ملٹری ہسٹری اور جنرل ہسٹری: ایک تجزیہ (1)
سکول میں طالب علمی کے زمانے میں جن مضامین سے مجھے دلچسپی زیادہ تھی ان میں تاریخ (History) بھی تھی۔ سکندراعظم دنیا کا ایک بہت دلیر اور جرأت مند جرنیل تھا۔ والدہ مرحومہ بتایا کرتی تھیں کہ اس نے ساری دنیا فتح کرلی تھی۔ سکول کے دور میں ”دنیا“ کا مفہوم ہماری نظر میں کچھ اور تھا لیکن جوں جوں معلوماتِ عامہ کی آنکھ کھلتی گئی یہ مفہوم تبدیل ہوتا گیا بلکہ وسیع تر ہوتا چلا گیا۔ ہم سوچتے تھے کہ اگر دنیا گول تھی تو سکندر نے ساری دنیا فتح کیسے کرلی تھی؟ اس کا مطلب ہمیں بتایا جاتا تھا کہ دنیا کا آخری کنارہ ایک بہت بڑا سمندر ہے جس سے آگے کچھ نہیں۔ سکندر بھی اس سمندر کے کنارے پر آکر رک گیا تھا۔…… خواجہ خضر اور سکندر کا قصہ یاد کیجئے۔ لیکن ہم پاک پتن کے باسیوں کو کیا معلوم تھا کہ سمندر کیا ہوتا ہے۔ ہم جھیلیں، پہاڑ، جزیرے، برف پوش چوٹیاں، جنگلات کے ذخیرے وغیرہ تصویروں میں دیکھ لیتے تھے۔ یہ تو کئی برس بعد میں پتہ چلا کہ یہ جغرافیائی نقوش کیسے ہوتے ہیں، ان کی ہیئت کیا ہوتی ہے، ان کے باشندے کیسے ہوتے ہیں، ساحلِ بحر، گرداب، بحری جہاز، جوار بھاٹا اور امواجِ بحر وغیرہ ہمیں پڑھائی تو جاتی تھیں لیکن ”شنیدہ کے بود مانندِ دیدہ“…… اساتذہ کرام نے اگر خود بھی یہ جغرافیائی نقوش نہ دیکھے ہوں تو وہ اپنے شاگردوں کو کیسے بتا سکتے تھے؟
ایک اور غلط فہمی دسویں کلاس کے آخری دور میں اس وقت دور ہوئی جب ایک نووارد طالب علم نے کہ جو کراچی سے آکر سکول میں داخل ہوا تھا، یہ بتایا کہ سکندراعظم ”مسلمان“ نہیں تھا۔ ساری کلاس یہی سمجھتی تھی کہ سکندر مسلمان تھا۔ ہماری کلاس میں سکندر حیات نام کا ایک کلاس فیلو بھی تھا، ہم نے جب اسے بتایا کہ سکندر مسلمان نہیں تھا تو اس نے سخت حیرانی کا اظہار کیا اور کہا کہ میں اپنے والدین سے پوچھوں گا کہ یہ نام انہوں نے کیا سوچ کر رکھا تھا۔ اور جب اس نوارد لڑکے نے بتایا کہ سکندر کی پیدائش حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے بھی ایک ہزار سال قبل ہوئی تھی تو ہم ایک دوسرے کا بِٹ بِٹ منہ دیکھتے رہ گئے۔
سکندر، ہندوستان میں دریائے جہلم کے کنارے جب راجہ پورس سے نبردآزما ہوا تھا تو وہ سن 323 ق۔ م تھا۔ یہ ق۔ م، ”قبل مسیح“ کا مخفف بتایا جاتا تھا۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہ قبل مسیح کیا ہوتا ہے اور بعد مسیح کس چیز کا نام ہے اور مسیح لوگ کون ہوتے ہیں۔ ہمارے سکول کے خاکروب کا نام راحت مسیح تھا اور ہمارے اپنے گھر میں جو بھنگی روزانہ آکر چھت پر موجود لیٹرین صاف کرتا تھا اس کا نام بھی الطاف مسیح تھا۔ہم اسے ”طافو“ کہا کرتے تھے۔ والدہ فرمایا کرتی تھیں کہ طافو کے ماں باپ بھی مسیح تھے۔ اس حوالے سے ہمیں قبل مسیح (ق۔م) بھی ایک نام ہی معلوم ہوتا تھا اور ہم سمجھتے تھے کہ سکندراعظم کے والد کا نام شاید ”323قبل مسیح“ ہوگا!
آج کے قارئین کو میری یہ باتیں بہت احمقانہ لگیں گی۔ لیکن ہمارا معاشرتی ماحول ایسا ”دیہاتی“ تھا کہ ان باتوں کو سوچنے، پرکھنے، جاننے اور پوچھنے کا تکلف کوئی بھی نہیں کرتا تھا۔ والدہ پرائمری پاس تھیں اور والد میٹریکولیٹ تھے۔ لیکن گھر میں ان کا دبدبہ ایسا تھا کہ اس قسم کی ”واہیات“ تفصیل جاننے کا ہم کو بالکل یارا نہیں تھا۔بس والدین اپنے کام میں مگن رہتے تھے اور ہم سکول، گھر، نہر، کھیتوں، کھلیانوں، بازاروں، گلیوں اور اپنے دوستوں کی ”دوستی“ میں گرفتار رہتے تھے۔ ان ”گرفتاریوں“ پر باقاعدہ ایک کتاب لکھی جاسکتی ہے جو آج کے سکولوں کے طلباء کے لئے ایک ”ناقابلِ فہم“ عجوبہ ہوگی۔
میٹرک تک اس دیہی ماحول میں پرورش پانے کے بعد جب اگلی کلاسوں میں گئے تو وہاں دنیا بدلی ہوئی تھی۔ ہمارا تعلیمی پس منظر ہمیں کالج کے اولین برسوں میں شرمسار رکھا کرتاتھا، اس لئے ہم اس حماقت کے حصار سے باہر نکلنے کے لئے بڑی شدت اور بڑی تیزی سے آگے بڑھنے پر مجبور تھے۔
سکندراعظم سے بات چلی تھی اور جب ہم نے آرمی میں آکر ایک دوست سے باتوں باتوں میں اپنی اس ”بصیرتِ علم و دانش“ کا ذکر کیاتو وہ بہت دیر تک ہمارا مذاق اڑاتے رہے۔ ان کا تعلق راولپنڈی کینٹ سے تھا اور وہ GHQ میں ایک ڈائریکٹوریٹ میں گریڈ ٹو (میجر) کے آفیسر تھے۔ دوسری طرف ہم بھی بہت ”سیانے“ ہو چکے تھے بلکہ فرزانگی کے دعویدار تھے اور کوئٹہ میں ایک انفنٹری ڈویژن ہیڈکوارٹر میں میجر کے رینک پر ”فائز“ تھے!اس دوران، ایک دن GHQ سے ایک موٹی سی کتاب ہمیں کوئٹہ میں موصول ہوئی جس کا نام Defeat into Victory تھا۔ یہ میرے سینئر دوست میجر مظفر نے بھجوائی تھی اور کہا تھا کہ:”چونکہ آپ تاریخ کے ”رسیا“ ہیں اس لئے یہ کتاب آپ کو بھیجی جا رہی ہے۔ فوج کے سینئر آفیسرز نے فیصلہ کیا ہے کہ انگریزی زبان کی ملٹری کلاسیک کا اردو میں ترجمہ کیا جائے۔ان میں یہ کتاب جو آپ کو بھیجی جا رہی ہے، وہ بھی شامل ہے۔ اس کے صفحات 500کے قریب ہیں۔ آرمی نے ایک صفحے کے ترجمے کے لئے 15/- روپے معاوضہ طے کیا ہے۔ اس کا ترجمہ کیجئے اور 7500/- روپے ”نقد“ حاصل کیجئے“۔
اس دور میں ایک میجر کی تنخواہ 2500/-روپے ماہوار تھی۔ مطلب یہ تھا کہ اس ترجمے سے 3ماہ کی تنخواہ یک مشت مل جائے گی۔ یہ آفر بڑی پُرکشش تھی۔ لیکن کتاب اگرچہ ملٹری ہسٹری کے موضوع پر تھی لیکن ملٹری ہسٹری اور جنرل ہسٹری میں جو فرق ہوتا ہے وہ ایک ضخیم مقالے کا طالب ہے اس لئے اس کی تفصیل پھر کبھی سہی۔ میجر مظفر نے یہ بھی بتایا کہ اس کے علاوہ اور بھی کئی افسروں کو یہ ملٹری کلاسیک برائے اردو ترجمہ بھیجی جا رہی ہیں۔ ان میں کرنل برکت علی ضیاء اور ان کے بڑے بھائی کرنل غلام سرور بھی شامل تھے۔ ان سے نیاز مندی کا رشتہ تھا۔
میں کرنل ضیاء کی خدمت میں حاضر ہواتو انہوں نے بتایا کہ چونکہ آپ کا مطالعہ ”جنرل ہسٹری“ تک محدود تھا اور یہ کتاب (Defeat into Victory) سراسر برما کی جنگ کے بارے میں ہے جو دوسری جنگ عظیم کا حصہ تھی، جو 1941ء میں شروع ہوئی اور 1945ء میں ختم ہو گئی۔ ان میں برطانویوں کے مقابلے میں جاپانی صف آرا تھے۔ اس لئے اگر فیلڈ مارشل ولیم سلم (Slim) کہ جو برما کی اس جنگ میں اتحادیوں کا کمانڈر تھا،اس معرکے میں اتحادی افواج کا کمانڈر نہ ہوتا تو جاپانی شاید برما سے نکل کر دہلی پر قبضہ کرلیتے اور آج ہم جاپان کے زیرِ تسلط ایک کالونی ہوتے۔
کرنل ضیاء نے مشورہ دیا کہ سب سے پہلے آپ اس کتاب کے مصنف اور برما میں اتحادی فوج کے اوورآل فیلڈ کمانڈر، فیلڈ مارشل ولیم سلم کی سوانح عمری کا مطالعہ کریں تو آپ کے لئے اس کتاب کا ترجمہ آسان ہو جائے گا۔ چنانچہ میں ملٹری سٹیشن لائبریری کوئٹہ میں گیا اور وہاں سے فیلڈ مارشل سلم کی سوانح پر لکھی گئی تین کتابیں اٹھا لایا۔ ان کو پڑھنے میں شاید چار ہفتے لگ گئے لیکن سمجھنے میں چار ماہ سے زیادہ کا عرصہ لگا۔
یہ جنرل ضیاء الحق کا زمانہ تھا اورانہی کے حکم پر ملٹری کلاسیک کے اردو ترجمے کروانے کا کام شروع کیا گیا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اردو زبان، عسکری لٹریچر کے اردو ترجموں کے لئے جنرل ضیاء الحق کی ہمیشہ رہینِ احسان رہے گی۔
دوسری جنگ عظیم جن ممالک کی سرزمین پر لڑی گئی وہاں قتل و غارت گری کا بازار تو خوب گرم ہوا لیکن اس خرابی میں تعمیر کی صورت یہ ہوئی کہ بعد از جنگ وہی ممالک کسی نہ کسی صورت میں پہلے سے زیادہ طاقت ور اور ”خوبصورت“ بن کر ابھرے۔ حسن کا راز ہی اس میں ہے کہ اس کو ثبات حاصل نہیں اور تغیر و تبدل زمانے کی ریت ہے۔ لہٰذا 1918ء میں پہلی جنگ عظیم میں شکست فاش کھانے والاجرمنی صرف 20سال کی قلیل مدت میں خم ڈھونک کر میدان میں آیا اور جہاں بہت سی دوسری تبدیلیاں زمانے کو دے گیا وہاں ہمیں پاکستان بھی دے گیا۔(جاری ہے)