پاکستان کیوں بنا؟
یہ کتنا بڑا المیہ ہے کہ ہندوؤں، سکھوں اور انگریز وں کی ہزار مخالفتوں ، شرارتوں اور سازشوں کا مقابلہ کرتے ہوئے ،اورلاکھوں جانوں ، عصمتوں اور کروڑوں اربوں کی جائیدادوں کی قربانی دے کر پاکستان بنانے والوں کی تیسری نسل اِن تمام حالات و واقعات سے قطعاً ناواقف ہے ۔وہ اکثر نہایت معصومیت سے سوال کرتی ہے کہ پاکستان کیوں بنایا گیاتھا ؟ انڈیا کو کیوں توڑا گیاتھا؟ اگر ہم اکٹھے رہتے تو کیاتھا ؟ اور اگر ہم دوبارہ اکٹھے ہوجائیں تو کیا حرج ہے؟۔۔۔ اگر چہ اس موضوع پر اب تک بیسیوں کتابیں ، سینکڑوں مضامین اور ہزاروں صفحات لکھے جاچکے ہیں اور نئی نسل کو اُنہیں پڑھنا اور ہمیں اُنہیں پڑھانا چاہئے تھا لیکن بد قسمتی سے ہم نے یہ فرض ادا نہیں کیا جس کے نتیجے میں نئی نسل کے ذہنوں میں اس قسم کے سوالات پیدا ہو رہے ہیں۔ میں اپنے اس مضمون میں فرض کفایہ کے طور پر نئی نسل کو ہزاروں صفحات سے اُخذ و ماخوذ اُن وجوہات اورحالات وواقعات کی محض ایک جھلک دکھانے کی کوشش کروں گاجن سے گزرتے ہوئے مسلمانان ہند نے اپنے لئے ایک الگ وطن پاکستان بنا یا تھا۔مضمون کا آغاز میں ان دو جھلکیوں سے کروں گا۔
"اندرون بھاٹی گیٹ لاہو ر کے باسی اور تحریکِ پاکستان کے ایک سرفروش مجاہد مستری قمر دین کی ڈیوٹی رضاکاروں کے ایک انچارج کے طو ر پر واہگہ بارڈر پر لگی ہوئی تھی۔ ان کی موجودگی میں جو پہلا مسلمان مہاجر پاکستان میں داخل ہوا، اس نے پاکستانی پرچم لہراتا دیکھا، اس کا چہرہ تمتما اٹھا۔ وہ مستری قمر دین کی طرف بڑھااور پوچھا: "پُتر پاکستان آگیا اے؟" مستری قمر دین نے جواب دیا :"ہاں بابا جی! آپ اﷲتعالیٰ کے فضل و کرم سے پاکستان کی حدود میں کھڑے ہیں۔"اس شخص کی زبان سے فی الفور نکلا: " لاالہ الااﷲمحمد الرسول اﷲ" اور اس کی جان نکل گئی۔"(بحوالہ' ہندو راج کے منصوبے'مصنفہ ملک فضل حسین)
"دہلی سے چار ریل گاڑیا ں مہاجرین سے لدی ہوئیں لاہو ر کی جانب روانہ ہوئیں۔ تین گاڑیاں جب لاہور پہنچیں تو ان کے مسافروں کے لئے بہت دیر ہو چکی تھی۔ ان کی آنکھیں پاکستان کی سر زمین کو دیکھنے کے لئے ترستی رہیں لیکن جب ان کے جسم پاکستان پہنچے تو ان کی آنکھیں دیکھنے کے قابل نہ رہی تھیں۔ ان گاڑیوں کے ہر ڈبے سے خون کے قطرے ٹپک رہے تھے، دروازوں سے خون میں نہائے ہوئے بازو لٹک رہے تھے، نہ کوئی چیخ تھی اور نہ کوئی فریاد ، مکمل خاموشی تھی ۔۔موت کی خاموشی۔۔ان تین گاڑیوں کے ہزاروں مسافروں میں سے صرف ایک عورت لاشو ں کے ڈھیر کے نیچے سے شدید زخمی حالت میں زندہ برآمد ہوئی ۔"(بحوالہ'خونِ مسلم ارزاں ہے' مصنفہ ڈاکٹر سعید احمد ملک )
میرے نوجوان دوستو! یہ تھی وہ شدتِ جذبات اورلگن جس کے ساتھ مسلمانانِ ہند نے اپنے لئے ایک الگ وطن چاہا اور یہ تھے وہ حالات جن سے گزر کر اُنہوں نے یہ حاصل کیا ۔آئیے دیکھتے ہیں کہ الگ وطن کے حصول کی یہ شدت اور لگن اور اس کے لئے یہ نا قابل بیان قربانیاں دینے کی ضرورت اور حوصلہ کیوں کر پیدا ہوا ؟
ہندوستان ، ہندواور مسلمان ۔تصورِ پاکستان(1930ء )سے پہلے:
جس دن سے مسلمانوں نے سرزمینِ ہند پر قدم رکھا، اُن کے تمام تر اخلاص ، خوش اخلاقی اوررواداری کے باوجود ہندوؤں نے اُنہیں قبول نہیں کیا اور اُن سے لڑنا جھگڑنا اور اُنہیں مار بھگانے کی کوششیں شروع کردیں ۔اگر ملک کا فور نے مسلمان کا روپ دھا ر کرشاہی خاندان تک رسائی حاصل کی اورپھر اندرونی سازشیں کر کے خلجی بادشاہت کو بر باد کر ڈالا تو ہندوؤں کے ایک دوسرے جنگجو، سیوا جی، نے کہ جب اُسے اورنگزیب عالمگیر کی شاہی افواج کے ہاتھوں شکست ہورہی تھی مسلمان سالار افضل خان کو ہتھیار ڈالنے کی پیش کش کر کے بلایا اور گلے ملتے ہوئے پشت میں خنجر گھونپ کر ہلاک کر دیا ۔اور اعلان کیا کہ"میری تلوار مسلمانوں کے خون کی پیاسی ہے ۔ ۔۔میری بادلوں جیسی گرجنے والی فوجیں مسلمانوں پر تلواروں کا وہ مینہ برسائیں گی کہ دکن کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سارے مسلمان اِس سیلاب خون میں بہہ جائیں گے اور ایک مسلمان کا نشان بھی باقی نہ رہے گا۔"(بحوالہ' دیش کشتری سیوا جی ' مصنفہ پنڈت نند کمار شرما) مغل سلطنت کے خاتمہ تک ایسے واقعات تسلسل سے ہوتے رہے ۔1857ء کے بعد مسلمانوں کی حکومت تو نہ رہی لیکن ہندوؤں نے مسلمانوں کو ہندوستان سے مار بھگانے کے اپنے سالاروں کے اس عزم اورروایت کو جاری رکھا۔ہندوؤں کے مشہور لیڈر سوامی ستیہ دیونے1920ء میں کہا "دھر م کے لحاظ سے یہ عین ضروری ہے کہ قرآن کی تعلیم اقوام عالم سے نابود کردی جائے اور اُس کی جگہ راشٹر دھرم کی تعلیم مسلمانوں کو دی جائے ۔"1925 ء کے ملک گیر ہندو مسلم فسادات کے بعد ہندو مسلم اتحاد کے لئے ستیہ دیو ہری پراجک نے جو شرائط پیش کیں وہ کچھ اس طرح تھیں ۔
*۔ قرآن کو اسلامی کتاب نہ سمجھا جائے ۔
*۔ محمد (ﷺ) کو خدا کا رسول نہ مانا جائے ۔
*۔ عرب وغیرہ کا خیال دل سے نکال دیا جائے ۔
*۔ سعدی و رومی کی بجائے تلسی کبیر داس کی تصانیف کو زیرِ مطالعہ رکھا جائے ۔
*۔ اسلامی تہواروں پر تعطیلات کی بجائے ہندو تہوار اورتعطیلات منائی جائیں ۔
*۔مسلمان رام اور کرشن وغیرہ کے تہوار منائیں ۔
*۔ اسلامی نام رکھنے تر ک کر دیئے جائیں ۔
*۔ تمام عبادتیں عربی کی بجائے ہندی میں کی جائیں ۔
1925ء میں ہندوؤں کی متعصب مذہبی تنظیم" ہندو سنگھٹن "کے پروفیسر ہر دیا ل نے اخبارات میں یہ پیغام چھپوایاکہ "ہندو اور مسلمان ہندوستان میں صرف اس صورت میں مل جل کر رہ سکتے ہیں کہ حکومت ہندو کی ہو اور مسلمان اُس کی رعایا۔۔۔ہندو سنگھٹن کو صرف دو کام کرنے ہیں ، ایک ہندو سوراجیہ (آزادی)اور دوسرا شدھی (مسلمانوں کو ہندو بنانا)۔جب تک ساراہندوستان مسلمانوں کے وجود سے پاک نہیں ہوگا ہم کبھی چین سے نہیں سو سکیں گے"۔ 1927ء میں ہندوؤں کے انتہائی معتبر رہنما پنڈت بال گنگا دھر تلک نے اپنے مرنے سے پہلے مہاتما گاندھی کوپیغام بھجوایاکہ " ہمیشہ اس بات کا خیال رکھیں کہ جس طرح بھی ہوسکے ہندوستان کی سب جائیدادیں ہندوؤں کے قبضہ میںآجائیں ۔پھر صرف حکومت حاصل کرنے کا ایک مسئلہ باقی رہ جائے گا جس کا حل بالکل آسان ہو گا۔ مقدم بات یہ ہے کہ ہندو ستان کی تمام جائیدادوں کی ملکیت ہندو قوم کی ہوجائے ۔ " راشٹر یا سیوک سنگھ کے سربراہ گوالکر نے 1929ء میں کہا "تمام بدیشی اقوام (غیر ہندو)کو ہندو تہذیب اور ہندو زبان اختیار کرنی پڑے گی۔ اُن کے ذہنوں میں ہندونسل اور تمدن کی حمدو ثناء اور تعظیم و تکریم کے سواکوئی اور خیال جنم نہیں لینا چاہیئے ۔ اُنہیں اپنی انفرادیت ختم کر کے ہندو نسل میں گم ہونا پڑے گا۔"
اِنہی دنوں مہاتما گاندھی جو بظاہر مسلمانوں کے بڑے ہمدر د بنے پھرتے تھے اپنے اخبار "ینگ انڈیا" میں ان الفاظ میں ایک اعلان شائع کیا "مسلمان یا عرب حملہ آوروں کی اولاد ہیں یا وہ لوگ ہیں جو ہم میں سے تھے اور اب ہم سے الگ ہوچکے ہیں ۔انہیں اپنے ساتھ ملانے کے لئے ہمیں تین طریقے اختیار کرنے پڑیں گے ۔
* ۔ مسلمانوں کو اسلام سے الگ کر کے پرانے (ہندو)دھرم پر لایا جائے ۔
*۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تو مسلمانوں کو اُن کے اپنے قدیم علاقے (عرب)میں واپس بھیج دیا جائے ۔
*۔ اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو ان لوگوں کو ہندوستان میں رعایا یعنی کمین یا غلام بناکر رکھا جائے
ہندوستان کے ہندو مسلمانو ں کے بارے میں جو کچھ سوچتے اور زبان اور تحریر سے کہتے، موقع بے موقع اُس پر عمل بھی کرتے۔اول اول انہوں نے مسلمانوں کو ہندو بنانے کی کوششیں کیں اور اس مقصد کے لئے ہندو سنگھٹن اور شدھی جیسی تنظیمیں بنائیں اور تحریکیں چلائیں۔لیکن جب اس میں انہیں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ ہوئی تو انہوں نے دوسرے حربے آزمانے شروع کردیئے۔ مسلمانوں کے معاشی مقاطعے کئے گئے۔ اُن کی جائیدادیں اور کاروبار خرید خرید کر اُنہیں معاشی طور پر بدحال کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ انہیں مسجدوں میں اذانیں دینے ، اپنے تہوار منانے اور گائے ذبح کرنے پر مارا پیٹا اور قتل کیا گیا ۔ یہی نہیں ،نعوذبااﷲ نبی ﷺؓ کی توہین و تذلیل کی کوششیں کیں ۔اس مقصد کے لئے بے شمار کتابیں اور مضامین لکھے اور لیکچر دیئے گئے۔ان میں دو کتابیں 'ستیارتھ پرکاش' اور' رنگیلا رسول ' خاص طورپر قابل ذکر ہیں ۔جب کچھ نہ بن پڑا تو مسلمانوں کو معمولی معمولی باتوں پر تہ تیغ کرنا شروع کر دیاگیا۔مثلاً 1906ء میں بنارس میں معمولی بات پر مسلمانوں کوبے دردی سے قتل کیا گیا ۔1913ء میں اجودھیا میں گائے کی قربانی پر خونی فساد بر پا کیا گیا۔ 1914ء میں مظفر آباد میں بلوہ کیا گیا۔1917ء میں آرہ ، شاہ آباد، بلیا اور اعظم گڑھ کے علاقوں میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا۔1918ء میں کٹار پور میں خون ریزی ہوئی ۔1922ء میں ملتا ن میں ایک تعزیے کے جلوس پر اینٹ پھینک کر غارت گری شروع کردی گئی۔1925ء میں دہلی ، کلکتہ اور الہ آباد میں عید الفطر پر مسلمانوں کو خون میں نہلا یا گیا۔1926ء میں کلکتہ میں ہزاروں مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی گئی ۔1927ء اور اگلے چند سالوں میں لاہور ، بمبئی ، ملتان ، بریلی، ناگپورمیں 33مسلم کش فسادات بر پا کئے جن میں ہزاروں مسلمانوں کو موت کی گھاٹ اُتار دیا گیا۔
یہ اور اس قسم کے دیگر بے شمار واقعات اُس وقت کے ہیں جب پاکستان کے نام سے ایک الگ وطن کے خیال اور مطالبے کادور دور تک کوئی نام و نشان تک نہ تھا۔ لیکن مسلمان آخر کب تک ان حالات کو برداشت کرتے ۔ بالآخر اُن کی سوچیں اس نقطہ پر مرتکز ہونا شروع ہوگئیں کہ اگرمسلمانوں نے عزت اور آبرو کے ساتھ زندہ رہنا ہے اوراپنے دین، روایات اورتہذیب کو بچانا ہے تو اُنہیں برصغیرہندوستان میں ایک الگ خطہِ زمین درکار ہو گا،جہاں وہ ہندو اکثریت کی چیرہ دستیوں سے محفوظ رہیں۔اس قسم کی سوچ کاسب سے پہلا اظہار1928ء میں مولانا اشرف علی تھانویؒ ،1930ء میں ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ اور مولانا محمد علی جوہر اور 1933ء میں چوہدری رحمت علی کی طرف سے ہوا۔اور پھر آہستہ آہستہ یہ سوچ مسلمانانِ ہند کی اجتماعی سوچ بنتی چلی گئی ۔
ہندوستان، ہندو اورمسلمان ۔تصور پاکستان (1930ء)کے بعد:
جیسے جیسے ہندوستان کے مسلمانوں میں ایک الگ وطن کے حصول کی سوچ پروان چڑھتی چلی گئی، ہندوؤں کے غیظ وغضب اور اُن کے لیڈروں کی شعلہ بیانیوں میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔مثلاً نریندر پرشاد سکسینہ نے 1934ء میں جلسہ عام میں تقریر کرتے ہوئے کہا "ہندوؤں کو چاہیئے کہ اپنے دشمن مسلمان کو کچل ڈالیں۔" ایک اور ہندو لیڈر راما سوامی نے 1938ء میں کہا "مسلمانوں سے کہنا چاہیئے کہ وہ اپنے وطن عرب کو واپس جائیں اور وہاں جا کر ریت پھانکیں ۔" وغیرہ وغیرہ۔ اور پھر اُن کی اجتماعی سوچ اس طرف چلی گئی کہ مسلمانوں کا ہندوستان میں ناطقہ بند کر دیا جائے ۔انہیں ذہنی، سماجی، معاشی اور جسمانی طور پر اس قدر مفلوج و مجبور کر دیا جائے کہ وہ اِس مطالبے سے باز آجائیں یا اِس طرف پیش قدمی نہ کر سکیں ۔ اس کے لئے ہر ممکن حربہ استعمال کرنا شروع کر دیا گیا۔طعن و تشنیع ، توہین وتذلیل، اشتعال انگیزی اور پھر قتل و غارت ،ہندوؤں کا روزمرہ کا معمول بن گیا ۔بات بے بات مسلمانوں سے جھگڑا کھڑا کرنا اور پھر اپنی اکثریت کے بل بوتے پراُن کا قتل عام کرنا، اور اسے ہندومسلم فساد کا نام دینا، جبکہ ان میں مرنے والے صرف مسلمان ہی ہوتے تھے ،ہندوؤں کا دلچسپ مشغلہ بن گیا۔ 1935ء میں جب ہندوستان میں پہلی بار انتخابات ہوئے اور کچھ صوبوں میں حکومتیں مقامی سیاست دانوں کے حوالے کی گئیں جوکہ اکثریت کی بنیاد پر تقریباً تمام کے تمام ہندو تھے، مسلمانوں کے مصائب میں بے پناہ اضافہ ہوگیا ۔علاوہ ان تمام حربوں کے جو پہلے سے استعمال کئے جارہے تھے ، مسلمانوں کو دبانے کی ایک صورت یہ بھی نکالی گئی کہ جہاں کہیں کوئی مسلمان جانے یا انجانے میں کوئی جرم کر بیٹھتا اس پر بڑھ چڑھ کر فوجداری کی جاتی، لیکن دوسری طرف ہندوؤں سے ہر ممکن نرمی برتی جاتی ۔1928ء سے 1938ء تک ہندوستان میں اوسطاً دس لاکھ مقدمات ہر سال درج ہوتے تھے ، جن میں اوسطاً آٹھ لاکھ ملزمان گرفتار ہوتے اور ان میں سے اوسطاً سات لاکھ کو جیل کی ہوا کھانا پڑتی ۔ لیکن حیرت انگیز طور پر آبادی کا پندرہ فیصد ہونے کے باوجود اُن میں ساٹھ فیصد مسلمان ہوتے تھے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مسلمان ہندوؤں کے مقابلے میں زیادہ جرائم پیشہ تھے بلکہ یہ اُن کے خلاف ہندوؤں کے تعصب اور معاندانہ رویے کا عکس تھا ۔ 1939ء میں جب ہندوستان کے اکثر صوبوں میں کانگریسی حکومتیں تھیں ، سی آئی ڈی کی رپورٹوں پر ہندوستان بھر میں بغاوت اور غداری کے الزام میں17,928مقدمات درج کئے گئے۔ ان میں 5,465افراد کو موت یا کالا پانی کی سزا ہوئی ۔ان میں صرف 411غیر مسلم جبکہ باقی تمام مسلمان تھے جن میں بڑ ے بڑے سفید پوش، زمیندار، اُمراء اور جید علماء شامل تھے ۔(بحوالہ 'انسائیکلو پیڈیا تحریک پاکستان' مرتبہ اسد سلیم شیخ)
مسلمان جو شروع ہی سے ہندوؤں کے اس طرح کے رویوں کا شکار تھے ان بڑھتے ہوئے ظلم اور زیادتیوں کے نتیجے میں اپنے اُس عزم میں مزید پختہ ہوتے چلے گئے کہ اگر ہندو انہیں کسی طرح بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں تو اُن کا اپنا ایک الگ وطن ہونا چاہئے۔ایسے میں انہیں قائد اعظم محمد علی جناح ؒ جیسا عظیم لیڈر میسر آگیا۔1940ء کی قرارداد لاہور او رقائد اعظمؒ کی ولولہ انگیز قیادت کے تحت مسلمانان ہند متحد ہوتے چلے گئے اور مطالبہ پاکستان اُن کی حر زِ جاں بن گیا ۔ مسلم رہنماؤں کی ہندو اور انگریز دونوں کے ساتھ سیاسی ، قانونی اور آئینی جنگ کے شانہ بشانہ عام مسلمانان ہند کے جوش و خروش اور قربانیوں و ایثار کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا۔ایک طرف تحریک پاکستان قدم بہ قدم منزل کی طرف بڑھتی چلی گئی تودوسری طرف ہندوؤں کی ریشہ دوانیاں ، انگریز وں کی چالاکیاں اور سکھوں کی سفاکیاں بھی زور پکڑتی گئیں ۔کئی قانونی و آئینی بحران ، کئی گول میز کانفرنسیں اور کئی افہام تفہیم او ر ٹکراؤ کی فضائیں بنتی اور بگڑتی رہیں۔بال�آخر قائداعظم ؒ کی ذہانت ، قابلیت اور قائدانہ صلاحیتوں اور عوام کی بے پناہ استقامت ، جوش و جذبے اور ایثار و قربانیوں کے سامنے بے بس ہو کر تین جون 1947ء کوانگریز گورنمنٹ نے 15اگست 1947ء سے ہندوستان کو دو آزاد مملکتوں ، انڈیا اور پاکستان ، کے نام سے آزاد کرنے کا اعلان کر دیا ۔تقسیم ہند کے مسئلہ پر وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن بھی ہندؤوں کا ہم خیال تھا۔وہ کسی طرح بھی ہندوستان کو تقسیم نہ کرنا چاہتاتھا لیکن اُسے ہار ماننا پڑی ۔1948ء میں لندن میں قائد اعظم ؒ کی وفات کی خبر سن کر اُسنے انتہائی افسردہ لہجے میں کہا کہ اگر اُسے ذرا سا بھی اندازہ ہوتا کہ جناح اس قدر جلد فوت ہو جائیں گے تو وہ کسی نہ کسی طرح ایک دوسا ل معاملہ لٹکائے رکھتا لیکن ہندوستان کو تقسیم نہ ہونے دیتا ۔تاہم لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے اپنے خبث باطن کا مظاہر ہ کرتے ہوئے قیام پاکستان سے چند روز قبل ضلع گورداسپور اور ضلع فیروزپور جو تقسیم ہند کے تین جون کے اصل پلان کے مطابق پاکستان کا حصہ بننے والے تھے کو راتوں رات کسی کے اشارہٗ اَبر و پر پاکستان سے کاٹ کر ہندوستان میں شامل کر دیا جس سے ایک طرف توپاکستان سے جموں کشمیر جانے کا راستہ کٹ گیا اور دوسری طرف دریائے ستلج ، بیاس اور راوی کے منابع ہندوستان میں چلے گئے جن پر اُس نے بعد ازاں ڈیم بنا کراور نہریں نکال کر یہ تینوں دریا خشک کردیئے ۔ ایسا کرنے اور کروانے کا اصل مقصد بھی یہی تھا۔ہندو لیڈروں نے انتہائی بوجھل دلوں کے ساتھ اس تقسیم کو قبول کیا لیکن اس یقین کے ساتھ کہ پاکستان ایک الگ مملکت کے طورپر زیادہ دیر زندہ نہ رہ سکے گا اوربا ل�آ خر انڈیا سے واپس آملے گا۔ لیکن ہندو عوام نے اس پر سخت ردِ عمل کا اظہارکیا۔وہ قطعاً یہ توقع نہیں کررہے تھے کہ اُن کے لیڈر ملک کوتقسیم ہونے سے نہیں بچا سکیں گے اور یہ کہ مسلمان ایک الگ ملک بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ وہ غم و غصے سے پاگل ہوگئے اور پھر انہوں نے ہندوستان کے مسلمانوں پر ظلم وستم کی وہ تاریخ رقم کی جس پر انسانیت صدیوں خون کے آنسو بہاتی رہے گی ۔
1947ء میں ہندوؤں کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل وغارت کی داستان بہت ہی لمبی اور بہت ہی دردنا ک ہے ۔مصدقہ رپورٹوں کے مطابق پاکستان بنانے کے جر م میں ہندوؤں نے انتہائی وحشیانہ طریقے سے دس لاکھ مسلمانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا ۔ان میں وہ بھی شامل تھے جو ہندوستان کے مختلف علاقوں سے ہجر ت کر کے پاکستان کی طرف آرہے تھے اور وہ بھی جنہوں نے ہندوستان میں ہی رہنا تھا۔ اُس وقت کسی کا مسلمان ہو نا ہی اُس کا سب سے بڑا جرم تھا۔اس دوران ہندوؤں اور سکھوں کے منظم اور تربیت یافتہ جتھے کس طرح مسلمانوں پر حملے کرتے تھے یہ سرگزشت باؤنڈری فورس کے ایک غیرمسلم افسر کی چشم دیدشہادتوں کے مطابق یوں تھی ۔"ان کا طریقہ کا ریہ تھا کہ وہ گاؤں کے ایک طرف بموں اور آتشیں ہتھیاروں کا مظاہرہ کر کے دیہاتیوں کو دوسری طرف بھاگنے پر مجبور کر دیتے اور اُس طرف سکھوں کا ایک اور ہجوم برچھیوں اور تلواروں سے مسلح ہو کر اُن کا انتظار کررہا ہوتا تھا ۔اور یہ لوگ ایسا انتظام کرتے تھے کہ ہر مرد، ہر عورت، ہر بچہ قتل کر دیا جاتا تھا۔ اس کے بعد پچا س پچاس یا سو سو نعشوں کے ڈھیر لگا کر ان کو آگ لگا دی جاتی یا گڑھا کھو د کر ان نعشوں کو ا س میں ڈال دیا جاتا ۔ میں نے اس قسم کے بہت سارے انبار ترن تارن اور اس کے بعد امر تسر اور گورداسپور کے ضلعوں میں دریائے راوی کے کناروں پر اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں ۔ اس قتل عام کے بعد یہ جتھے گاؤں کو لوٹ لیتے اورپھر اسے آگ لگا دیتے ۔میں نے اپنے قیام کے دوران بعض نہایت خوفناک باتیں دیکھیں اور سنیں ۔مثلاً بیسیوں عورتیں اور بچے گھروں کے اندر بند کر کے زندہ جلا دیئے گئے ۔ حاملہ عورتوں کی عصمت دری کی گئی اور اس کے بعد اُنہیں نیزوں سے چھید ڈالا گیا۔ برہنہ مسلمان عورتوں کے جلوس نکالے گئے ۔ نوجوان لڑکیوں سے زبردستی بدکاری کی گئی اور پھر اُنہیں ان کے رشتے داروں کے سامنے قتل کر دیا گیا۔"(بحوالہ' انسائیکلو پیڈیا پاکستانیکا'مرتبہ سید قاسم محمود)
ریاست ہائے پٹیالہ ، کپورتھلہ ، فرید کوٹ ، جنڈ اور نابھہ میں آٹھ لاکھ تینتیس ہزار مسلمان آباد تھے ان میں سے اکثر کو اگست ستمبر 1947ء میں نیست و نابو د کر دیا گیا ۔ صرف پٹیالہ میں اڑھائی لاکھ مسلمانوں کا نام ونشان غائب کر دیا گیا ۔کپور تھلہ میں شاید ہی کوئی مسلمان زندہ بچا ہو ۔15ستمبر 1947ء کے روز مسلمان مہاجرین کا ایک بہت بڑا قافلہ اردیسہ سے پاکستان کے لئے روانہ ہوا۔ ان کو راستے میں جگہ جگہ مارا جاتا رہا۔ایک لاکھ کے قافلے میں سے صرف چار ہزار زندہ بچ کر پاکستان پہنچ سکے ۔امر تسر ، جالندھر ، ہوشیارپور،فیروزپور، رُہتک اور حصار میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ۔ ہزاروں جوان عورتوں نے کنوؤں میں چھلانگیں لگا کر خود کشی کر لی جبکہ ہزاروں کو ہندو سکھ اُ ٹھا کر لے گئے اور جو باقی تمام زندگی لونڈیاں بن کراُن کی خدمت کرتی اور بے نکاحی اُن کے بچے جنتی رہیں ۔ایسے سینکڑوں کنویں بعد ازاں دیکھے اوردریافت کئے گئے جو مسلمان عورتوں کی نعشوں سے پٹے پڑے تھے ۔مشرقی پنجاب کے اکثر مقامات پر مسلمان عورتوں کو اکٹھا کر کے اور پھربرہنہ کر کے سڑکوں اور گلیوں میں سے گزارا گیا اور پھر اُن کی اجتماعی آبروریزی کے بعد ٹکڑے ٹکڑے کر کے یا تو کنوؤں میں پھینک دیاگیا یا آگ لگا کر جلا دیاگیا ۔ ایک عینی شاہد کے مطابق چار سے چودہ ستمبر 1947ء تک نئی دہلی میں پچیس ہزار مسلمان مارے جا چکے تھے ۔نعشوں کو ٹرکوں میں بھربھر کر شہر کے وسط میں لایا گیااور پھراُن پر پٹرول ڈال کر جلا دیا گیا۔پٹیالہ ، کپورتھلہ ، الور، بھرت پور اور دیگر ریاستوں کے ہندو اور سکھ راجوں نے کس کس طرح اپنی مسلمان رعایا پر ظلم ڈھائے ،ایک لمبی کہانی ہے جو اِ س مختصر مضمون میں بیان نہیں کی جاسکتی ۔ اس قسم کے ہزاروں واقعات میں سے ایک یوں ہے کہ :"ڈاکٹر عبدالعزیز ،مہاراجہ پٹیالہ کا ذاتی معالج تھا۔ ایک روز مہاراجہ نے اسے محل میں بلوایا اور کہا کہ پٹیالہ میں برہنہ مسلمان عورتوں کا ایک جلوس نکالا جانے والا ہے ۔ تم میرے ساتھ بیٹھ کر یہ جلوس دیکھو۔ ڈاکٹر نے کہا حکمران رعایا کا باپ ہوتا ہے ، آپ کو اپنی رعایا پر ایسا ظلم نہیں کر نا چاہیئے ۔ اس پر مہاراجہ اتنا بر ہم ہوا کہ اس نے ڈاکٹر عبدالعزیز کو ایک ستون کے ساتھ بندھوا کر خنجر سے اس کی آنکھیں نکلوا دیں اور بڑی بے رحمی سے قتل کروا دیا اورپھر ٹریکٹر بھیج کر اس کے گھر کو مسمار کروا دیا ۔ گھر میں جتنے لوگ تھے وہ سب ٹریکٹروں کے نیچے آکر پس گئے ۔ بعد ازاں مہاراجہ پٹیالہ کے حکم سے ریاست کے ہزاروں مسلمانوں کو گرفتار کر کے قلعہ بہادر گڑھ پہنچا دیا گیا۔ یہاں تمام مرد قتل کر دیئے گئے اور عورتیں غنڈوں کے حوالے کر دی گئیں۔ " انگریز راج کے آخری دنوں میں ہندوستان میں تعینات ایک فوجی افسر لفٹیننٹ جنرل سر فرانسس ٹکر اپنی کتاب While Memory Serves میں لکھتا ہے "ہندو اورسکھ سمجھتے تھے کہ اُنہیں مسلمانوں کو قتل کرنے کی کھلی چھٹی مل گئی ہے ۔مسلمانوں کو بے دردی سے قتل کیا جارہاتھا۔مہاسبھااور اُس کے پالتو سیوگ سنگھی دن رات مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے تھے ۔ دہلی میں ولبھ بھائی پٹیل ببانگِ دُہل پکار پکار کر کہہ رہا تھا کہ مشرقی پنجاب میں اُس وقت تک امن قائم نہیں ہوسکتا جب تک وہاں ایک بھی مسلمان موجود ہے ۔" نوجوان دوستو! اگریہ سب کچھ جاننے کے بعد بھی آپ یہی سمجھتے ہیں کہ پاکستان غلط بنا تھا اور یہ کہ ہمیں دوبارہ ہندوستان کے ساتھ مل جانا چاہیئے تو دل پر ہاتھ رکھ کر ایک واقعہ اور سن لیں ۔"فیروزپور سے ستمبر 1947ء میں دو ہزار سات سو مسلمان مہاجرین کا قافلہ ایک مہاجر کیمپ میں آکر ٹھہرا ۔ مگر اے پاکستان کے مسلمانو ! اپنی نگاہیں نیچی رکھو، ان کی طرف نگاہ اٹھا کر مت دیکھو۔ ان کے جسموں پر کپڑے نا م کی ایک دھجی بھی نہیں ہے۔ اس قافلے کے تمام مرد و عورت بالکل برہنہ ہیں، بھارتی فوج اور سکھوں نے ان کے کپڑے تک اُتروالئے ہیں۔ " (بحوالہ 'خونِ مسلم ارزاں ہے' مصنفہ ڈاکٹر سعید احمد ملک )
میرے دوستو! یہ ہے اُن حالات کی ایک ہلکی سی جھلک جن سے گزر کر مسلمانان ہند نے اپنے لئے یہ ملک پاکستان حاصل کیا تھا۔
ہندوستان، ہندو اور مسلمان ۔ آزادی (1947 )کے بعد:
پاکستان معر ضِ وجود میں آگیا ،لیکن ہندو لیڈروں نے اُسے دل سے قبول نہ کیا۔ وہ پہلے دن سے ہی اِس خوش فہمی یا غلط فہمی کا شکار تھے کہ جس طرح کا 'لولا لنگڑا 'پاکستان (کیونکہ پہلے ہندوؤں نے انگریز سے ملی بھگت کر کے صوبہ بنگال او ر پنجاب کودونوں ملکوں میں تقسیم کر وایا اور پھر آخر وقت پر ضلع گورداسپور اور فیروزپور کو پاکستان سے کٹوا دیا ) مسلمانوں کو ملا ہے وہ کبھی اپنے پاؤں پر کھڑا نہ ہوسکے گااور آخر کارہندوستان سے واپس آملے گا۔اور اُنہوں نے کا نگریس کی جون 1947ء کی قرارداد میں اس کا برملا اظہار کیا ۔ 15اگست 1947ء کو پہلے یوم آزادی پر اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے ہندوستان کے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہر و نے واضح طور پر کہا کہ پاکستان میں رہ جانے والے ہندوخاطر جمع رکھیں، یہ تقسیم عارضی ہے، اور انہیں یقین ہے کہ جلد یا بدیر سب ہند و ایک بار پھر ایک ہی مادرِ وطن کے سایہ تلے اکٹھے ہو جائیں گے۔ اور انہوں نے پہلے دن سے ہی اُس پرعمل درآمد شروع کردیا ۔ آزادی کے موقع پر مسلمانوں کا جو قتل عام کیا گیااس کی ایک ہلکی سی جھلک پیچھے دکھائی جاچکی ہے ۔اس کے برعکس قائد اعظمؒ چاہتے تھے کہ دونوں ملک نئی حقیقتوں کو تسلیم کریں اورپرانے سیاسی اختلافات اور رنجشیں بھلا کر دوستانہ انداز میں آگے بڑھیں اور اُن کے تعلقات امریکہ اور کینیڈا جیسے ہوں۔ لیکن ہندوستان کی سیاسی قیادت نے نہ صرف اُن کی اس خواہش کو رد کر دیا بلکہ اس نوزائیدہ ریاست کو معاشی طور پر مفلوج کرنے کے لئے اس کے تسلیم شدہ اثاثہ جات مثلاًپاکستان کے حصے میں آنے والی ریل گاڑیاں ، فوجی سازوسامان ،خزانہ اور اسی طرح کے دیگر اثاثہ جات روک لئے ۔یہاں تک کہ حکومت پاکستان کے پاس کئی ماہ تک سرکاری ملازمین کو تنخواہیں دینے کے لئے پیسے نہ تھے ۔اُن کی ریشہ دوانیاں یہاں تک بڑھیں کہ قائداعظم ؒ نے وزیر اعظم برطانیہ کو یکم اکتوبر 1947ء کو ایک خط کا جواب دیتے ہوئے لکھا "مجھے یہ لکھتے ہوئے افسوس ہو رہا ہے کہ ہمارے دشمن ہماری ریاست کو اپاہج کرنے کے لئے ہمارے راستے میں مشکلات کھڑی کر رہے ہیں۔۔ حیران کن بات یہ ہے کہ ہندوستان کے چوٹی کے لیڈر بار بار اعلان کر رہے ہیں کہ پاکستان کو بہرحال ہندوستان یونین میں واپس آنا ہوگا ۔" (بحوالہ قائد اعظم ؒ پیپرز) اورپھریہی بات قائد اعظم ؒ نے برملا مارچ 1948ء میں ڈھاکہ میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بھی کہی۔
ہندوستان کے رہنما مسلمانوں کے ایک الگ وطن حاصل کر لینے پر اس قدر بر انگیختہ تھے کہ انہوں نے دم بھی نہ لیا اوراپنی اُن ریاستوں جہاں مسلمان اکثریت میں تھے یا جن کے حکمران مسلمان تھے اور انہوں نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا تھا کو سزا دینے کا فیصلہ کر لیا۔قانون آزادی ہند کی رو سے برصغیر کی تمام ریاستوں کو اختیار دیا گیاتھا کہ وہ چاہیں تو ہندوستان یا پاکستان میں سے کسی کے ساتھ الحاق کر لیں اور چاہیں تو آزاد رہیں ،لیکن ہندوستان نے عوام اور حکمرانو ں کی مرضی و منش�أکے خلاف اِن ریاستوں پر فوج کشی کر دی اور ایک سال کے اندر اندر ان ریاستوں کوہندستان میں ضم کر لیا ۔ یہ انضمام پُر امن نہ تھا ۔فوج کشی کے دوران فوج اور مقامی ہندوؤں نے مسلمانوں کے خون، عزت و آبرو اورجان ومال کے ساتھ وہ ہولی کھیلی کہ 1947ء کے واقعات بھی شرما گئے ۔
سب سے پہلے ہندوستانی افواج نے اکتوبر نومبر 1947ء میں جموں و کشمیر کا رخ کیا۔مسلمانوں کے ایک ایک گاؤں اور ایک ایک گھر پر دھاوا بولا گیا۔ مردوں کو اذیتیں دے دے کر اور عورتوں کو حتیٰ کہ دس دس سال کی بچیوں اور ساٹھ ساٹھ سال کی بو ڑھیوں کو وحشیانہ عصمت دری کے بعد قتل کر کے جمو ں و کشمیر کو فتح کرلیاگیا ۔ان دو ماہ میں جموں اور گردونواح میں پانچ لاکھ مردو ں ،عورتوں اور بچوں کو شہید کیاگیا ،اور یہ سلسلہ اب تک رکا نہیں ۔ 1947-48ء کی خون ریز ی کو چھوڑ کر ، جولائی 2000ء تک جموں و کشمیر میں 80,187مسلمانوں کو شہید کیا گیا ، 1375مسلمانوں کو زندہ جلایا گیا،17,446مسلمان عورتوں کی عصمت دری کی گئی ، 6,690مسلمان مردوں کو نامر دبنا دیا گیااور29,800قرآن اور دیگر اسلامی کتابیں جلادی گئیں ۔ گھروں، مکانوں ،دکانوں کی تباہی اور دوسرے نقصانات کا توکوئی شمار ہی نہیں ۔یہ تمام اعدادوشمار خود بھارتی اور بین الاقوامی ذرائع ابلاغ سے اخذ کئے گئے ہیں ۔ جموں و کشمیر کے بعد حیدر آباد دکن کی باری آئی ۔ حیدر آباد دکن ہندوستان کی سب سے بڑی اورآزادریاست تھی ۔ اس کا اپنا نظام حکومت ، قانون اور پاسپورٹ تھا ۔ اس ریاست پر سترہ اطراف سے حملہ کیا گیا ۔ ہوائی جہاز، ٹینک، بم اور دیگر تمام فوجی اسلحہ استعما ل کیا گیا۔ اور پھر حیدر آباد کی سوشلسٹ پارٹی کے مطابق ساڑھے تین لاکھ جبکہ دوسری جماعتوں کے مطابق آٹھ لاکھ مسلمانوں کی لاشوں اور اُن کے اہل و عیال کی عزتوں اور مال واسباب کو روندتے ہوئے ستمبر 1948ء میں اس ریاست کو ہندوستان میں شامل کر لیاگیا ۔ ریاست جونا گڑھ کوبھی اسی انداز میں ہندوستا ن میں ضم کیا گیا۔اور پھر آخری وار مشرقی پاکستان پر کیا گیا اور اس کو پاکستان سے کاٹ کر بنگلہ دیش کے نام سے ایک الگ ملک بنا دیا گیا۔پاکستان اور مسلمانوں سے ہندو کی نفرت کا یہ عالم ہے کہ 1971ء میں پاکستان کو دو لخت کرنے کے بعد ہندوستان کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اپنی پارلیمنٹ میں کھڑے ہو کر بیان دیا کہ آج ہم نے دو قومی نظریہ بحر ہند میں غرق کر دیا ہے اور اپنی ہزار سالہ شکست کا بدلہ لے لیا ہے ۔(بحوالہ 'خون مسلم ارزاں ہے ' مصنفہ ڈاکٹر سید احمد ملک)
ان' حکومتی سرگرمیوں 'کے ساتھ ساتھ متشدد ہندو پہلے سے بھی زیادہ غضب ناک ہوتے چلے گئے۔ اُن سے ہندوستان کا بٹوارہ کسی طرح ہضم نہ ہو رہا تھا ۔ان کا لب و لہجہ اور عمل پہلے سے بھی زیادہ شدید تر ہوتا چلا گیا۔ ہندورہنماتب سے اب تک تسلسل کے ساتھ اس قسم کے بیانات دیتے چلے آرہے ہیں کہ "مسلمانوں کے ساتھ وہی سلوک کرو جو نازیوں نے یہودیوں کے ساتھ کیا تھا ۔ انہیں گیس چمبر میں بند کر دو ۔۔۔اگر بھارت میں امن قائم کرنا ، اسے مستحکم کرنا اور اسے دنیا کی طاقت بناناہے تو یہاں کے مسلمانوں کو ہندو بنانا ہوگا اور بھارت کے اندر سے اسلام کا نام ختم کرنا ہوگا۔"(بال ٹھاکرے) "مسلمان دوقومی نظریہ ترک کرکے ہندو بن جائیں ورنہ حشر برپا کر دیا جائے گا۔"(جن سنگھی پروفیسر بلر ا ج مدھوک) "قرآن میں سے چھتیس آیات کو نکال دیا جائے ۔یہ نفرت پھیلاتی ہیں ۔ "(ویشواہندپریشد )
اس قسم کی تقریروں اور تحریروں کا جو رد عمل ہو سکتا تھا وہی ہوا۔ ہندو آج بھی ہندوستا ن میں موقع بے موقع مسلمانوں کے خلاف بلوے اور بلوؤں کے درمیان مردوں کا قتل عام، مسلمان عورتوں کی عصمت دری اور مال و اسباب لوٹتے رہتے ہیں ۔ ہندوستان کی وزارت داخلہ کے اپنے اعداد و شمار کے مطابق1947ء سے 1987ء تک چالیس سال کے دوران بھارت میں پینتیس ہزار ہندو مسلم فسادات ہوئے ۔ گویااوسطاً ہرسال 283۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ان فسادات میں دو لاکھ مسلمانوں کو موت کی گھاٹ اُتار دیا گیا۔ ان میں احمد�آباد گجرات کا 2001-02ء والا فسا د شامل نہیں جس میں ہندوستان کے موجودہ وزیراعظم نریندر مودی کی وزارت اعلیٰ کے دوران اور اُس کی ایما پر جس کا وہ برملا اظہار کرتا ہے ، ہزاروں مسلمان مردوں، عورتوں اور بچوں کو موت کی گھاٹ اُتار دیا گیا جن میں ہندوستان کی سرکردہ اور تین بار ہندوستان کی پارلیمنٹ کا ممبر رہنے والی شخصیت احسان جعفری، جس کے خاندان نے قیام پاکستان کے بعد ہجرت کرنے والے مسلمان دوستوں کے اصرار کے باوجود ہندوستان میں ہی رہنے کو ترجیح دی، بھی شامل ہیں جن کو وحشیانہ طور پر قتل کرنے کے بعد اُن کے گھر کی تمام چھوٹی بڑی عورتوں کی عصمت دری کی گئی اور پھر چھوٹے چھوٹے بچوں سمیت تمام اہل خانہ کو زندہ جلا دیا گیا ۔ (بحوالہ بالا)
بات یہیں پر ختم نہیں ہوجاتی ۔ آزادی کے بعد ہندو انتہا پسندوں نے مسلمانوں کی مساجد کو نشانے پر رکھ لیاا ور ایک کے بعد ایک مسجد پر اپنا دعویٰ جمانا شروع کر دیا۔ نہ صرف مساجد ملکہ مسلمانوں کے دور عہد میں تعمیر کردہ شاہی عمارات پر بھی۔ سب سے پہلے انہوں نے حضر ت معین الدین چشتی اجمیری ؒ کی درگاہ، پھر قطب مینار ،پھر تاج محل ،پھر بابری مسجد اور پھر ہر ہر جگہ کسی نہ کسی مسجد ، درگاہ یا عمارت پر یہ کہہ کر اپنا دعوی ٰ جمانا شروع کردیا کہ پہلے یہاں فلاں ہند ودرگاہ یا مند ر تھا۔ ملک بھرمیں انہوں نے تین سو کے لگ بھگ ایسی مساجد کی نشاندھی کر رکھی ہے ۔جن میں سے تاریخی بابری مسجد کووہ گرا چکے ہیں اور باقیوں کے درپے ہیں۔اس کے علاوہ لاتعداد عام مساجد پر بھی کسی نہ کسی بہانے قبضہ کر کے یا تو اُن کو بند کر دیا گیا ہے یا اُنہیں کسی سر کاری یا غیر سرکاری دفتر کے طورپر استعمال کیا جا رہا ہے ۔ صرف مشرقی پنجاب میں ایسی قبضہ شدہ مساجد کی تعداد 1990ء میں 9,620تھی۔ خود بھارت کے سابق وزیر مملکت رام لعل جی نے جنوری 1991ء کو بھارتی لوک سبھا میں بتایا کہ مشرقی پنجاب میں 5,720 مساجد اور 15مسلمان مسافر خانوں پر قبضہ کیا گیا ہے۔(بحوالہ بھارتی مسلمانوں پر کیا گزری؟ مصنفہ حکیم طارق محمود چغتائی)
میرے نوجوان دوستو!یہ ہے ہندو اور ہندوستان کااصل روپ اور وہ حالات جنہوں نے مسلمانان ہند کو مجبور کیا کہ وہ اپنے وجود، اپنے مذہب اور اپنی تہذیب و تمدن کے تحفظ کے لئے ایک الگ وطن بنائیں ۔ ہندوؤں کو ہندوستان پر مسلمانوں کے ایک ہزار سا ل تک حکومت کرنے کا دُکھ نہیں بھولتا ۔مسلم دشمنی اُن کی رگ و پے میں سرائیت کر کے اُن کی جبلّت کا حصہ بن چکی ہے ۔وہ آج اڑسٹھ سال بعد بھی پاکستان کو کمزور اور غیر مستحکم کرنے کے درپے ہیں۔ اس کا ایک بازو تو کاٹ ہی چکے، باقی وجود پر بھی خونخوار نظریں جمائے ہوئے ہیں۔ پاکستان کے اندر ہونے والی ہر تخریب کاری کے ڈانڈے بالآخر ہندوستان کی خفیہ ایجنسیوں سے جا ملتے ہیں ۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں، صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کو اُنہوں نے خصوصی طور پر اپنی تخریب کارانہ سرگرمیوں کا مرکز بنا رکھا ہے ۔اور اب پاکستان چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کو سبوتاژ کرنا اُن کا قومی ہدف ٹھہرا ہے۔نیتیں نیک ہوں تو جس طرح قائد اعظم ؒ نے چاہا ، دونوں ملکوں کے درمیان دوستانہ تعلقات بھی قائم کئے جاسکتے ہیں۔ لیکن بد قسمتی سے ہندوستان نے اب تک اس ضمن میں کبھی اپنی نیک نیتی کا کوئی ثبوت نہیں دیا ۔بلکہ تمام حالات و واقعات اور ثبوت ہمیشہ اس خیال کے خلاف ہی پائے گئے ہیں ۔پچھلے چند ماہ سے آزاد کشمیر کے سرحدی علاقوں پر ہندوستانی افواج کی مسلسل جارحانہ جنگی کارروائیاں اس کا بیّن ثبوت ہیں ۔ ان معروضی حالات میں لازم ہے کہ پاکستان کے مسلمان اپنے ذہن صاف رکھیں ، ماضی سے رشتہ نہ توڑیں،حقیقتوں کو فراموش نہ کریں ،دوست اور دشمن کی تمیز قائم رکھیں، سادگی میں دشمن سے بغل گیر ہوکرپیٹھ پر خنجر نہ کھائیں، اپنے بزرگوں کی قربانیوں کو نہ بھلائیں اوراُن لاکھوں کٹی پھٹی لاشوں اورلٹتی عصمتوں کی چیخوں کی طرف سے آنکھیں اور کان بند نہ کریں کہ یہ اسلام اور مسلمانوں کے تحفظ و بقاء کے لئے پاکستان کو وجود میں لانے والے شہیدوں اور غازیوں کا زادِ راہ ، اثاثہ اور ورثہ ہے ۔