر کی بات کا کوئی جواب نہ دیا۔ اس کی آنکھوں کی سامنے چاچے فرمان کی بیٹی پروین کا چہرہ گھوم رہا تھا۔ عنصر گھرلوٹا تو ایک اور تشویشناک خبر اس کی منتظر تھی۔(جاری ہے)
’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 13 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں