’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 13
ریاست کو گھر چھوڑ کر رات گئے عنصر گھر پہنچا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کے گھر میں چوری ہو گئی ہے۔ عنصر ریاست کے ساتھ تھانے چلا گیا تھا، ماسٹر حمید اور اماں چاچے فرمان کی خبرگیری کے لیے گئے تھے اسی دوران گھر میں چوری ہو گئی۔ ماسٹر حمید نے گھر واپسی پر چور کو دیوار پھلانگتے ہوئے دیکھا تو اسے پکڑنے کی کوشش کی لیکن ہٹے کٹے چور نے انہیں زور سے پرے دھکیل دیا۔ اسی دھینگامشتی میں ماسٹر حمید دیوار سے جا ٹکرائے جس سے ان کا سر پھٹ گیا تھا۔ خون نکلنے سے ان کے کپڑے بھی خراب ہو گئے تھے۔ عنصر نے جلدی سے ان کی مرہم پٹی کی اور کمرے میں لے جا کر بستر پر لٹا دیا۔
اماں ایک طرف کھڑی چور کو کوسنے دے رہی تھیں۔ چور تقریباً دو لاکھ روپے نقدی اور زیورات لوٹ کر فرار ہوا تھا۔ عنصر کے لیے خوش قسمتی کی بات یہ تھی کہ اس نے اپنے سارے پیسے بنک میں جمع کرا رکھے تھے اس لیے بڑے نقصان سے بچ گیا تھا۔ عنصر نے اماں کو دلاسہ دیا اور انہیں دبانا شروع کر دیا۔ اس کی عادت تھی کہ وہ سونے سے پہلے اماں کو دبا کر سوتا تھا۔ جلد ہی وہ نیند کی وادی میں اتر گئیں۔ اماں کے سو جانے کے بعد عنصر نے ابا کی طرف دیکھا تو وہ بستر پر بے چینی سے کروٹیں لے رہے تھے۔
عنصر انہیں دبانے کے لیے گیا تو وہ اٹھ کر دوزانو بیٹھ گئے۔ ان کے چہرے کے تاثرات سے فکرمندی جھلک رہی تھی جسے عنصر نے بھی محسوس کر لیا۔
”بیٹے ! مال و دولت انسان کی زندگی میں اتنی اہمیت نہیں رکھتے مگر حادثات زندگی کا رُخ بدل دیتے ہیں۔ مال و دولت انسان پھر کما لیتا ہے مگر خدا زندگی صرف ایک بار ہی دیتا ہے اس لیے اس کی حفاظت کرنی چاہیے۔“
’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 12 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
”ابا میں سمجھا نہیں۔“
عنصر نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”بیٹے تمہیں عمردراز سے اُلجھنا نہیں چاہیے تھا۔“
ماسٹر حمید کی پیشانی پر پریشانی کی شکنیں گہری ہو گئیں۔
”اوہ.... آپ کو کس نے بتایا؟“
”بس پتہ چل گیا کہیں سے۔ تمہیں یہ بات نہیں بھولنا چاہیے کہ میں بھی اسی گائوں کا باسی ہوں۔ مجھے گائوں کے تمام معاملات کی خبر رہتی ہے۔“
عنصر جانتا تھا کہ ماسٹر حمید کی گائوں میں اچھی خاصی دعاسلام ہے۔ اس لیے کسی نے انہیں یہ بات بتا دی ہو گی۔
”میں تمہیں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ آئندہ عمردراز سے الجھنے سے گریز کرنا ورنہ تمہاری مشکلات میں اضافہ ہو گا۔ چھوٹی چوہدرانی کے واقعے کے بعد میں نے بہت کچھ سہا ہے۔ گاو¿ں میں شاید واحد شخص میں ہوں جس کی آج تک عمردراز سے نہیں بنی۔ میں نے تو اپنی زندگی گزار لی ہے۔ نہیں چاہتا کہ تمہاری اس کے ساتھ کوئی بات بگڑے۔ وہ بہت طاقتور ہے۔ کبھی بھی کچھ بھی کرا سکتا ہے۔“
اتنی بات کر کے ماسٹر حمید خاموش ہو گئے۔
”آپ کو شک ہے یہ چوری عمردراز نے کرائی ہے؟“
عنصر نے چونک کر پوچھا۔
”مجھے نہیں پتا بیٹے یہ کس کا کام ہے۔ لیکن میں نے چوہدرانی نیک بخت کی موت کے بعد آواز اٹھائی کی تو وہ میرے پیچھے پڑ گیا۔ مجھے نوکری سے نکلوانے کی کوشش کی۔ ڈرایا دھمکایا حتیٰ کہ مجھ پر حملہ بھی کروایا۔ تمہاری اماں نے رو دھو کر مجھے قسم دی کہ میں چوہدری عمردراز سے اُلجھنا بند کر دوں۔ تم یونان چلے گئے تھے۔ میں نے بھی سوچا کہ مجھے کچھ ہو گیا تو تمہاری اماں کا کیا بنے گا؟ پھر میں نے حالات سے سمجھوتہ کر لیا۔ تمہارے یوں اچانک نیلی حویلی کی طرف جانے، آج عمردراز سے تلخ کلامی اور رات کو چوری کی واردات نے مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ تم اتنی دیر بعد واپس آئے ہو۔ ہم نہیں چاہتے تمہیں کوئی نقصان ہو۔“
ماسٹرحمید کے چہرے سے صاف لگ رہا تھا کہ وہ عنصر سے پیش آنے والے حالیہ واقعات سے خوش نہیں تھے۔ انسان چاہے خود پہاڑ جتنا مضبوط ہو لیکن اولاد کے معاملے میں تمام والدین کے دل میں ہمیشہ نرم گوشہ ہوتا ہے۔ خود مصیبت جھیل لیں گے لیکن اولاد پر ہلکی سی آنچ بھی برداشت نہیں ہوتی۔ اسی رو سے ماسٹر حمید بھی نہیں چاہتے تھے کہ چوہدری عمردراز کی مخالفت اور اس سے ٹکر مول لے کر انہوں نے جن مشکلات کا سامنا کیا ہے وہی سب ان کا بیٹا بھی بھگتے۔ ویسے بھی وہ ان کی اکلوتی اولاد تھی۔
”ابا جان آپ فکر مت کریں۔ آپ نے ہمیشہ مجھے ہمت اور بہادری سے حالات کا سامنا کرنا سکھایا ہے۔ شاید انہی خوبیوں نے مجھ میں تجسس اور جذبے کو پروان چڑھایا ہے۔ میں کسی پر ظلم و ستم ہوتے برداشت نہیں کر سکتا تو یہ کیسے برداشت کر سکتا ہوں کہ کوئی میری طرف یا میرے خاندان کی طرف انگلی اٹھائے۔“
عنصر نے مضبوط لہجے میں کہا۔
”بیٹے ہمارا دین ہمیں یہی سکھاتا ہے کہ ہم ظلم کا مقابلہ کریں مگر....“
ماسٹرحمید نے بات ادھوری چھوڑ دی۔
”ابا جان ہم نے کچھ غلط نہیں کیا مگر پھر بھی بہت کچھ بھگت چکے ہیں۔ آپ بس یہ بتائیں آپ کو لگتا ہے ہمارے گھر میں ہونے والی چوری کے پیچھے چوہدری عمردراز کا ہاتھ ہے۔“
ماسٹر حمید کی باتیں سن کر اسے شک ہوا کہ کہیں بازار میں پیش آنے والی تلخ کلامی کا بدلہ چوہدری عمردراز نے ان کے گھر چوری کرا کے تو نہیں لیا۔
”یقین سے نہیں کہہ سکتا۔“ ماسٹر حمید بولے۔
”یہاں تو ہر جرم اتنی صفائی سے ہوتا ہے کہ بڑے بڑوں کے دماغ گھوم گئے۔ اسی وجہ سے ہر واردات پراسرار بن جاتی ہے۔ اوپر سے رہی سہی کسر نیلی حویلی کے آسیب نکال دیتے ہیں۔ یہ سارا سلسلہ تمہارے یونان جانے کے بعد شروع ہوا اور ابھی تک جاری ہے۔“
ماسٹرحمید پریشانی سے بولے۔
”ٹھیک ہے ابا۔ آپ فکرمند نہ ہوں۔ میں آئندہ احتیاط کروں گا۔“
عنصر ماسٹرحمید کو لٹا کر سونے کے لیے اپنے کمرے میں چلا گیا۔ بستر پر لیٹا لیکن اس کا سر بری طرح چکرا رہا تھا۔ جب سے وہ واپس آیا تھا بے سکونی کسی چڑیل کی طرح اس کے ساتھ چمٹی تھی۔ پہلے اسے وارث اور اکرم کی موت کی دہشت ناک خبر ملی۔ پھر وہ خود نیلی حویلی کی بدروح کا شکار ہوتے ہوتے بچا۔ پھر پروین کا اغوا، چوہدری عمردراز کے ساتھ اس کی تلخ کلامی اور اب اس کے گھر چوری کی واردات اور ابا کے زخمی ہونے سے وہ بھی پریشانی کا شکار ہو گیا تھا۔ کسی ڈراو¿نی فلم کی مانند وہ نہایت ہی غیرمحسوس طریقے سے ان واقعات کا حصہ بنتا جا رہا تھا۔
عنصر ایک پڑھا لکھا اور مضبوط ارادے کا مالک جوان تھا۔ اس کے باپ نے اس کی دینی اور معاشرتی بہت اچھی تربیت کی تھی۔ اس نے خود پر بیتنے والے اور دوسروں کی زبانی سنے تمام واقعات پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنا شروع کر دیا۔ اس کے یونان جانے سے واپس آنے تک حالات بہت غیرمعمولی ہو چکے تھے۔
”یااللہ ! میری مدد فرما۔ “
عنصر کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔
سونے سے پہلے عنصر نے فیصلہ کر لیا کہ آئندہ وہ حتی الامکان چوہدری عمردراز سے الجھنے سے گریز کرے گا مگر پھر ایک اور واقعہ ہو گیا جس سے گاﺅں میں تہلکہ مچ گیا۔
عمردین جلدازجلد گھر پہنچنا چاہتا تھا مگر اُسے بہت دیر ہو چکی تھی۔
اس کی بیوی شہر کے سول ہسپتال میں ایک ہفتے سے زیرعلاج تھی۔ اس کی طبیعت میں بہتری آتے ہی عمردین کو کچھ فرصت ملی تو اس نے گھر چکر لگانے کا پروگرام بنا لیا۔ اسے اپنے بچوں کی بے حد فکر لاحق تھی جسے اس کی بوڑھی ماں سنبھالے ہوئے تھی۔ ہسپتال میں مسلسل رہنے کی وجہ سے وہ بہت تھکن محسوس کر رہا تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ ہفتے بعد گھر جا کر ایک تو اپنی نیند پوری کر لے دوسرا نہا دھو کر نئے کپڑے پہن لے۔ اسی بہانے اپنے گھر والوں کی خبرگیری بھی کر لے گا اور تازہ دم بھی ہو جائے گا۔ اس نے اگلے روز پھر واپس ہسپتال جانا تھا کیونکہ اس کی بیوی کے کچھ ٹیسٹ ہونا ابھی بھی باقی تھے۔
اسے خرابی قسمت کہیں یا کچھ اور جب وہ نہرکنارے اڈے پر پہنچا تو روشن نگر گاﺅں جانے والے تمام تانگے اور گاڑیاں واپس جا چکی تھےں۔ اس کے سامنے اب تاریک منزلیں ہی تھیں۔ بادل نخواستہ وہ پیدل چل پڑا۔ پولیس چوکی پر پہنچا تو گائوں جانے والا راستہ بند تھا۔ اس نے چوکی کے اندر جھانک کر دیکھا تو ایک پولیس اہلکار اونگھ رہا تھا۔ عمردین نے آوازیں دے کر اسے جگایا۔ اس نے عمردین کو پہچان لیا تو راستہ کھول دیا۔
عمر دین آگے بڑھا تو گاﺅں جانے کے لیے اس کے سامنے دو راستے تھے۔ ایک پکی سڑک جو گاڑیوں اور تانگوں وغیرہ کے لیے مختص تھی اور دوسرا کچا راستہ۔ کھیتوں کے بیچوں پگڈنڈی۔ دونوں راستے گاﺅں کی طرف جاتے تھے مگر دوسرا راستہ اسے زیادہ مفید نظر آیا کیونکہ وہ کافی مختصر تھا۔ اگر وہ پکی سڑک کا راستہ اختیار کرتا تو اسے دوگنا سے بھی زیادہ فاصلہ طے کرنا پڑتا۔ بہت زیادہ تھکا ہونے کی وجہ سے اس نے کھیتوں سے ہوتے ہوئے گائوں جانے کا فیصلہ کیا۔
چونکہ وہ ہسپتال میں کافی دنوں سے اپنی بیوی کی تیمارداری میں مصروف تھا اس لیے گاﺅں میں رونما ہونے والے حالیہ واقعات سے بالکل بے خبر تھا۔ بہرحال اس نے پگڈنڈی پر قدم رکھ دیے۔ اپنی ہی سوچوں میں مگن وہ چلا جا رہا تھا۔ کبھی بیوی کا خیال آتا، کبھی ماں اور بچوں کا جنہیں دیکھے اسے ایک ہفتہ بیت گیا تھا۔
کچھ دُور چلنے کے بعد اسے محسوس ہوا چوکی کے بلب سے آنے والی روشنی پیچھے رہ گئی ہے۔ چاند کی مدھم روشنی بہرحال اس قابل تھی کہ وہ گھر جانے میں اس کی رہنمائی کر سکے اس لیے وہ اس کے آسرے پر چلا جا رہا تھا۔ راستہ اگرچہ دشوار نہیں تھا مگر پھر بھی وہ پھونک پھونک کر قدم رکھ رہا تھا۔
عمردین نے پگڈنڈی پر چلتے چلتے نصف راستہ طے کر لیا تو اسے دُور سے گاﺅں میں جلنے والی اِکادُکا بتیاں آسمان پر چمکتے تاروں کی طرح روشن نظر آنے لگیں۔ اس نے اطمینان کا گہرا سانس لیا اور اپنی رفتار تیز کر لی۔ کچھ دور جانے کے بعد اچانک اسے سسکاری کی تیز آواز سن کر اپنے قدموں کو لگام ڈالنا پڑی۔
پگڈنڈی کے بیچوں بیچ ایک کالا ناگ پھن پھلائے بیٹھا تھا۔ چونکہ برسات کا موسم تھا اس لیے ایسے موسم میں زہریلے کیڑے مکوڑوں کا زمین سے باہر نکل آنا معمولی بات تھی لیکن ایسے خوفناک سانپ سے اس کا واسطہ پہلی بار پڑا تھا۔ گائوں کی روشن لائٹیں دیکھ کر اسے جو اطمینان نصیب ہوا تھا وہ کافور ہو چکا تھا۔ اس کی جگہ اب اس کے پورے جسم میں خوف سرایت کر چکا تھا۔ اس نے شی شی کی آوازیں نکال کر سانپ کو راستے سے پیچھے ہٹانے کی کوشش کی جو بے سود ٹھہری اور وہ اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوا۔
عمردین نے مڑ کر پیچھے دیکھا۔ ایک لمحے کو اس کے دل میں خیال آیا کہ وہ اسی راستے سے واپس جا کر پکی سڑک پکڑ لے لیکن دوسرے ہی لمحے یہ سوچ کر ہی اس کا دل ڈوبنے لگا کہ اتنا فاصلہ طے کرنے کے بعد وہ واپس جائے اور پھر پکی سڑک کا طویل راستہ اختیارکرے۔ اس صورت میں اسے اچھی خاصی دیر ہو جاتی۔ اوپر سے جس قدر وہ تھکن کا شکار تھا اس خیال کو عملی جامہ پہنانا اس کے بس کی بات نہیں تھی۔ اس لیے اس نے واپسی کے خیال کو ذہن سے جھٹک دیا۔
