تجدید جدوجہد آزادی
سلامتی ہوان لاکھوں گمنام شہید روحوں پر جنہوں نے قیام پاکستان کے لئے ہمیں ایک آزاد وطن کی نعمتوں سے نوازا، سلامتی ہو ان نڈر، بہادر شہید فوجی جوانوں پر جو اس ملک کی سلامتی پر قربان ہوئے، سلامتی ہو ان بے گناہ معصوم بچوں اور جوان شہریوں پر جو دہشت گردی میں لقمہء اجل بنے اور شہادت کا رتبہ پایا، آج 69 واں یوم آزادی مناتے ہوئے ایک سوال جو ہر جگہ اٹھایا جا رہا ہے کہ ہمارے بڑوں نے ایک آزاد اسلامی ملک کے لئے جو جدوجہد کی اور اپنے مستقبل کی تقدیر کے ساتھ جو فیصلہ کیا تھا اس وعدہ سے انحراف وانحراف کے بعد اب ایک ایسا وقت آن پہنچا ہے کہ اگر ہم نے اپنے اس عہد جس میں کلمہ طیبہ کے نظریہ حیات پر مبنی ہمارے ابتدائی معاہدہ کے جو خدوخال تھے ان کے پورے ہونے کے بجائے اس وقت ہجرت ثانی کا مدینہ پاکستان ایک ایسی ریاست میں تبدیلی ہو چکا ہے جہاں دولت کی غیر مساوی تقسیم اور انتہائی وسیع پیمانے کی بد عنوانیوں کی بدولت پاکستان کے اندر دو پاکستان بن چکے ہیں ایک اشرافیہ کا پاکستان جس نے ملک کے وسائل پر قبضہ کرنا اپنا حق سمجھا ہوا ہے، ملک کی سیکیورٹی فورسز کی ایک بڑی تعداد ان کے تحفظ کے لئے مخصوص ہے اور دوسری طرف وہ پاکستان جس میں بسنے والے غیر مراعات یافتہ لوگ جو روح اور جسم کے رشتہ کے تسلسل کو برقرار رکھنے کے لئے معاشی مراعات تو درکنار ان کے لئے انصاف کا حصول ایک بہت بڑا سوالیہ نشان بنے ہوئے ہیں۔
ریاست کی آزادی میں ہر شہری کو زندہ رہنے کا حق حاصل ہے لیکن یہ حق ایسا نہیں ہے کہ مستقل طور پر خوف اور غیر محفوظ صورتحال سے دو چار رہا جائے، فرد کی آزادی ہو یا فکر و احساس کی آزادی، ملکی سالمیت ان سب پر مقدم ہے، آزادی کا تعلق محض سوچ اور خیال سے نہیں بلکہ مادی زندگی کی آزادی سے بھی ہے جہاں بنیادی ضرورتیں پوری کرنے، آسودگی حاصل کرنے، اور بہتر زندگی بسر کرنے کی جدوجہد کی جاتی ہے، یہ امور آزادی کی جدوجہد کہلاتے ہیں۔ ہمیں جو آزادی نصیب ہوئی وہ برسوں کی جدوجہد اور قربانیوں کا نتیجہ تھی لیکن ہم نے اس آزادی کی قیمت کے آنے میں کئی فاش غلطیاں کی ہیں اور خود کو ایک آزاد ملک کا شہری مانتے ہوئے ان تمام حدوں کو پار کیا ہے جہاں نہ محبت ہے، نہ بے لوث رشتوں کی کسک، خود غرضی، تشدد، قتل و خون، رشوت خوری، بد انتظامی، غفلت، دھوکہ، فریب، ملاوٹ، ہیرا پھیری، فحاشی، عریانی، بے راہ روی، شدت پسندی بلندیوں کو چھو رہی ہے، اور فرائض زندگی، قومی پرچم، وطن سے پیار، ایک لپ سروس (بول بچن) دکھاوا ہے، ہم مانتے ہیں کہ آزادی انسانی زندگی کا بنیادی حق ہے جس سے خود نفسی، استقامت، راستی، بے باکی، جلال و حکمت جلا پاتی ہے لیکن جب ہم غلامی سے آزادی کے بعد کی تاریخ کو دیکھتے ہیں تو سر جھک جاتا ہے کہ کیا ہم نے ایسا پاکستان چاہا تھا جس میں ملک میں کس نے حکمرانی کرنی ہے یہ فیصلے باہر ہونے ہیں، قرضوں کی غلامی میں ملک گروی رکھ کر ہم نے آزادی کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے۔ اب قرضوں کی غلامی سے ہٹ کر ہم ایک ایسے سماجی ڈھانچہ میں تبدیل ہو چکے ہیں، جس میں مالیاتی خسارہ ہی نہیں، شناخت میں تنازعات کا خسارہ، اعتماد کا خسارہ، انسانی وسائل کے بہتر استعمال کا خسارہ، دولت کی غیر مساوی تقسیم کا خسارہ، خوراک، پانی، بجلی، گیس، تعلیم صحت کے خساروں کے ساتھ ساتھ انسانی جانوں کی دہشت گردی، جہالت کی دہشت گردی، مہنگائی کی دہشت گردی، ذخیرہ اندوزی، منافع خوری کی دہشت گردی، بے ضمیری، فحاشی، بے حیائی، اور مذہبی معاملات کو الجھانے کی دہشت گردی، ان تمام حالات و واقعات میں گزشتہ اٹھاون برسوں کے دوران جو کچھ ہوا ان میں ندامت ہی ندامت ہے اور آسماں ہماری اس بے حسی، بے ضمیری، وطن سے لاتعلقی پر لرزہ بہ اندازم ہے، آزادی کے نشہ میں آدھا ملک گنوانے کے بعد اس وقت کونسی دیمک ہے جو ملک کی جڑوں کو کھوکھلا نہیں کر رہی۔
وہ لوگ جو ہجرت کے دوران بچ کر پاکستان پہنچے ان کی تیسری نسل اب پروان چڑھ رہی ہے، آج ان کی اولادوں کی طرف سے سوال اٹھتا ہے کہ پاکستان کے لئے کیوں اتنی قربانیاں دی گئیں، کیا ضرورت تھی ان قربانیوں کے دینے کی، جب بتایا جاتا ہے کہ یہ ملک اسلام کے لئے بنایا گیا تو سوال ہوتا ہے کہ وہ کون سے محرکات تھے جن کی بنا پر ملک بنانے کی ضرورت درپیش آئی، کیا ہوا تھا اسلام کے ساتھ ہندوستان میں، کیا ہندوؤں کے ساتھ مشترکہ قومیت و شہریت کے رشتے استوار کرنے میں اسلام کے لئے خطرہ تھا، جب بتایا جاتا ہے کہ مسلمانوں کا الگ ملک اسلامی حکومت بنانے کے لئے بنایا گیا تھا تو سوال ہوتا ہے کہ کس لئے چاہئے تھی اسلامی حکومت، کیا ضرورت تھی اس کی، اس کے بغیر مسلمانوں کے رہنے سہنے میں کیا رکاوٹیں تھیں، گزشتہ 68 برس کے دوران حکومتی سطح پر ان سوالوں کے جواب کے لئے ہماری نصابی تاریخ میں کچھ نہیں، اگر تھوڑا بہت کچھ تھا تو وہ گزشتہ برسوں کے دور حکومت میں نصاب کا حصہ نہ رہا اور یہ تاریخ اس لئے نکالی گئی کہ امریکہ کے ایما پر ہم بھارت سے دوستی کے عمل کو بہتر بنائیں اور بھارت اکھنڈ بھارت کا خواب اپنے کلچر کو فروغ دے کر حاصل کر پائے۔
اگر ہم نے ملک گیر سطح پر ایسی آگہی فراہم کی ہوتی کہ ہندو کیا ہوتے ہیں، ان کی مکروہ چالیں مسلمانوں کے لئے کیا ہیں، ان کا وہ عقیدہ، مذہب، دھرم کیا ہے جو انہیں ہندو بنا کر ہم مسلمانوں کو ہر لحاظ سے متضاد اور متصادم کر دیتا ہے اور وہ مسلمانوں پر حاوی ہونا اپنے دھرم کا حصہ سمجھتے ہیں اس کی نمایاں جھلک بھارت کے مسلمانوں کے چہروں سے دیکھی جا سکتی ہے۔ آج نوجوانوں کی اکثریت اس بات سے آگاہ نہیں کہ اسلام کا پاکستان اور ہمارے ملکی تشخص سے کیا رشتہ ہے، قدیم ہندوستان کے بطن سے بھارت ابھرا اور وہ مسلمانوں کے ان اندیشوں کی جیتی جاگتی تصویر بنا جن کے خوف سے مسلمانوں نے وطن مانگا۔ تقسیم ہند کے بعد مغربی دنیا کے بیشتر مورخ یہ سمجھتے تھے کہ یہ جو تقسیم ہوئی ہے جلد ختم ہو جائے گی اس لئے کہ مسلمان اپنے آباؤ اجداد کی مد فون ہڈیوں سے ناطہ نہیں توڑتا لیکن ہجرت کرنے والوں نے یہ جدائی بھی برداشت کر کے ثابت کر دیا کہ جذبوں کی لگن مضبوط تھی۔
ملک میں ہر شخص یہ سوچ رہا ہے کہ ملک کا کیا بنے گا، کیا ہم اور ہماری نسلیں اسی طرح حالات کے ستم کاشکار رہیں گی، پوری قوم کی نگاہیں اس وقت افواج پاکستان کی طرف لگی ہوئی ہیں جنہوں نے قیام پاکستان سے لے کر اب تک ملکی سلامتی کے لئے بیش قیمت جانوں کے نذرانے دیئے ہیں، ضرب عضب نے ملک کو ایک نئی روشن سمت دی ہے جس سے نہ صرف دہشت گردی سے نمٹا جا رہا ہے بلکہ انتہا پسندی اور اپنی مرضی کی شریعت لانے کی تحریکوں کا قلع قمع کیا جا رہا ہے، پوری قوم یہ چاہتی ہے کہ سیاسی جماعتیں بلیم گیم میں ایک دوسرے کو کوسنے کی بجائے اب ملک پر رحم کریں اور دہشت گردی، کرپشن ، انتہا پسندی کے خاتمہ کے لئے افواج پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوں، اور عوام باہم متحد ہو کر لوٹنے والوں کے احتسابی عمل میں آگے بڑھیں، فیڈرل ازم کے تحت افواج پاکستان کے لئے ہی قربانیاں لازم نہیں ہیں ان لوگوں کو بھی لوٹے ہوئے مال کی قربانی دینا ہو گی جو انہوں نے معصوم ان پڑھ حقوق سے نا آشنا عوام سے لوٹا ہے، الیکٹرانک میڈیاکی گورننس کو اپیکس کمیٹی کا حصہ بناتے ہوئے ان کو کنٹرول کرنے کے لئے گیٹ کیپنگ کی ضرورت ہے، دولت لوٹ کر دولت بانٹ کر بے گناہی ثابت کرنے کا کلچر اب ملک کی داخلی سلامتی کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔
ہمارے تمام سیاستدانوں کو یہ بات مد نظر رکھنی چاہئے کہ بانی پاکستان نے اسلامیہ کالج پشاور میں قیام پاکستان کے پانچ ماہ بعد کہا تھا کہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو اپنا سکیں، اس معاملہ میں جمہوریت کی قدریں کیا قائد اعظمؒ کی آنکھوں میں آنکھیں ملا کر کچھ کہہ سکتی ہیں؟ مسلسل بد انتظامی عوامی استحصال کی بدولت آج 14 اگست 1947ء کے دن کا وہ جذبہ کہیں نظر نہیں آ رہا، وطن کے دشمن نہ صرف باہر ہیں بلکہ ہمارے ارگرد پھیل چکے ہیں جو علیحدگی کی دھمکیوں سے قوم کو مرعوب کرنے کے لئے عالمی ممالک کو خط لکھ رہے ہیں۔ عالمی طاقتیں ہماری نظریاتی ریاست کو ایک ناکام ریاست کے روپ میں ڈھال کر رکھنا چاہتی ہیں۔ باوجود تمام مسائل کے شہدائے وطن کی قربانیوں سے مہکتا پاکستان ایک نور ہے، نور کو زوال نہیں، مایوس ضرور ہیں لیکن ایسے رہبران کے منتظر ہیں جو اپنی ذات کی بجائے ملک کے لئے آگے بڑھیں اور اسے سنواریں۔ جب تک پاکستان میں وطن سے محبت کرنے والے زندہ ہیں جن کے پاس دوہری شہریت نہیں ملٹی پل ویزے نہیں، باہر کے ممالک میں اثاثہ جات نہیں، اس وطن پر آنچ نہیں آئے گی، اس کے پروانوں نے پہلے بھی قربانیاں دی ہیں اب بھی دیتے رہیں گے شاید کہ پروانے کا کام ہی محبت میں جلنا ٹھہرا۔