*ہے کوئی آگ بجھانے والا*

  *ہے کوئی آگ بجھانے والا*
  *ہے کوئی آگ بجھانے والا*

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app


نو مئی کی رات بھی بڑی عجیب رات تھی،مجھ سمیت ہر محب وطن پاکستانی ساری رات سو نہ سکا۔ ایسا تو ڈھاکہ فال کے وقت بھی نہ ہوا کہ جی ایچ کیو پر حملے سمیت متعدد کور کمانڈر ھاوسز میں توڑ پھوڑ کے بعد آگ لگا دی گئی  ہو اور ڈیوٹی پر موجود فوجیوں کو تضحیک کا نشانہ بنانے کے ساتھ ساتھ اس طرح کی نعرہ بازی کی گئی  ہو جن کو سن کر دل چھلنی سے ہو گیا ہو۔
صدافسوس!
یہی کسر رہ گئی تھی۔یہ بھیانک دن بھی دیکھنے باقی تھے۔75 سالوں میں یہ نیچ کام تو ہمارا ازلی دشمن بھارت بھی نہ کر سکا جو ہم نے خود اپنے ہاتھوں سے کر دیا۔اس نیچ حرکت پر پوری دنیا میں ہماری جو رسوائی ہوئی۔اسے لکھنا محال ہے اور پروپیگنڈہ ماسٹر بھارتی میڈیا کے ہاتھ تو سونے کی چڑیا لگ گئی  ہو۔ہماری افواج اور بکھری قوم پر پھبتیاں کسنے کا تو جیسے مقابلہ شروع ہو گیا ہو۔ہمیں ایک فسادی قوم کی طرح پیش کیا جاتا رہا۔یوں محسوس ہو رہا تھا۔ اندرون کھاتے بھارتی میڈیا، آر ایس ایس کے پیروکاروں اور مودی کے یاروں کی عید ہو گئی  ہو اور تو اور کہنے والے تو یہ بھی کہتے نہیں تھکتے۔کچھ ہماری سیاسی جماعتوں کے مشترکہ دشمن آپس میں گتھم گتھا ہیں لیکن اس سارے جھمیلے میں کس کا نقصان ہوا ہے۔وہ میرے آپکے، ہم سب کے پاکستان کا ہوا ہے۔یہاں سوال یہ ابھرتا ہے۔آخرایسی نوبت آئی کیوں؟ 
اس بات سے قطعہ نظر عسکری املاک پر حملہ کرنے والوں کا تعلق کس سیاسی پارٹی سے تھا۔حملہ آور ماچھی، پانڈی یا کوئی  بھی تھے۔وہ تھے تو پاکستانی شہری؟


یہاں اس بات کو بھی چھوڑ دیجئے۔نوجوانوں کی ذہن سازی کرنے میں عمران خان کا ہاتھ ہے اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ان تمام عوامل کو ایک طرف رکھ کر اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہو گا،آخر کیونکر فرد واحد بھی قوم کی جند جان افواج پاکستان کے سامنے کھڑا ہو گیا ہے، کیا ہم اتنے کمزور ہو گئے ہیں؟ کوئی  بھی ایرا غیرا آکر پلک جھپکنے میں ہمارے بچوں کے دماغ ہپناٹائز کر لے گا اور بچے، نوجوان، بزرگ خواتین و حضرات سینکڑوں کی تعداد میں اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر اپنے گھروں سے نکل پڑیں گے۔
سوچنے والوں کو ٹھنڈے دماغ سے سوچنا ہو گا۔اس سارے کھیل میں سب سے بڑا نقصان جس کے بارے فکر نہیں کی جا رہی ہے وہ کروڑوں نوجوانوں کے دماغ میں جو لاوا پک چکا ہے،وہ مزید گرم سے گرم تر ہوتا جا رہا ہے،معلوم نہیں کس جادوگر نے جادو کیا ہے مگر اسے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر کے نہیں دیکھا جا سکتا کہ بلی نہیں کھائے گی،اسے انتہائی سیریس انداز سے لینا ہو گا۔آجکل کے بچے ہمارے زمانے کے بچوں کی طرح بالکل نہیں ہیں۔جن کو ابا جی نے جھڑکا تو وہ سہم کر ایک کونے میں جا کر بیٹھ گئے اور چوں تک نہ کی۔آج کل کے بچے ناصرف سوال پر سوال داغتے ہیں بلکہ جواب مانگ کر ہی جان چھوڑتے ہیں۔ اس مسئلے کو اگنور نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ اولاد لولی لنگڑی، ذہنی معذور، آوارہ گرد یا پڑھی لکھی ہونے کے باوجود خود سر ہو، اولاد سب کو ہی عزیز ہوتی ہے۔اسے ہمیشہ پیار سے ہی سمجھایا جاتا ہے۔ہم نے اپنے بڑوں سے اکثر سنا ہے۔بچے بار بار مار کھانے پر ڈھیٹ ہو جاتے ہیں۔اسی لئے ہر سکول، کالج و یونیورسٹی کے باہر لکھا ہوتا ہے۔مار نہیں پیار……ہمارے ذمہ داران کو اس سلوگن پر عمل کرنا ہو گا اور یہ بات پتھر پر لکیر ہے۔ہر ملک کے کلیدی ادارے کے سربراہ کا رول قوم کے باپ کی طرح ہوتا ہے۔ایک اچھے باپ کی نشانی یہ ہوتی ہے۔وہ بچے کی ہر بات کا جواب چھڑی اٹھا کر نہیں دیتا ہے


لکھنے والے تو یہ بھی لکھتے ہیں۔گو ہماری قوم ڈنڈے کی یار ہے مگر اس نازک اور گھمبیر صورتحال میں اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کے بجائے معاملات کو سلجھانے کا اہتمام کیا جانا چاہیے کیونکہ ڈنڈا برداری، جبر اور ظلم و ستم کا دور اب رہا نہیں ہے۔ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے اس بھیانک دور میں چند سکینڈز میں خبر دنیا کے کونے کونے میں پہنچ جاتی ہے اور آج سے 15 سال پہلے کی گئی  بات بھی باہر نکل آتی ہے مطلب پھونک پھونک کر قدم رکھنے میں ہی عافیت ہے۔یہاں اگر کوئی  یہ کہے۔کوئی پرواہ نہیں۔او بھائی!پرواہ توکرنا پڑے گی۔یہ مرنے مارنے۔ہم نہیں یا تم نہیں والی شدت پسند سوچ کو بدلنا ہی ہو گا۔بولنے والے تو یہ بھی بولتے ہیں۔کسی بھی سیاسی پارٹی کو کالعدم قرار دینے اس کے وجود کو ختم کرنے سے، اس کے سیاسی نظریے کو جڑ سے اکھاڑہ نہیں جا سکتا،وقتی طور پر کچھ چیزیں نظروں سے اوجھل ہو جائیں گی پھر وہ پوری شدت سے واپس آ کر اپنے مٹے ہوئے وجود کو ثابت کریں گی۔ تاریخ ان واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ہمارے پاس وقت بہت کم ہے۔ ہمارے بدخواہوں نے ہمیں چاروں طرف سے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے والوں کو اپنی خودپرستی، انا پسندی کی چادر اتار کر ایک لمحے کے لئے اکیلے بیٹھ کر فکر کرنا ہو گی۔ ملک بچانے والوں کو نفرت کی آگ کو بڑھوتی دینے والوں سے کنارہ کشی اختیار کرنا ہو گی۔
بدقسمتی سے پیارا دیس ذاتی مفاد کے غلاموں سے بھرا پڑا ہے۔ذاتی مفاد کے اس کینسر کی وجہ سے ہم پہلے ہی اپنا ایک ٹکڑا گنوا بیٹھے ہیں۔ہم مزید کسی سانحے کے متحمل نہیں ہو سکتے ہیں۔سیاست دانوں کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔ سیاست دان جو کرسی، کرسی اور اپنے پیٹ کے علاوہ کچھ نہیں سوچتے۔انہیں ڈوبتے ملک کی طرف دیکھنا ہو گا۔یہ ملک ہے تو ہم سب ہیں۔


سابق وزیراعظم جناب عمران خان کے لئے بڑا ہی ضروری ہے۔وہ آگ بجھائیں۔مزید آگ نہ لگائیں۔وہ اپنے 4 سالہ بلنڈرز کا ملبہ کسی اور پر نہ ڈالیں۔انہیں گلی محلے کے آوازیں کسنے والے چھوٹے بچے کی طرح بنا ثبوت افواج پاکستان کی اعلی قیادت پر الزامات کی بوچھاڑ سے پرہیز کرنا چاہئیے۔ریاست مدینہ کے دعویدار خان کو شاید معلوم نہیں۔دین اسلام میں بھی 4 گواہان کی گواہی طلب کرنے کا حکم ہے۔کپتان کا او دیکھو نا،اپنے اوپر ہونے والے حملے اور جناب ارشد شریف کے قتل سمیت باقی معاملات کا مدعا کسی ایک فرد واحد پر تھوپنے کا چورن بیچنے سے اجتناب کرنا ہو گا۔خان کو میچور سیاسی لیڈر کا ثبوت دیتے ہوئے، اپنے مخالفین کو برے سے پکارنے اور کنٹینر والی بے تکی بڑھکوں سے کنارہ کشی اختیار کرنا ہو گی۔
جناب عمران خان اور پی ٹی آئی کی اعلی قیادت و کور کمیٹی کو عسکری عمارتوں پر حملہ کرنے کی شدید الفاظ میں فوری مذمت کرنا ہو گی اور سوشل میڈیا پر چلنے والے بھونڈے ٹرینڈز سے لاتعلقی کا اظہار کرنا ہو گا۔کارکنان کو ریڈ لائن کراس کرنے، توڑ پھوڑ اور انتشار کی سیاست سے دوری اختیار کرنا ہو گی۔اسی میں سب کی بھلائی اور ملکی سالمیت ہے۔
اب تویہی دعا کی جا سکتی ہے۔
خدا کرے!
میرے دیس کو آگ بجھانے والا میسر آ جائے۔آمین

مزید :

رائے -کالم -