ناگ پھن پھلائے پگڈنڈی کے درمیان میں بیٹھا تھا اور کسی صورت عمردین کی حالت پر ترس کھانے کو تیار نظر نہیں آ رہا تھا۔ عمردین نے اپنے اردگرد کا جائزہ لیا تاکہ اسے کوئی ایسی چیز مل جائے جس کی مدد سے وہ سانپ کو راستے سے ہٹا سکے۔ اس کو کوشش بارآور ہوئی اور اسے پگڈنڈی کے کنارے ایک پودا نظر آیا۔ اس نے آو¿ دیکھا نہ تاو¿ اسے اکھاڑنا شروع کر دیا۔ تھوڑی سی زورآزمائی کے بعد وہ اسے اکھاڑنے میں کامیاب ہو گیا۔
اگرچہ وہ اس کی مدد سے ناگ کا مقابلہ نہیں کر سکتا لیکن پھر بھی اس نے ایک کوشش کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس نے شاخدار پودے کو سانپ کی آنکھوں کے سامنے لہرا کر شی شی آوازیں نکالنا شروع کر دیں لیکن اس کا یہ عمل اس کے گلے پڑ گیا۔ اس کا الٹا اثر ہوا اور کالے سیاہ سانپ کی سسکاریوں کی آوازمزید تیز ہو گئی۔ عمردین اس کی آنکھوں کے سامنے پودا لہراتا لہراتا خطرناک حد تک اس کے قریب چلا گیا۔
سانپ نے اپنی دو شاخہ زبان منہ سے باہر نکال کر لہرائی۔ اپنے پھن کو تھوڑا سا پیچھے کی جانب جھکایا اور پھر پوری قوت سے آگے کی جانب ہو کر اپنے منہ کا لعاب عمردین پر اچھال دیا۔ سانپ کا لعاب سیدھا عمردین کے ہاتھ پر گرا۔ اسے اپنے ہاتھ پر جلن کا شدید احساس ہوا اور وہ درد سے کراہنے لگا۔ اس نے پودے کو ایک جانب پھینک کر اپنے ہاتھ کو جلدی سے کپڑوں سے صاف کیا لیکن درد کی شدت برقرار رہی۔ سانپ کی سسکاریاں جاری تھیں جیسے وہ اسے مزید مقابلے کا چیلنج دے رہا ہو۔
عمردین کو اب احساس ہو گیا تھا کہ سانپ کو راستے سے ہٹانا اتنا آسان کام نہیں جتنا وہ سوچ رہا تھا۔ اس نے سانپ کو وہیں چھوڑا اور دائیں بائیں جانب دیکھا۔ دونوں جانب دھان کے کھیت تھے جن میں تازہ تازہ پودے لگائے گئے تھے۔ دھان کی فصل کی نشوونما کے لیے بے حد پانی درکار ہوتا ہے اس لیے کھیتوں میں تقریباً ڈیڑھ فٹ تک پانی کھڑا تھا۔
سانپ کی مصیبت سے بچنے کے لیے عمردین کے پاس اب کھیتوں میں اترنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔ وہ اپنی دائیں جانب موجود کھیت میں اترا تو اس کی ٹانگیں گھٹنوں تک پانی میں ڈوب گئیں۔ اس کے پاو¿ں دلدلی مٹی میں دھنس گئے۔ اس نے پاو¿ں اوپر اٹھا کر آگے بڑھنے کی کوشش کی تو وہ من من بھاری ہو گئے۔ مرتا کیا نہ کرتا بے چارا عمردین زور لگا کر اپنے آپ کو دھکیل کر آگے بڑھتا رہا لیکن مصیبتیں اس کے سامنے منہ کھولے کھڑی تھیں۔ اچانک اس کا پاو¿ں پھسلا اور وہ شڑاپ کی آواز کے ساتھ کھیت میں گر گیا۔ عمردین جلدی جلدی اٹھا۔ اس کے سارے کپڑے پانی سے لتھڑ چکے تھے۔ اس نے گھبراہٹ میں اپنی رفتار تیز کردی۔ اس کے یوں چلنے سے پانی میں ابھرنے والی شڑاپ شڑاپ کی آواز رات کے سناٹے کی خوفناکی میں مزید اضافہ کر رہی تھی۔ اس ساری غیرمتوقع صورتحال نے بیچارے کے اوسان خطا کر دیے۔ اس نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ یہ رات اس پر اتنی بھاری پڑے گی۔
