’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 14
عنصر ریاست کو ملنے اس کی دُکان پر گیا تو اس نے اسے گزشتہ رات عمردین سے پیش آنے والا واقعہ سنایا۔ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے عنصر خاموشی سے ساری تفصیلات سنتا رہا۔
”یار ریاست ! یہ پریشان کرنے والی باتیں چھوڑ۔ میرا کہیں گھومنے کو دل چاہ رہا ہے۔“
عنصر نے چائے کا آخری گھونٹ بھرتے ہوئے کہا۔
”اچھی طرح جانتا ہوں تمہیں۔ آرام سے بیٹھی رہنے والی چیز نہیں ہو تم۔“
ریاست بولا۔
”بہرحال بتاﺅ کون سی جگہ جانا چاہتے ہو؟“
”کوئی ایسی جگہ جو میں نے پہلے نہ دیکھی ہو۔“
عنصر نے کپ ٹرے میں رکھتے ہوئے کہا۔
”اہرام مصر جانے کے بارے کیا خیال ہے۔“ ریاست نے شرارتاً کہا۔
”یار مذاق مت کرو۔ میں واقعی کہیں سیر کے لیے جانا چاہتا ہوں۔ اتنے دن ہو گئے گھر رہ کر بیزار ہو گیا ہوں۔“
’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 13 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
عنصر نے جمائی لیتے ہوئے کہا۔
ریاست نے جواب دینے کیلئے منہ کھولا ہی تھا کہ بازار کے کچھ لوگ آ گئے۔ وہ سب الیکشن کے سلسلے میں ہونے والی میٹنگ کے لیے چوہدری عمردراز کی حویلی جا رہے تھے اور ریاست کو بھی ساتھ لے جانے کیلئے زور لگا رہے تھے۔
ریاست ٹال مٹول میں مصروف تھا مگر عنصر کے ذہن میں کچھ اور ہی چل رہا تھا۔ وہ اُٹھا اور اس نے ان کے ساتھ جانے کی ہامی بھر لی۔ اس کی بات سن کر ریاست کا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔
”گھبراو¿ مت ۔ میں کسی بکھیرے میں نہیں پڑنا چاہتا اس لیے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ چوہدری عمردراز سے معذرت کر لوں۔ شاید اس دن اس کی اتنی غلطی نہ ہو اور میں نے زیادہ ہی ردعمل دکھا دیا ہو۔“
عنصر کی بات سن کر ریاست نے اثبات میں سر ہلا دیا اور خوشی خوشی اس کے ساتھ چوہدری عمردراز کی حویلی جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ اس نے دکان ملازم کے سپرد کی اور چل پڑا۔ چوہدری عمردراز کی حویلی پہنچے تو وہاں لوگوں کا جم غفیر تھا مگر خود وہ نظر آ رہا تھا اور نہ اس کے ملازم۔ ہال نما جس کمرے میں سب بیٹھے تھے وہاں لوگوں کے طرح طرح کے تبصروں سے کان پڑی آواز سنائی نہ دے رہی تھی۔
انہیں بیٹھے کافی دیر ہو گئی مگر چوہدری عمردراز نہ آیا۔ عنصر اکتا کا اٹھ کھڑا ہوا اور ریاست کو باہر نکلنے کا اشارہ کیا۔ صبح کے دس بج رہے تھے مگر سوائے ہال کے پوری حویلی میں خاموشی تھی۔ باہر نکل کر عنصر نے ایک طرف چلنا شروع کر دیا۔
”بھائی کچھ بتاو¿ گے۔ ہم کہاں جا رہے ہیں؟“
ریاست نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔
”یار مجھ سے مزید انتظار نہیں ہو رہا۔ چوہدری عمردراز حویلی کے اندر ہے وہیں اس سے ملاقات کر کے واپس چلتے ہیں۔“
عنصر نے اسے سمجھانے کے انداز میں کہا۔
”واہ .... مان نہ مان میں تیرا پروہنا۔ چوروں کی طرح ملنے جائیں گے تو لینے کے دینے نہ پڑ جائیں۔“
ریاست نے گھبرا کر کہا۔
”فکر نہ کرو کچھ نہیں ہوتا۔ میں سب سنبھال لوں گا۔ ہم یہاں لڑائی جھگڑا کرنے نہیں بلکہ امن وآشتی کا پیغام لے کر آئے ہیں۔“
عنصر نے آگے چلتے ہوئے کہا۔
”یااللہ رحم ! جب تک اس لڑکے کے ساتھ ہوں جان‘ مال‘ عزت‘ آبرو سب کچھ تیری امان میں ہے۔“
ریاست نے اونچی آواز میں دعا مانگی۔
”شش۔ “
عنصر نے ہونٹوں پر انگلی رکھتے ہوئے اُسے خاموش رہنے کا اشارہ کیا۔ گردوبیش کا جائزہ لیتے وہ حویلی کے پچھلے حصے میں داخل ہو گئے۔ یہاں کچھ کمرے نظر آ رہے تھے۔ عنصر بڑی احتیاط سے ایک ایک کر کے تمام کمرے دیکھ رہا تھا۔ ریاست کا دل بری طرح دھڑک رہا تھا۔ اسے ابھی تک عنصر کے اس طرح چوہدری عمردراز کی حویلی کی تلاشی لینے کی وجہ سمجھ نہیں آئی تھی۔ تمام کمروں کے وسط میں واقع ایک کمرے کا دروازہ دوسرے کمروں کے دروازوں کی نسبت کافی بڑا تھا۔ عنصر کو گمان ہوا کہ شاید یہ کمرہ چوہدری عمردراز کا ہے۔ دروازہ تھوڑا کھلا رہ گیا تھا۔ عنصر نے آرام سے اسے دھکیل کر اندر جھانکا لیکن یہ کمرہ بھی خالی تھا۔
باہر نکل کر اس نے آہستگی سے دروازہ بند کیا اور آگے بڑھنے ہی والا تھا کہ اس کی آنکھوں کی پتلیاں حیرت سے پھیلتی چلی گئیں۔ کمرے میں اس کی نظر ایک ایسی چیز پر پڑی تھی جسے دیکھ کر وہ ٹھٹک گیا۔ ریاست بڑی خاموشی سے اس کی تمام حرکات و سکنات دیکھ رہا تھا۔ عنصر دوبارہ دروازہ کھول کر کمرے میں داخل ہوا تو وہ بھی پیچھے پیچھے ہو لیا۔ یہ کمرہ دیگر کمروں کی نسبت کافی کشادہ تھا۔ کمرے میں رکھا پرتعیش سامان چوہدری عمردراز کی شان و شوکت اور شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کی گواہی دے رہا تھا۔ عنصر آہستگی سے چلتا ہوا بیڈ کے ساتھ پڑی ٹیبل کے قریب آ کر رک گیا اور اس پر پڑی ٹارچ اُٹھا لی۔
”اسے پہچانتے ہو؟“
اس نے دھیمی آواز میں ریاست سے پوچھا۔
”ہاں میں اسے پہچانتا ہوں۔ یہ ایک ٹارچ ہے۔ یہ آدھ فٹ کے قریب لمبی ہے۔ اس کے دو بٹن ہیں۔ چھوٹا بٹن کم روشنی کیلئے اور بڑا بٹن زیادہ روشنی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اس کی ٹانگیں نہیں ہوتیں لیکن پھر بھی یہ دو سیلوں سے چلتی ہے۔ کیا تم مجھے یہاں یہ دکھانے لائے ہو ۔“
ریاست نے آہستگی سے اس کی کلاس لے لی۔
”یہ میری ہے۔“
عنصر نے اس کی بات نظرانداز کرتے ہوئے سنجیدگی سے کہا۔
”اگر یہ تمہاری ہے تو پھر یہاں شوپیس کی طرح کیوں پڑی ہے۔“
ریاست فل ٹائم اس کا مذاق اُڑانے کے موڈ میں تھا۔
”یہ دیکھو۔ جب یہ ٹوٹ گئی تھی تو یہ ٹیپ میں نے لگائی تھی اِسے جوڑنے کے لیے۔ یہ اس وقت میرے ہاتھ میں تھی جب ہم کھیتوں میں بیہوش ہوئے تھے۔“
عنصر نے سنجیدگی سے کہا۔
اسے سنجیدہ دیکھ کر ریاست کو سوجھ گئی کہ معاملہ گمبھیر ہے۔
