خاندانی نظام کی توڑ پھوڑ۔بنیادی وجوہات    (1)

  خاندانی نظام کی توڑ پھوڑ۔بنیادی وجوہات    (1)
  خاندانی نظام کی توڑ پھوڑ۔بنیادی وجوہات    (1)

  IOS Dailypakistan app Android Dailypakistan app

ہمارے ہاں ثقافتی تہذیبی اور اخلاقی اقدار ہر آنے والے دن کے ساتھ تنزلی کا ہی شکار ہو رہی ہیں۔ جوائنٹ فیملی سسٹم کئی حوالوں سے ایک نعمت ہے لیکن ہماری کج فہمی، اخلاقی گراوٹ اور غیر تربیت یافتہ  معاشرے نے اسے گلے کی ہڈی بنا دیا ہے۔ اب صورت حال یہ ہے کہ  لڑکیوں کے دلوں میں شادی سے پہلے ہی ایک انجانا خوف جگہ بنا لیتا ہے اور وہ پہلے دن سے ہی اس سوچ اور کوشش میں لگ جاتی ہیں کہ کس طرح سے الگ  رہنے پر اپنے شوہر کو مائل کیا جا سکے۔ اگر لڑکی اس میں کامیاب ہو جاتی ہے تو لڑکا اپنے گھر والوں کی نظر میں شکل دکھانے کے قابل نہیں رہتا اور اگر وہ ناکام رہتی ہے تو اس کا ہر دن ایک اذیت اور کرب میں گزرنے لگتا ہے جس سے اس کی اپنی اور آنے والی نسل کی نشو و نما کا عمل مکمل تباہی کا شکار ہو کر رہ جاتا ہے۔ موجودہ حالات میں گھریلو زندگی پر سب سے برے اثرات ہمارے میڈیا نے ڈالے ہیں جس کے ڈراموں کے موضوعات ہی ساس بہو کے کرداروں کر منفی انداز میں پیش کرنے پر ختم ہوتے ہیں جو اسی ففتھ جینریشن وار کا حصہ ہے جس میں دشمن پر براہ راست حملے کی بجائے اس کی تہذیبی اقدار اور کلچر و ثقافت کو تبدیل کر کے اس کی بنیادیں ہی کمزور کر دی جاتی ہیں۔اخبارات او رمیڈیا میں اس طرح کے رونما ہونیو الے واقعات کو خاص طور پر اچھالا جاتا ہے اور یوں یہ خلیج مزید بڑھتی چلی جا تی ہے۔یہ واقعات اکا دکا ہوتے ہیں لیکن اس کی بڑے پیمانے پر تشہیر سے اس کے ذہنی و نفسیاتی نقصانات کو بڑھنے سے روکا نہیں جا سکتا اور یہ بین الاقوامی این جی اوز سے پیسہ بٹورنے والوں کے لیے بہترین چارے کے طور پر کام آتی ہے۔ اس میں دو رائے نہیں کہ اس حوالے سے بڑے پیمانے پر شعوری مہم کی اشد ضرورت ہے جو ظاہر ہے کہ کسی بڑے ادارے کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں۔پچھلے دنوں ایک دلخراش واقعہ پیش آیا جس میں سگی خالہ نے اپنے اکلوتے بیٹے کی بیوی جو اس کی بہن کی بیٹی تھی کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتار دیا۔ اس طرح کے واقعات بلاشبہ ہمارے معاشرے کی وہ بھیانک تصویر بن جاتے ہیں جس کے عکس پورے ماحول کو پراگندہ بنا دیتے ہیں۔ شادی کرتے وقت  بچوں سے زیادہ والدین کو باشعور ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔جسمانی بلوغت کے لیے عمر کی خاص حد مقرر ہے لیکن ذہنی بلوغت کا تعلق عمر کے ساتھ نہیں بلکہ شعور کے ساتھ ہے۔ کبھی یہ شعور بچوں میں والدین سے زیادہ ہوتا ہے اور کبھی والدین عمر کے آخری حصے میں پہنچ کر بھی ذہنی نابالغی کا شکار رہتے ہیں۔ اس لیے بچوں سے زیادہ ان کے والدین کو ان کی شادی سے پہلے ذہنی طور پر میچور ہونے اور نئی صورت حال کو قبول کر کے اس کے مطابق آئندہ زندگی کا لائحہ عمل ترتیب دینے کی ضرورت  ہوتی ہے۔شادی کے بعدپیدا ہونے والے  زیادہ تر مسائل بچوں سے بڑھ کر ان کے والدین کے حالات کی تبدیلی کو دانشمندی سے قبول نہ کرنے کے سبب پیدا ہوتے ہیں۔عورتیں جس  بڑے دل کے ساتھ داماد کو بیٹا سمجھ کر  قبول کر لیتی ہیں اس سے آدھی ہی اگر بہو کو بیٹی سمجھ کر قبول کر لیں تو کبھی کوئی مسئلہ پیدا نہ ہو۔ بیٹا اگر برسرروزگار ہے تو گھر کے اندر ہی اس کے معاملات کو الگ کردینے سے آدھے مسائل پیدا ہی نہیں ہوتے۔ بہو کے آنے سے پہلے نظام جس طرح چل رہا ہو اسے اسی طرح چلنے دیا جائے اور جس بیٹے کی شادی کر دی گئی ہے اس کی ذمہ داری اس کی بیوی کے سپرد کرنے سے گھر والوں کا آدھا کام تو ویسے ہی کم ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اگر زیادہ بیٹے ہیں تو جس جس کی شادی ہوتی جائے اس کی ذمہ داریوں کا بوجھ گھر سے کم ہوتا جاتا ہے۔ لیکن ہوتا یہ ہے کہ آنے والی بچی پر آتے ہی سارے گھر کی ذمہ داری ڈال دی جاتی ہے جسے اس ماحول اور طور طریقوں کو جاننے اور سمجھنے اور ایڈجسٹ ہوتے وقت لگتا ہے۔اپنے شوہر سمیت سب گھر والوں کے مزاج سے ہم آہنگ ہونا، ان کے معمولات کو جاننا اور اس کے مطابق ان کی خدمت کے لیے چاک و چوبند رہنا اسی کی ذمہ داری بن جاتی ہے۔ جس طرح سب لوگ ایک آنے والی بچی سے یہ توقع کر رہے ہوتے ہیں کہ یہ ہم سب کے مزاج کو سمجھ کر اس کے مطابق ڈھل جائے کیا ہی اچھا ہو کہ سب گھر والے مل کر اس بچی  جو اب آپ کے گھر کا فرد اور مستقل حصہ ہے کے مزاج کو بھی کچھ نہ کچھ سمجھ کر  اس کے مطابق اپنے آپ کو ایڈجسٹ کرنے کی کوشش کر لیں۔ لڑکی کو شادی کے بعد میچور ہوتے، حالات کی سنگینیوں اور نتائج سے نبرد آزما ہوتے بہت وقت لگتا ہے اور اکثر کے ہاتھ سے  تب تک صبر کا پیمانہ چھوٹ چکا ہوتا ہے۔ ساس بہو کی لڑائی میں سب سے گھناؤنا کردار لڑکے کے باپ کا بھی ہوتا ہے جو اس  معاملے میں اکثر خاموشی کا کمبل اوڑھ کر اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے گھر کو اپنی بیوی کے ہاتھوں خراب ہوتا دیکھتا چلا جاتا ہے۔ اسکی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں جس بنیادی وجہ بچوں کا برسر روزگار ہو جانا بھی ہوتا ہے جس کے سبب ماں کی طرف ان کا جھکاؤ فطری طور پر زیادہ ہوتا ہے اور یہ آہستہ آہستہ گھر کی ذمہ داریوں سے خود کوالگ کر کے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتا ہے۔بعد عورتیں خاوند کے ظلم کے بچوں کے بڑے ہونے تک برداشت کرتی چلی جاتی ہیں اور پھر اس کا راج شروع ہوجاتا ہے۔اس معاملے میں اگر لڑکے کا باپ اپنا درست کردار ادا کرے تو بہت ساری خرابیاں پیدا ہونے سے قبل ہی دم توڑ سکتی ہیں۔

(جاری ہے)   

مزید :

رائے -کالم -