پانی میں کچھ دیر اندھادھند چلنے کے بعد جب اسے محسوس ہوا کہ وہ سانپ سے کافی آگے نکل آیا ہے تو وہ کھیتوں سے نکل کر دوبارہ پگڈنڈی پر آ گیا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو سانپ غائب ہو چکا تھا۔ اس نے ایک نظر اپنا جائزہ لیا۔ سر سے پاو¿ں تک وہ مٹی میں لتھڑ چکا تھا۔
چند لمحے سانسیں بحال کرنے کے بعد اس نے دوبارہ گائوں کی طرف قدم بڑھا دیے۔ اس کی حالت پہلے ہی بہت خراب تھی رہی سہی کسر اس ایڈونچر نے نکال دی تھی۔ پژمردہ قدموں سے ہولے ہولے وہ چلا جا رہا تھا حتیٰ کہ نیلی حویلی کے قریب آ گیا۔ یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ مٹی میں لتھڑا، تھوڑے سے بازو کھولے، آہستہ آہستہ جس انداز سے وہ چل رہا تھا اگر اس وقت کوئی راہگیر اسے دیکھ لیتا تو اسے بھی نیلی حویلی کا ہی کوئی بھوت سمجھتا۔
عمردین وارث، اکرم کی موت اور عنصر، ریاست سے پیش آنے والے واقعے سے تو آگاہ نہیں تھا لیکن گائوں کا باسی ہونے کے ناطے اسے اتنا ضرور پتا تھا کہ نیلی حویلی آسیب زدہ ہے۔ اس لیے جب وہ نیلی حویلی کے قریب پہنچا تو فطری طور پر خوف اس پر غالب آ چکا تھا۔ وہ زیرلب مختلف اوراد پڑھ رہا تھا۔ نیلی حویلی کے قریب آتے ہی چاند کی مدھم روشنی بھی کچھ زیادہ ہی گہری ہو گئی تھی جو اب اسے ایک ہیولے کی مانند لگ رہی تھی۔
عمردین نے زیرلب ورد تیز کر دیے۔ وہ تیزی سے نیلی حویلی پار کرنا چاہتا تھا لیکن اس کے بھاری بھرکم قدم آڑے آ رہے تھے۔ ابھی وہ نیلی حویلی کے مرکزی دروازے کے قریب پہنچا ہی تھا کہ اسے کسی کے دوڑنے کی آواز آئی۔
اس نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ادھر ادھر دیکھا مگر دائیں بائیں، آگے پیچھے کہیں کوئی دکھائی نہ دیا۔ اس نے اسے اپنا وہم سمجھا اور نظرانداز کر کے آگے بڑھنے لگا مگر دوڑنے کی آوازمسلسل آ رہی تھی۔ وہ پوری توجہ سے اندازہ لگانے کی کوشش کر رہا تھا کہ توآواز کہاں سے آ رہی ہے۔ پھر اسے محسوس ہوا کہ دوڑنے کی آواز ادھر ادھر سے نہیں بلکہ نیلی حویلی کے اندر سے آ رہی ہے۔
عمردین کا دل دَھک دَھک کرنے لگا۔ اس نے نیلی حویلی کی جانب دیکھنا شروع کر دیا جو رات کے وقت بہت خوفناک لگ رہی تھی۔ دوڑنے کی آواز تیزی سے نیلی حویلی کے مرکزی دروازے کی جانب بڑھ رہی تھی۔ غیرارادی طور پر اس کے چلنے کی رفتار دھیمی ہو گئی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے تجسس اور خوف نے مل کر اس کے پاﺅں پکڑ لیے ہیں۔
دوڑنے کی آواز حویلی کے مرکزی دروازے کے قریب آتی جا رہی تھی اس لیے عمردین کا سارا دھیان دروازے پر مرکوز ہو گیا۔ وہ تیزی سے دھڑکتے دل کے ساتھ آنے والے منظر کی پیش بندی کر رہا تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔ اچانک نیلی حویلی کے سلاخ دار آہنی دروازے سے کوئی دھڑام سے ٹکرایا۔