”میرا پرس‘ موبائل فون ہر چیز محفوظ تھی مگر یہ غائب تھی۔ مجھے یہ بات کھٹک رہی ہے کہ میری ٹارچ چوہدری عمردراز کی حویلی میں کیا کر رہی ہے۔ “
عنصر نے کہا۔
”تیرے کہنے کا مطلب ہے اسے خالہ نیک بخت کا بھوت وہاں سے اٹھا کر لایا اور یہاں رکھ دیا۔“
ریاست نے اس کے ہاتھ میں پکڑی ٹارچ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”ایسا ہی کچھ ہوا ہے۔ تم خود سوچو، ہم کھیتوں میں بیہوش ہوئے تھے۔ پھر یہ ٹارچ یہاں پر کیسے آ گئی؟“
عنصر نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”یہ حرکت چوہدری عمردراز کے ملازموں کی ہو سکتی ہے۔“ ریاست نے بولا۔
”مگر انہیں اس ٹارچ کی کیا ضرورت....۔“
عنصر کی بات ادھوری رہ گئی کیونکہ باہر سے قدموں کی آواز آ رہی تھی جو لمحہ بہ لمحہ اسی کمرے کی طرف بڑھ رہی جہاں وہ موجود تھے۔ ریاست گھبرا گیا۔
عنصر نے احتیاط سے ٹارچ وہیں رکھ دی جہاں سے اٹھائی تھی۔ اس نے ریاست کو اشارہ کیا کہ وہ پلنگ کے نیچے چھپ جائے اور خود تیزی سے کپڑوں کی الماری کی آڑ لے لی۔ یکدم دروازہ کھلا اور کوئی اندر داخل ہو گیا۔ ریاست دل ہی دل ہی میں دعا مانگ رہا تھا کہ ان دونوں کو کوئی دیکھ نہ لے ورنہ مصیبت کھڑی ہو جائے گی۔
”حیرت کی بات ہے۔“
نووارد نے ادھرادھر نظریں گھما کر دیکھتے ہوئے کہا۔
”چوہدری صاحب اپنے کمرے میں بھی نہیں ہیں۔“
ریاست نے اس کی آواز پہچان لی۔ وہ گاﺅں کا ہی ایک آدمی تھا جو چوہدری عمردراز کو ڈھونڈ رہا تھا۔ کمرہ خالی دیکھ کر وہ دروازہ بند کر کے واپس چلاگیا۔اُس کے جانے کے بعد عنصر الماری کی اوٹ سے باہر نکل آیا۔ ریاست بھی لڑھکتا ہوا پلنگ کے نیچے سے باہر آ گیا۔
کمرہ بند کر کے عنصر آگے بڑھ گیا۔ دونوں نے بڑی ہوشیاری سے حویلی کا جائزہ لیا مگر ہر کمرہ خالی ملا۔ چوہدری عمر دراز پوری حویلی میں نہیں تھا اور نہ ہی اس کا کوئی ملازم۔ پوری حویلی خالی تھی سوائے اس ہال کے جہاں لوگ بیٹھے تھے۔ دونوں دوست حویلی کے پچھلے حصے سے نکل کر ہال کے سامنے کھڑے ہو گئے۔ کچھ لوگ ہال کے باہر بھی کرسیاں بچھائے بیٹھے تھے۔
چوہدری عمر دراز کی گاڑی حویلی میں ہی کھڑی تھی۔ اِس لحاظ سے اسے حویلی میں ہی موجود ہونا چاہیے تھا۔ وہ دونوں یہ سوچ ہی رہے تھے کے چوہدری عمردراز کہاں ہے کہ اچانک ہال ”چوہدری عمردراز زندہ باد“ کے نعروں سے گونج اُٹھا۔ انہیں حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔
چوہدری عمردراز باہر سے نہیں آیا تھا بلکہ حویلی کے اندر سے ہی برآمد ہوا تھا۔ دونوں نے حویلی کا ایک ایک کمرہ نہایت احتیاط سے دیکھا تھا لیکن انہیں چوہدری عمردراز کہیں نظر نہیں آیا مگر اب وہ اپنے پانچوں ملازموں کے ساتھ ہال میں جلوہ گر تھا۔
