گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا
پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے جو اسلام کے نام پر معرض وجود میں آئی اوراسلام اہل اسلام کو مہد سے لے کر لحد تک حصول علم کادرس دیتا ہے۔اسلامی جمہوریہ پاکستان 1971ء کے آئین کا آرٹیکل25۔ اے بھی ر یاست کے لئے لازم قرار دیتا ہے کہ وہ میٹرک تک کے بچوں کی مفت تعلیم کا بندوبست کرے، لیکن ہمارے ارباب بست و کشاد نے آئین کے اس آرٹیکل کو درخوراعتناء ہی نہیں سمجھا جس کی وجہ سے ملک عزیز میں شرح خواندگی ابھی تک59فی صدتک پہنچی ہے جبکہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت کی 85 فی صد اور بنگلہ دیش کی79 فی صد ہے۔ان اعدادوشمار سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ پچھلے77سالوں میں ہم نے اس انتہائی اہم شعبے کو بری طرح نظر انداز کیا ہے،جس کے باعث ہم تعلیمی و اخلاقی پستیوں کی اتھاہ گہرائیوں میں مسلسل گرتے چلے جارہے ہیں اور ہم ایک ایسی قوم بنتے جا رہے ہیں جسے قوم کہنا شاید اس لفظ کی بھی توہین ہے، کیونکہ جس ملک کا تعلیمی بجٹ صرف ۸۲۰ اور بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا ۶۰۰ بلین روپے ہو تواس ملک میں تعلیمیافتہ کم اور بھکاری زیادہ پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔
ملک عظیم میں اس وقت تین طرح کے تعلیمی ادارے قائم ہیں: سرکاری ادارے، دینی مدارس اور پرائیویٹ ادارے۔جہاں تک سرکاری تعلیمی اداروں کا تعلق ہے ان میں اساتذہ کو میرٹ پر بھرتی کیا جاتا ہے۔انہیں معقول تنخواہیں اور دیگر سہولیات میسر ہوتی ہیں۔ترقی کے مواقع بھی باقی سرکاری محکمہ جات سے کہیں زیادہ ہوتے ہیں۔ ان تعلیمی اداروں میں وسیع و عریض بلڈنگز اور کھیل کے میدان موجود ہوتے ہیں، لیکن ان کی مناسب مانیٹرنگ نہ ہونے کے باعث وہ حسب ِ توقع نتائج دینے سے قاصر ہیں،کیونکہ ہڈ حرامی ہمارے سرکاری ملازمین کے خون میں سرایت کر چکی ہے۔ یوں سرکاری اساتذہ کی نااہلی کے باعث لوگ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا رخ کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ زیادہ تر سرکاری اساتذہ کے بچے بھی پرائیویٹ اداروں میں زیر تعلیم ہیں۔
ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت پاکستان میں تقریباً 30ہزار رجسٹرڈ اور40 ہزار غیر رجسٹرڈ دینی مدارس اپنی مدد آپ کے تحت چل رہے ہیں۔ ان میں لاکھوں کی تعداد میں یتیم، غریب، بے سہارا اور معذور بچے زیر تعلیم ہیں اور کھاتے پیتے گھرانوں کے بچوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ان مدارس کو اسلام کے قلعے کہا جاتا ہے جو اسلام کی عظمت رفتہ کو بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن المیہ یہ ہے ان مدارس میں بچوں کو صرف بریلوی،دیوبندی، اہل حدیث اور شیعہ بنایا جاتا ہے۔ ایسے علماء کرام اُمت کو متحد کرنے کی بجائے فرقوں میں بانٹ کر اس کا شیرازہ بکھیر نے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ ان مسالک کے علیحدہ علیحدہ تعلیمی بورڈ قائم ہیں جو طلباء کا امتحان لے کر انہیں سند ِ فراغت بھی عطا کرتے ہیں۔یہاں سے فارغ التحصیل غیر ہنر مند علمائئ مسجدوں کے امام بن کر نہایت واجبی سی تنخواہ پر گزارہ کرتے ہیں۔
تیسری قسم کے اداروں میں پرائیویٹ تعلیمی ادارے شامل ہیں جن کی تعداد ملکی اداروں کا 44 فیصد ہے۔ان میں بھی دو قسم کے تعلیمی ادارے ہیں۔ پہلی قسم کے ادارے وہ ہیں جن کی کم از کم ماہانہ فیس30ہزار روپے ہے۔ حکومت کا نہ تو ان کے سلیبس پر کوئی کنٹرول ہے اور نہ ہی دوسری سرگرمیوں پر۔ایسے اداروں میں متمول خاندانوں کے بچے زیر تعلیم ہیں۔ان اداروں کا ایک مخصوص کلچر ہے جوصرف مسٹرپیدا کر رہا ہے۔ دوسری قسم میں وہ پرائیویٹ تعلیمی ادارے آتے ہیں جن کی فیسیں 1500 سے لے کے سات ہزار روپے ماہانہ تک ہیں۔ وہ بڑے مشکل حالات میں درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔عام طور پر وہ کرائے کی کوٹھیوں میں قائم ہیں۔غیر محفوظ مستقبل کے حامل اساتذہ کرام ان اداروں کے تلامذہ کا مستقبل سنوارنے کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔محکمہ تعلیم کے سارے قوانین ان بے چاروں پر ہی لاگو ہوتے ہیں۔یہ ادارے بچوں کو سخت محنت کرواتے ہیں تاکہ بچوں کے نمبر اچھے آئیں، ان میں بچوں کی تعدادبڑھے اور یوں گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔
جہاں تک ہماری پرائیویٹ یوینورسٹیوں کا تعلق ہے یہ مسلسل غیر ہنر مند بیروزگاروں کی ایک کھیپ پیدا کر رہی ہیں۔ان کے اکثر گریجوایٹس جیب میں ڈگریاں ڈال کر دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔میں نے ان یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل ایسے طلباء بھی دیکھے ہیں جو ماسٹر ڈگری ہولڈر ہیں۔کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا کے مترادف نہ تو انہیں انگریزی آتی ہے اور نہ ہی اردو۔ حتیٰ کہ وہ نوکری کے حصول کے لئے درخواست تک بھی نہیں لکھ سکتے۔ دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ وہ تو سائنس کے ماسٹر ہیں۔ ان کا انگریزی اوراردوسے کیا لینا دینا؟ حالانکہ سائنس کے ساتھ بھی ان کا تعلق واجبی سا ہوتا ہے۔ ظلم کی انتہا دیکھیں کہ ان یونیورسٹیوں میں پروفیسر صاحبان نے طلباء کے لئے مخصوص سوالات کے نوٹس تیار کیے ہوتے ہیں۔ وہی امتحانی پرچہ سیٹ کرتے ہیں اورخود ہی اس کی مارکنگ بھی کرتے ہیں۔اپنی کارکردگی دکھانے کے لئے طلباء کو ٹوکریاں بھر بھر کر نمبر دیتے ہیں۔انہیں چیک کرنے والا کوئی نہیں۔یوں تو ہمارے ہاں ہائیر ایجوکیشن کمیشن بھی قائم ہے جو ان یونیورسٹیوں کی مانیٹرنگ کرتا ہے لیکن ایسے لگتا ہے کہ کمیشن کا کام ان یونیورسٹیوں سے فیس بٹورنا ہی رہ گیا ہے۔یونیورسٹیاں کیا کر رہی ہیں؟ کیا پڑھا رہی ہیں؟ رزلٹ کس طرح تیار کر رہی ہیں؟اپنی مخصوص شدہ سیٹوں سے زائد طلباء کو داخلے کیوں دے رہی ہیں؟ اس کے ساتھ کمیشن کا کوئی تعلق نہیں ہے،کیونکہ وہ کمیشن ہے۔
اب ہم اصلاح احوال کے لئے کچھ تجاویز دیتے ہیں۔ ملائشیا کی زندہ مثال ہمارے سامنے ہے۔وہ تعلیم کے سر پرکہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔کیونکہ وہ اپنے جی ڈی پی کا تقریبا 20فی صد تعلیم پر خرچ کر رہا ہے۔ جب کہ ہم اپنے جی ڈی پی کا صرف 2.5فیصد تعلیم پر خرچ کر رہے ہیں۔ بھارت 2.9فی صداوربنگلہ دیش 11.0 فی صد خرچ کر رہا ہے۔اگر حکومت چاہتی ہے کہ ہمارا ملک ترقی یافتہ اقوام کی صف میں کھڑا ہونے کے قابل ہو سکے تواسے چاہئے کہ تعلیمی بجٹ کو بڑھا ئے۔ایسا سلیبس تجویز کرے جو قدیم و جدید علوم کا حسین امتزاج ہو تا کہ ہمارے تعلیمی اداروں سے فار غ التحصیل بچہ مسٹر بھی ہو اور ملا بھی۔ سرکاری ادارے این جی اوز کے حوالے کرنے کی بجائے کم از کم دوگنی تعداد میں نئے تعلیمی ادارے کھولے۔جماعت ششم سے ہی بچوں کو کوئی نہ کوئی ہنر سکھایا جائے۔ گرمی، سردی اور سموگ وغیرہ کے نام پر تعلیمی اداروں کو بند کرنے کا سلسلہ ترک کیا جائے۔بچوں کی اخلاقی تربیت کا بھی مناسب انتظام کیا جائے۔یہ پابندی بھی لگائی جائے کہ پارلیمنٹیرین اور تمام سرکاری ملازمین کے بچے صرف اور صرف سرکاری اداروں میں تعلیم حاصل کر یں گے۔ محکمہ تعلیم میں انتظامی کیڈر علیحدہ سے تشکیل دیا جائے۔الیکشن، فلڈ، مردم شماری،پولیو، ڈینگی وغیرہ جیسی ڈیوٹیوں سے اساتذہ کو استثناء دیا جائے۔پرائیویٹ یوینورسٹیوں میں ایکسٹرنل پیپر مارکنگ کا طریقہ اپنایا جائے۔تو پھرہم اس میدان میں ضرور سرخرو ہوں گے۔انشاء اللہ