اس تصادم کی گونج دار آواز نے فضا کی طلسماتی خاموشی توڑ دی ۔ عمر دین خوف کے مارے اُچھل پڑا۔ اس کا دل اتنے زور سے دھڑکا جیسے ابھی سینہ پھاڑ کر باہر آ جائے گا۔ اس نے دروازے کی طرف دیکھا تو اسے پیلے کپڑوں میں ملبوس بکھرے بالوں والی ایک لڑکی دکھائی دی۔ وہ زور زور سے چیخ رہی تھی۔ ”مجھے بچاﺅ۔ مجھے بچاﺅ۔ مجھے بچاﺅ۔“
عمر دین کے لیے یہ منظر بہت ہی بھیانک تھا۔ سنسان رات میں‘ سنسان راستے پر سنسان حویلی میں ایک اکیلی لڑکی کی موجودگی اس کے اوسان خطا کرنے کیلئے کافی تھی۔ اس کی زبان پر یکایک ”آل تُو جلال تُو آئی بلا ٹال تُو“ جاری ہو گیا۔
اس کے رونگٹے کھڑے ہو چکے تھے۔ اس نے آﺅدیکھا نہ تاﺅ پوری قوت سے دوڑ لگا دی۔ راستے میں وہ ایک دوبار لڑکھڑا کر گرا بھی مگر پھر ہمت کر کے دوڑتا رہا۔
مدد کی آوازیں یکدم نسوانی چیخوں اور پھر مکروہ قہقہوں میں تبدیل ہو گئیں۔ پھر اچانک ہر طرف گہری خاموشی چھا گئی مگر عمر دین پوری قوت سے دوڑتا رہا۔ اسے اپنی جان بچانے کی بس یہی ایک صورت دکھائی دے رہی تھی۔ وہ بھاگتا رہا حتیٰ کہ اپنے گھر پہنچ گیا۔ بری طرح ہانپتے ہوئے وہ دھڑام سے اپنے گھر کے دروازے سے ٹکرایا اور بے ہوش ہو گیا۔
سورج کی روشنی پھیلتے پھیلتے گاﺅں میں عمردین کا قصہ بھی پھیل چکا تھا۔ ہر طرف خوف کی فضا تھی۔ لوگ بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے تھے۔کچھ لوگوں کے مطابق وہ کوئی لڑکی نہیں بلکہ چڑیل تھی جو لڑکی کا روپ دھار کر اسے اپنی جانب بلا رہی تھی۔
اگر عمردین اس کے پاس چلا جاتا تو یقینا اس کا حشر بھی اکرم اور وارث جیسا ہوتا۔ یہ تو اس کی قسمت اچھی تھی کہ اس نے دوڑ لگا دی ورنہ کچھ بھی ہو سکتا تھا۔ لوگ طرح طرح کی باتیں سوچ رہے تھے مگر عمردین کی حالت ٹھیک نہیں تھی۔ اس پر غشی کے دورے پڑ رہے تھے۔
محلے دار بھاگ کر امام مسجد کو بلا لائے۔ انہوں نے آ کر دم پھونکا اور اذان دی تو عمردین کو کچھ افاقہ ہوا اور وہ گہری نیند سو گیا ورنہ اس کی حالت دیکھی نہیں جا رہی تھی۔ خوف ایک بار انسان پر حاوی ہو جائے تو آسانی سے نہیں اترتا سو یہی کچھ عمردین پر بیت رہا تھا۔
نیلی حویلی کے آسیب کا گاﺅں والوں کو اکثر و بیشتر سامنا رہتا تھا مگر حالیہ دنوں میں ان میں اضافہ ہو گیا تھا۔ اسی بات نے لوگوں کے خوف میں اضافہ کر دیا تھا۔ دوسری جانب الیکشن سر پر آنے کی وجہ سے چودھری عمردراز کی حویلی کی رونقیں بھی بڑھ گئی تھیں۔ شہر کی بڑی بڑی سیاسی شخصیات اور کاروباری افراد کی آمد کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔(جاری ہے)
’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 14 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں