آئینی ترامیم اور بلاول بھٹو

     آئینی ترامیم اور بلاول بھٹو
     آئینی ترامیم اور بلاول بھٹو

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

 قدرت کا کرشمہ دیکھئے کہ آئینی ترامیم پر اتفاق رائے نواز شریف پیدا کر سکے نہ آصف زرداری اور نہ ہی مولانا فضل الرحمن یہ فریضہ سر انجام دے سکے،ان سب کے برعکس بلاول بھٹو بھرپور وکالت کرتے ہوئے اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو اور اپنی والدہ شہید بے نظیر بھٹو کی یاد تازہ کرتے جا رہے ہیں۔ دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ بلاول بھٹو ہر ٹی وی چینل پر جلوہ افروز ہو رہے ہیں اور نہ صرف اینکر پرسنز،بلکہ عوام الناس بھی انہیں سنتے ہوئے کوفت محسوس نہیں کرتے،ان کے بارے میں چور ڈاکو کے القاب استعمال نہیں کرتے جو کہ نواز شریف اور آصف زرداری کا مقدر بن چکے ہیں۔ 

ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ نواز شریف اس موقع پر عوام میں آئینی پر اتفاق رائے کے لئے قائدانہ کردار ادا کرتے، مگر ان کے خلاف2014ء سے2020ء تک ایسا گھناؤنا پراپیگنڈہ کیا گیا ہے کہ اب لوگ انہیں دیکھتے ہی اس پراپیگنڈے کے تابع ان سے مخاصمت محسوس کرنے لگتے ہیں۔اس ایک بات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ پراپیگنڈے کی طاقت کیا ہوتی ہے اور کس طرح تین بار کے وزیراعظم کو بے قدری کے سمندر میں دھکیل دیتا ہے۔ یقینی طور پر اس حوالے جنرل پاشا، جنرل ظہیرالاسلام اور جنرل فیض حمید کا کردار ملک کی سیاسی و عسکری تاریخ میں ہمیشہ زیر بحث رہے گا کہ کس طرح انہوں نے وقت کی مقبول قیادت کو غیر مقبول اور ایک غیر مقبول شخص کو مقبول عام لیڈر میں تبدیل کیا، لیکن وہ کیا کہتے ہیں کہ عوام کبھی غلط نہیں سوچتے اور اجتماعی سوچ کبھی بھی غلط سمت میں زیادہ دیر نہیں چلتی،چنانچہ آج عمران خان اڈیالہ جیل میں پڑے ہوئے ہیں اور ان کے حق میں ایک بھی ڈھنگ کا احتجاج مال روڈ پر دیکھنے کو نہیں ملا، البتہ یہ بات بھی ماننا پڑے گی کہ نواز شریف بھی کھلے بندوں مال روڈ پر گھومنے کے متحمل نہیں ہو سکتے،کیونکہ ان کے خلاف جس قدر پراپیگنڈہ ہو چکا ہے، اس کے بعد کچھ پتہ نہیں کہ کس موڑ پر انہیں سبکی کا سامنا کرنا پڑ جائے۔ 

خیر بات ہو رہی تھی بلاول بھٹو کی مفاہمانہ سیاست کی جو یقینی طور پر انہوں نے اپنے والد سے سیکھی ہے، حالانکہ ان کی والدہ اور نانا مزاحمتی سیاست کا استعارہ سمجھے جاتے تھے، لیکن آصف علی زرداری کے پاکستان کھپے کے ایک نعرے نے سارا منظر نامہ تبدیل کردیا ہے اور اب پاکستان پیپلز پارٹی بھی پنجاب سے آؤٹ ہونے کے باوجود ملک گیر جماعت اس لئے سمجھی جا رہی ہے کہ سندھ میں ابھی بھی اس کی واضح مقبولیت موجود ہے اور سندھی سیاسی سوجھ بوجھ کے لئے گڑھی خدا بخش کے علاوہ کسی اور سمت نہیں دیکھتے، چنانچہ بلاول بھٹو نے ملک کے اندر اس آئینی ترمیم کے حق میں دوستانہ فضا قائم کردی ہے اور اب ہر کوئی نہ صرف ان کی بات سن رہا ہے بلکہ سمجھ بھی رہا ہے، اگر یہی عالم رہا تو وہ وقت دور نہیں ہے کہ پنجاب میں پی ٹی آئی کے اراکین ایک ایک کرکے پیپلز پارٹی کی چھتری پر آبیٹھیں گے، کیونکہ وہ کسی بھی طرح نون لیگ کے حامی نہیں ہیں اور نون لیگ کی مخالفت میں ہی انہوں نے پی ٹی آئی کا رخ کیا تھا اور اب پی ٹی آئی سے پیپلز پارٹی کی جانب تو اڑان بھری جا سکتی ہے، لیکن نون لیگ کی جانب ہر گزنہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو اِس وقت پوری طرح پُراُمید ہیں کہ وہ پنجاب میں اپنی پارٹی کی سیاسی ساکھ بحال کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔

جہاں تک آئینی ترمیم کا تعلق ہے تو قانون کے پیشے سے تھوڑی بہت شدھ بدھ ہونے کے ناتے ہم یہی کہہ سکتے ہیں کہ اس کی جتنی ضرورت آج ہے،شائد کبھی بھی نہ ہو کیونکہ ہماری ہائیکورٹوں نے آرٹیکل 199 اور سپریم کورٹ نے آرٹیکل 184(3)کو جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی سمجھ رکھا ہے اور اس کے بے دریغ استعمال سے جہاں ملک کا سیاسی منظرنامہ بگڑ کر رہ گیا ہے وہاں پر ملک میں کرپشن کا دور دورہ ہو گیا ہے اور ان دو آرٹیکلز کی موجودگی میں جس بھونڈے طریقے سے دونوں عدالتیں ازخود نوٹس کے نام پر دھماچوکڑی مچائے  ہوئے  ہیں، اس سے پاکستانیوں کا نظام عدل پر اعتماد ختم ہو گیا ہے۔ راقم ایسے بہت سے نامور وکلاء کو جانتا ہے جن کی ساری وکالت آرٹیکل 199کے تحت براہ راست ہائیکورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا کر اپنے کلائنٹ کے لئے اسٹے آرڈر کے حصول تک محدود تھی جس کی بنا پر قبضہ گروپوں، سرکاری ملازموں اور معاشرے کے غلط عناصر کو کھل کھیلنے کا موقع ملا اور نہ صرف پاکستانی بلکہ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بھی جائیدادوں کے حوالے سے بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ ان سب قباحتوں کے پیچھے اعلیٰ عدلیہ کی ازخود نوٹس کی طاقت اور آرٹیکل 199اور 184(3)کے تحت کسی بھی معاملے میں براہ راست مداخلت کا حق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ آج جب بلاول بھٹو آئینی ترامیم کے حق میں بات کرتے ہوئے عدالتی چیرہ دستیوں کا ذکر کرتے ہیں تو بڑے بڑے اینکر پرسنز گونگے بہرے اندھے پڑجاتے ہیں اور ان کی چرب زبانی گھاس چرتی نظر آتی ہے۔ 

قوی امید ہے کہ بلاول بھٹو 26ویں آئینی ترمیم کے حق میں فضا سازگار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور قوم کی ان عدالتی چیرہ دستیوں سے جان چھوٹے گی جس کے سبب ملک میں ماردھاڑ، قبضہ مافیا کی کارستانیوں  اور اعلیٰ عدلیہ میں کرپٹ اور کالی بھیڑوں کا محاسبہ ہو سکے اور معاشرے کو ہر سطح پر ایک سکون حاصل ہو گا۔ یہ الگ بات کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ ہر دس سال بعد آئین میں سے کوئی نہ کوئی ایسی پخ نکال لیتی ہے جس کے سہارے وہ سیاسی اتھل پتھل پیدا کردیتی ہے اور اعلیٰ عدلیہ سے اپنے مرضی کے نتائج حاصل کرکے مزے کرتی ہے۔ امید ہے اس کا بھی قلع قمع ہو گا۔ 

٭٭٭٭٭

مزید :

رائے -کالم -