البتہ اس کی ناک سوجی ہوئی تھی جیسے کسی نے اسے زوردار گھونسا رسید کیا ہو۔ ریاست بھی حیرت کے سمندر میں ڈُبکیاں کھا رہا تھا۔ بہرحال دونوں ستونوں کی آڑ لے کر حویلی سے باہر نکل گئے اور وہاں سے سیدھے دکان پر جا پہنچے۔ اندر بیٹھتے ہی ریاست نے ملازم کو کھانا کھانے بھیج دیا۔
ریاست چوہدری عمردراز کی حویلی سے ٹارچ ملنے اور اس کی پراسرار طریقے سے ہال میں آمد پر حیرت زدہ ضرور تھا لیکن وہ اسے غیرمعمولی واقعہ نہیں سمجھ رہا تھا۔ ہو سکتا ہے ٹارچ اس کے کسی ملازم کے ہاتھ لگی ہو اور اس نے لا کر چوہدری عمردراز کے کمرے میں رکھ دی ہو۔ لیکن چوہدری عمردراز کی پراسرار آمد اسے ہضم نہیں ہو رہی تھی۔
”جہاں تک مجھے سمجھ آئی ہے تم چوہدری عمردراز سے معافی مانگنے نہیں گئے تھے۔“
ریاست کی بات سن کر عنصر خیالات کی دنیا سے باہر آ گیا۔
”بہت دماغ چلنے لگا ہے تمہارا۔“
عنصر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”تمہاری ایک ایک رگ سے واقف ہوں میں۔ تمہارا وہاں جانے کا مقصد کچھ اور تھا۔“
ریاست نے اس کی جانب دیکھتے ہوئے کہا۔
”میں بس ایک نظر اس کی حویلی دیکھنا چاہتا تھا اور قدرت نے خودبخود اس کا بندوبست کر دیا۔“
عنصر نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”اب تم کیا کرو گے؟“ ریاست نے پوچھا۔
”پتا نہیں۔“ عنصر نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔
”مجھے تم پر اعتبار نہیں کیونکہ تم جب بھی کچھ کرتے ہو بہت ہی برا کرتے ہو۔“
عنصر ریاست کی بات سن کر ہنسنے لگا۔
”میرا خیال ہے اب مجھے چلنا چاہیے۔ اماں کے ساتھ کہیں جانا ہے۔اس لیے اب کل دوبارہ ملیں گے۔“
عنصر دکان سے باہر نکلنے لگا تو ریاست نے اس کا بازو پکڑلیا۔
”وہ تم سے ایک ضروری بات کرنا تھی۔ چاچے فرمان کی بیٹی کے متعلق۔“
ریاست کی بات سن کر عنصر اس کی جانب استفہامیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔
”یار! وہ چاچے فرمان نے بتایا ہے کہ چونکہ اس کی بیٹی کی شادی تھی اس لیے اسے کچھ پیسوں کی ضرورت تھی۔ وہ چوہدری عمردراز سے ادھار پیسے مانگنے گیا تو اس نے اسے روپے دینے کا وعدہ کیا لیکن ساتھ ہی اس کی بیٹی کا رشتہ بھی مانگ لیا۔“
”کیا....؟“
ریاست کی بات نے عنصر کو حیران کر دیا۔
”چاچا فرمان نہ مانا تو اس نے اسے دھمکیاں بھی دی تھیں۔“
”اور تم یہ بات مجھے آج بتا رہے ہو۔“
”مجھے بھی آج ہی پتا چلی ہے۔“
”ہمیں یہ بات پولیس کو بتانی چاہیے۔“
”نہیں یار چاچے فرمان علی سے سختی سے منع کیا ہے کہ یہ بات کسی کو بھی معلوم نہیں ہونی چاہیے ورنہ اس کی رہی سہی عزت کا بھی کباڑہ ہو جائے گا۔ میں نے ایک دوست کی حیثیت سے تمہیں بتا دیا اور تم بھی اس بات کا اب راز ہی رکھنا۔“
عنصر نے ریاست کی بات کا کوئی جواب نہ دیا لیکن اس بات نے اس کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔(جاری ہے)
’نیلی حویلی پر چھائے ، آسیب کے سائے ۔۔۔۔ ‘قسط نمبر 15 پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں